عائلی زندگی میں ضبط ِ ولادت کے جو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کی طرف اوپر ضمناً اشارہ کیا جا چکا ہے۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات پر اس کا پہلا اور فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ جب دونوں کے داعیاتِ فطرت کی تکمیل نہیں ہوتی تو ایک غیر محسوس طریقہ پر دونوں میں ایک طرح کی اجنبیت پیدا ہونے لگتی ہے جو بعد میں مودت ورحمت کی کمی، سرد مہری اور آخر کار نفرت وبے زاری تک پہنچ جاتی ہے۔ خصوصاً عورت میں ان طریقوں کی مداومت سے جو عصبی ہیجان اور چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے وہ خانگی زندگی کی ساری مسرتوں کو غارت کر دیتا ہے۔
لیکن اس کے علاوہ ایک اور بڑا نقصان بھی ہے جو مادی اسباب سے زیادہ روحانی اسباب کی بدولت رونما ہوتا ہے۔ جسمانی حیثیت سے تو عورت اور مرد کا تعلق محض ایک بہیمی تعلق ہے جیسا جانوروں میں ہوتا ہے۔ مگر جو چیز اس تعلق کو ایک اعلیٰ درجہ کا روحانی تعلق بناتی ہے اور اس کو مودت ورحمت کے ایک گہرے رابطہ میں تبدیل کر دیتی ہے وہ اولاد کی تربیت میں دونوں کی شرکت اور معاونت ہے۔ ضبط ِولادت اس مضبوط روحانی رابطہ کو وجود میں آنے سے روکتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان کوئی گہرا اور مستحکم تعلق پیدا نہیں ہوتا اور ان کے تعلقاتِ بہیمیت کے درجہ سے آگے بڑھنے نہیں پاتے۔ اس بہیمیت کا خاصہ یہ ہے کہ کچھ مدت تک ایک دوسرے سے لطف اندوز ہونے کے بعد دونوں کا دل ایک دوسرے سے بھر جاتا ہے۔ پھر اس بہیمیت کے تعلق میں ہر مرد وعورت کے لیے ہر مرد وعورت یکساں ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ایک جوڑا ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہو کر رہ جائے۔ وہ اولاد ہی ہے جو زوجین کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے وابستہ رہنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جب وہ نہ ہو تو ان کا باہم جڑ کر رہنا سخت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں زوجی تعلقات نہایت ضعیف ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ضبط ِولادت کی تحریک کے ساتھ ساتھ طلاق کا رواج اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے کہ درحقیقت وہاں عائلی زندگی اور خاندانی نظام کا سارا تاروپود بکھر تا نظر آتا ہے۔