اخلاق پر ضبط ِولادت کے مضر اثرات متعدد وجوہ سے مترتب ہوتے ہیں:
(ا) عورت اور مرد کو زنا کا لائسنس مل جاتا ہے۔ حرامی اولاد کی پیدائش سے سیرت پر بدنامی وذلت کا بدنما داغ لگ جانے کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ناجائز تعلقات پیدا کرنے میں دونوں کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔{ FR 7176 }
(ب) لذت پرستی اور بندگیِ نفس حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس سے ایک عام اخلاقی انحطاط وبائی مرض کی طرح پھیل جاتا ہے۔
(ج) جن زوجین کے ہاں اولاد نہیں ہوتی ان میں بہت سے وہ اخلاقی خصائص پیدا ہی نہیں ہوتے جو صرف تربیت ِ اطفال ہی سے پیدا ہوا کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیت ہے کہ جس طرح ماں باپ بچوں کی تربیت کرتے ہیں اسی طرح بچے بھی ماں باپ کی تربیت کرتے ہیں۔ بچوں کی پرورش سے ماں باپ میں محبت، ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ عاقبت اندیشی، صبروتحمل اورضبط ِنفس کی مشق بہم پہنچاتے ہیں۔ سادہ معاشرت اختیار کرنے پرمجبور ہوتے ہیں اور محض اپنی ذاتی آسائش کے پیچھے اندھے نہیں ہو سکتے۔ ضبط ِ ولادت ان تمام اخلاقی فوائد کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ توالد وتناسل کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنی صفتِ تخلیق وربوبیت کا ایک حصہ انسان کو عطا کرتا ہے اور اس طرح یہ انسان کے لیے متخلق باخلاق اللہ ہونے کا ایک بڑا وسیلہ ہے۔ ضبط ِولادت پر عمل کرنے سے انسان اس بڑی نعمت کو بھی کھو دیتا ہے۔
(د) ضبط ِولادت سے بچوں کی اخلاقی تربیت نامکمل رہ جاتی ہے۔ جس بچے کو چھوٹے اور بڑے بھائی بہنوں کے ساتھ رہنے سہنے، کھیلنے کُودنے اور معاملت کرنے کا موقع نہیں ملتا وہ بہت سے اعلیٰ اخلاقی خصائص سے محروم رہ جاتا ہے۔ بچوں کی تربیت صرف ماں باپ ہی نہیں کرتے بلکہ وہ خود بھی ایک دوسرے کی تربیت کرتے ہیں۔ ان کا آپس میں رہنا ان کے اندر ملنساری، محبت وایثار، تعاون ورفاقت اور ایسے ہی بہت سے اوصاف پیدا کرتا ہے اور وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرکے خود ہی اپنے بہت سے اخلاقی عیوب کو دور کر لیتے ہیں۔ جو لوگ ضبط ِولادت پر عمل کرکے اپنی اولاد کو صرف ایک بچے تک محدود کر لیتے ہیں یا دو بچے اس طرح پیدا کرتے ہیں کہ ان میں عمر کا بہت زیادہ تفاوت ہوتا ہے وہ دراصل اپنی اولاد کو ایک بہتر اخلاقی تربیت سے محروم کر دیتے ہیں۔{ FR 7177 }