جدید تہذیب وتمدن نے بھی ایسے اسباب فراہم کر دیے ہیں جو افزائش نسل سے عام نفرت پیدا کرنے والے ہیں۔
مادہ پرستی نے لوگوں میں انتہا درجے کی غود غرضی پیدا کر دی ہے۔ ہر شخص اپنی آسائش کے لیے زیادہ سے زیادہ اسباب فراہم کرنا چاہتا ہے اورپسند نہیں کرتا کہ اس کے رزق میں کوئی دوسرا حصہ لے، خواہ وہ اس کا باپ، بھائی، بہن، حتیٰ کہ اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ امیروں اور دولت مندوں نے نفس پرستی کے لیے عیش وعشرت کے بے شمار طریقے اور سامان ایجاد کر دیے ہیں جن کو دیکھ دیکھ کر اوسط اور ادنیٰ درجہ کے لوگ بھی ان کی رِیس کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے اسباب عیش لوگوں کے لیے لوازم حیات بن گئے ہیں اور لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان چیزوں کے بغیروہ کسی طرح جی ہی نہیں سکتے۔ اس چیز نے معاشرت کے معیار کو اتنا بلند کر دیا ہے کہ ایک قلیل المعاش آدمی کے لیے اپنے ہی نفس کے تمام مطالبات کو پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے کجا کہ وہ بیوی اور اولاد کی ضروریات کا بھی کفیل ہو سکے۔{ FR 7087 }
عورتوں میں تعلیم، آزادی اور مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط نے ایک نئی ذہنیت پیدا کر دی ہے جو فطری وظائف سے ان کو روز بروز منحرف کرتی چلی جا رہی ہے۔ وہ گھر کی خدمت اور بچوں کی پرورش کو ایک گھنائونا کام سمجھتی اور اس سے جی چراتی ہیں۔ ان کو دنیا کی ہر چیز سے دلچسپی ہے مگر نہیں ہے تو گھر اور اس کے کام کاج اور بچوں کی نگہداشت سے۔ بیرون خانہ کے لطف چھوڑ کر اندرون خانہ کی کلفتیں برداشت کرنا وہ حماقت سمجھنے لگی ہیں۔ مردوں کے لیے جاذب نظر بننے کے لیے وہ لاغر انداز، نرم ونازک، حسین اور جوان بنی رہنا چاہتی ہیں۔ ان اغراض کے لیے وہ زہریلی دوائیں تک کھا کرجان دے سکتی ہیں۔{ FR 7088 } مگر بچے جن کر صحت خراب کرنا پسند نہیں کرتیں۔ کروڑہا روپیہ اپنے بنائو سنگھار اور اپنے لباس پر خرچ کر سکتی ہیں مگر بچوں کی پرورش کے لیے ان کے بجٹ میں گنجائش نہیں نکلتی۔
تہذیب وتمدن نے انتہا درجہ کی نفس پرستی پیدا کر دی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کریں مگر اس لذت کے ساتھ جو نتائج اور ذمہ داریاں فطرت نے مقرر کی ہیں ان سے بچے رہیں۔ زمانۂ حمل اور اس کے بعد بچوں کی پرورش سے اپنے عیش کو کَرکَرا کرنا انھیں ناگوار ہوتا ہے۔
بچوں کی تعلیم وتربیت اور آئندہ زندگی میں ان کے لیے کامیابی کے مواقع پیدا کرنے کی خاطر بہت سے لوگ (خصوصاً متوسط طبقے والے) ضروری سمجھتے ہیں کہ ایک دو بچوں سے زیادہ پیدا نہ کریں۔ ان کے معیار اور تخیلات اتنے بلند ہو گئے ہیں کہ ان کے وسائل معاش ان کے تخیلات کا ساتھ نہیں دے سکتے، اور ایسے بلند تخیلات کے مطابق زیادہ بچوں کو پرورش کرنا، تعلیم دلوانا اور زندگی میں اچھے آغاز (start) کے مواقع بہم پہنچانا ان کے لیے محال ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ تمدن نے ذرائع تعلیم وتربیت کو نہایت گراں قیمت بھی کر دیا ہے۔
دَہریت نے لوگوں کے دلوں سے خدا کا خیال ہی مٹا دیا ہے، کجا کہ وہ اس پر بھروسہ کریں اور اس کی رزَّاقی پر اعتماد رکھیں۔ وہ صرف اپنے موجودہ ذرائع ہی پر نظر رکھتے ہیں اور خود اپنے آپ کو اپنا اور اپنی اولاد کا رازق سمجھتے ہیں۔
یہ اسباب ہیں جن سے مغربی ممالک میں ضبط ولادت کی تحریک کو اس قدر تیزی اور وسعت کے ساتھ فروغ حاصل ہوا۔ اگر آپ ان اسباب پر غور کی نظر ڈالیں گے تو معلوم ہو گا کہ اہل مغرب نے پہلے خود ہی غلطی کی کہ اپنے تمدن ومعاشرت اور نظام معیشت کو سرمایہ داری، مادیت اور نفس رستی کی غلط بنیادوں پر تعمیر کیا۔ پھر جب یہ تعمیر اپنے کمال کو پہنچ کر اپنے برے نتائج ظاہر کرنے لگی تو انھوں نے اس پر دوسری حماقت یہ کی کہ اس ظاہر فریب نظام معیشت ومعاشرت اور طرز تہذیب وتمدن کو علیٰ حالہٖ برقرار رکھ کر اس کے ثمرات سے بچنے کی کوشش کی۔ اگر وہ عقل مند ہوتے تو ان اصل خرابیوں کو تلاش کرتے جن کی بدولت زندگی میں ان کے لیے یہ دشواریاں پیدا ہوئی تھیں اور اپنی زندگی میں ان کی اصلاح کے لیے کوشش کرتے لیکن انھوں نے اصلی خرابیوں کو سمجھا ہی نہیں اور اگرسمجھا بھی تو یہ ظاہر فریب تہذیب ومعاشرت ان کے لیے اس قدر خوشنما ہو چکی تھی کہ انھوں نے اس کو کسی صالح تر نظام حیات سے بدلنا پسند نہ کیا۔ برعکس اس کے انھوں نے چاہا کہ اس تہذیب وتمدن اور اس نظام معیشت ومعاشرت کو جوں کا توں قائم رکھ کر اپنی زندگی کی دشواریوں کو دوسرے طریقوں سے حل کریں۔ اس تلاش وتجسس میں ان کو سب سے زیادہ آسان طریقہ یہی نظر آیا کہ اپنی نسلوں کو بڑھنے سے روک دیں تاکہ اپنے وسائل معاش اور اسباب عیش سے بلاشرکت غیرے لطف اٹھانے کا موقع مل جائے اور آئندہ نسلیں ان کے ساتھ حصہ بَٹانے اور ان کی زندگی کو غیر مفید اور بے لطف ذمہ داریوں سے گرانبار کرنے کے لیے پیدا ہی نہ ہوں۔
\ \ \