مالیات میں اسلام افراد کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ ان کی آمدنیوں کا جو حصہ ان کی ضروریات سے بچ رہے، اسے جمع کریں یا دوسروں کو قرض دیں یا خود کسی کاروبار میں لگائیں یا کسی صنعت و تجارت میں اپنا سرمایہ دے کر اس کے نفع و نقصان میں حصہ دار بن جائیں۔ اگرچہ اسلام کی نگاہ میں پسندیدہ تو یہی ہے کہ لوگ اپنی فاضل آمدنیوں کو نیک کاموں میں خرچ کردیا کریں۔ لیکن وہ مذکورہ بالا طریقوں کو بھی جائز رکھتا ہے بشرطیکہ وہ حسب ذیل قواعد کے پابند ہوں۔
-1 جمع کرنے کی صورت میں وہ اس جمع شدہ دولت کا اڑھائی فی صد سالانہ حصہ لازماً ان کاموں کے لیے دیتے رہیں جن کا ذکر آگے زکوٰۃ کے زیر عنوان آرہا ہے، اور جب وہ مریں تو ان کا پورا سرمایہ اسلامی قانون میراث کے مطابق ان کے وارثوں میں تقسیم ہوجائے۔
-2 قرض دینے کی صورت میں وہ صرف اپنا دیا ہوا سرمایہ ہی واپس لے سکتے ہیں۔ کسی حالت میں سود کے مستحق وہ نہیں ہیں، خواہ قرض لینے والے نے اپنے ذاتی مصارف میں صرف کرنے کے لیے قرض لیا ہو یا کسی صنعت و تجارت میں لگانے کے لیے۔ اسی طرح وہ اس امر کا حق بھی نہیں رکھتے کہ اگر اپنے دیئے ہوئے مال کی واپسی کا اطمینان کرنے کے لیے انہوں نے مدیون سے کوئی زمین یا جائیداد رہن کے طور پر لی ہو تو وہ اس سے کسی قسم کا فائدہ اٹھائیں۔ قرض پر فائدہ بہرحال سود ہے اور وہ کسی شکل میں بھی نہیں لیا جاسکتا۔ علیٰ ہذا القیاس یہ بھی جائز نہیں ہے کہ نقد خریداری کی صورت میں ایک مال کی قیمت کچھ ہو اور قرض پر خریدنے کی صورت میں اس سے زیادہ ہو۔
-3 صنعت و تجارت یا زراعت میں براہ راست خود سرمایہ لگانے کی صورت میں ان کو ان قواعد کا پابند ہونا پڑے گا جو اوپر زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار کے سلسلے میں ہم بیان کرچکے ہیں۔
-4 حصے داری کی صورت میں ان کو لازماً نفع اور نقصان میں یکساں شریک ہونا پڑے گا، اور وہ ایک طے شدہ تناسب کے مطابق دونوں میں حصہ دار ہوں گے۔ شرکت کی کوئی ایسی صورت قانوناً جائز نہ ہوگی جس کی رُو سے سرمایہ دینے والا صرف نفع میں شریک ہو، اور مقرر شرح منافع کا لازماً حق دار قرار پائے۔