اسلام اشیاء استعمال اور ذرائع پیداوار کے درمیان ان طرح کا کوئی فرق تسلیم نہیں کرتا کہ ایک پر شخصی ملکیت جائز ہو اور دوسرے پر نہ ہو۔ اس کے نزدیک یہ بات بالکل جائز ہے کہ ایک آدمی دوسرے لوگوں کے لیے ان کی ضروریات زندگی میں سے کوئی چیز تیار یا فراہم کرے اور اسے ان کے ہاتھ فروخت کرے۔ یہ کام وہ خود اپنے ہاتھ سے بھی کرسکتا ہے اور دوسروں سے اجرت پر لے بھی سکتا ہے۔ ایسے سامان کی تیاری یا فراہمی میں وہ جس مواد خام کو، جن آلات کو اور جس کارگاہ کو استعمال کرے، ان سب کا وہ مالک ہوسکتا ہے۔ یہ سب کچھ جس طرح صنعتی انقلاب کے دور سے پہلے جائز تھا اسی طرح اس دور میں بھی جائز ہے۔ مگر بے قید صنعت و تجارت نہ پہلے صحیح تھی اور نہ اب صحیح ہے۔ اسلامی اصول پر اسے حسب ذیل قواعد کا پابند بنانا ضروری تھا اور ہے:
-1 کسی ایسی فنی ایجاد کو، جو انسانی طاقت کی جگہ مشینی طاقت سے کام لیتی ہو، صنعت و حرفت اور کاروبار میں استعمال کرنے کی اس وقت تک اجازت نہ دی جائے جب تک اس امر کا اچھی طرح جائزہ نہ لیا جائے کہ وہ کتنے انسانوں کی روزی پر اثر ڈالے گی اور یہ اطمینان نہ کرلیا جائے کہ ان متاثر ہونے والے لوگوں کی معیشت کا کیا بندوبست ہوگا۔
-2 اجیروں اور مستاجروں کے درمیان حقوق اور فرائض اور شرائط کار کا تفصیلی تعین تو بہرحال فریقین ہی کی باہمی قرارداد پر چھوڑا جائے گا مگر ریاست اس معاملے میں انصاف کے چند اصول لازماً طے کردے۔ مثلاً ایک کارکن کے لیے کم سے کم تنخواہ یا مزدوری کا معیار، زیادہ سے زیادہ اوقات کار کی حد، بیماری کی حالت میں علاج کے اور جسمانی نقصان کی صورت میں تلافی کے اور ناقابل کار ہوجانے کی حالت میں پنشن کے کم از کم حقوق اور ایسے ہی دوسرے امور۔
-3 اجیرو مستاجر کی نزاعات کا تصفیہ حکومت اپنے ذمے لے اور اس کے لیے باہمی مفاہمت، ثالثی اور عدالت کا ایک ایسا ضابطہ مقرر کردے جس کی وجہ سے ہڑتالوں اور دربندیوں (Lock Out) کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔
-4 کاروبار میں احتکار(۱) (Hoarding) سٹے (Speculation) تجارتی قمار بازی اور غائب سودوں کی قطعی ممانعت کردی جائے اور ان تمام طریقوں کو از روئے قانون بند کیا جائے جن سے قیمتوں پر ایک مصنوعی آماس چڑھتا ہے۔(۲)
-5 پیداوار کو قصداً برباد کرنا جرم قرار دیا جائے۔
-6 صنعت اور تجارت کا ہر شعبہ حتی الامکان مسابقت کے لیے کھلا رہے اور اجارہ داریوں سے کسی شخص یا گروہ کو ایسے امتیازی حقوق نہ مل جائیں جو دوسرے لوگوں کو حاصل نہ ہوں۔
-7 ایسی صنعتوں اور تجارتوں کی اجازت نہ ہو جو عامتہ الناس کے اخلاق یا صحت پر برا اثر ڈالتی ہوں۔ اس طرح کی کوئی چیز اگر کسی پہلو سے ضروری ہو تو اس کی صنعت و تجارت پر تابحدّ ضرورت پابندیاں عائد کی جائیں۔
-8 حکومت نازی طریقے پر صنعت و تجارت کو بالکل اپنے تسلط (Control) میں تو نہ لے، مگر رہنمائی اور توفیق (Co-ordination) کی خدمت لازماً انجام دیتی رہے تاکہ ملک کی صنعت و تجارت غلط راستوں پر بھی نہ جانے پائے، اور معاشی زندگی کے مختلف شعبوں میں ہم آہنگی بھی پیدا ہوسکے۔
-9 اسلامی قانون میراث کے ذریعے سے زمینداروں کی طرح صناعوں اور کاروباری لوگوں کی سمیٹی ہوئی دولت بھی پیہم تقسیم ہوتی رہے تاکہ مستقل دولت مند طبقے نہ بننے پائیں۔
-10 اہل زراعت کی طرح تاجروں اور صناعوں اور کاروباری لوگوں سے بھی ان کی آمدنیوں کا ایک حصہ ان مقاصد کے لیے لازماً لے لیا جائے جن کا ذکر آگے زکوٰۃ کے زیر عنوان آرہا ہے۔