اسلام تمام دوسری ملکیتوں کی طرح زمین پر انسان کی شخصی ملکیت تسلیم کرتا ہے جتنی قانونی شکلیں ایک چیز پر کسی شخص کی ملکیت قائم و ثابت ہونے کے لیے مقرر ہیں ان ساری شکلوں کے مطابق زمین بھی اسی طرح ایک آدمی کی ملکیت ہو سکتی ہے جس طرح کوئی دوسری چیز، اس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ ایک گز مربع سے لے کر ہزار ہا ایکڑ تک خواہ کتنی ہی زمین ہو، اگر کسی قانونی صورت سے آدمی کی ملک میں آئی ہے تو بہرحال وہ اس کی جائز ملک ہے۔ اس کے لیے خود کاشت کرنے کی قید بھی نہیں ہے جس طرح مکان اور فرنیچر کرائے پر دیا جاسکتا ہے اور تجارت میں شرکت کی جاسکتی ہے، اسی طرح زمین بھی کرائے پر دی جاسکتی ہے اور اس میں بھی شرکت کے اصول پر زراعت ہوسکتی ہے۔ بلاکرایہ کوئی شخص کسی کو دے، یا بٹائی لیے بغیر کسی کو اپنی زمین میں کاشت کرلینے دے تو یہ صدقہ ہے، مگر کرایہ و لگان(۱) یا بٹائی پر معاملہ طے کرنا ویسا ہی ایک جائز فعل ہے جیسے تجارت میں حصہ داری یا کسی دوسری چیز کو کرایہ پر دینا۔ رہیں ’’نظام جاگیرداری‘‘ کی وہ خرابیاں جو ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں تو نہ وہ خالص زمینداری کی پیداوار ہیں اور نہ ان کا علاج یہ ہے کہ سرے سے زمین کی شخصی ملکیت ہی اڑا دی جائے، یا اس پر مصنوعی حد بندیاں عائد کی جائیں جو ’’زرعی اصلاحات‘‘ کے نام سے آج کل کے نیم حکیم تجویز کررہے ہیں بلکہ اسلامی اصول پر ان کا علاج یہ ہے:
-1 زمین کی خریدوفروخت پر سے تمام پابندیاں اٹھا دی جائیں اور اس کا لین دین بالکل اسی طرح کھلے طور پر ہو جس طرح دنیا کی دوسری چیزوں کا ہوتا ہے۔
-2 زراعت پیشہ اور غیر زراعت پیشہ طبقوں کی مستقل تفریق ہر شکل اور ہر حیثیت سے قطعی ختم کر دی جائے۔
-3 وہ مخصوص امتیازی حقوق بھی ازروئے قانون منسوخ کر دیئے جائیں تو ہماری زندگی میں مالکان زمین کو حاصل ہیں۔
-4 مالک زمین اور کاشتکار کے درمیان حقوق و فرائض اَزرُوئے قانون مقرر کر دیئے جائیں اور ان مقرر حقوق کے ماسوا کسی دوسری قسم کے حقوق مالکان زمین کو اپنے مزارعین پر حاصل نہ ہوں۔
-5 زمینداری کی واحد صورت صرف یہ باقی رہنے دی جائے کہ مالک زمین اور مزارع کے درمیان تجارت کے شریکوں جیسا تعلق ہو۔ اس سے گزر کر جو زمینداری آلۂ ظلم بن جائے، یا ریاست کے اندر ایک ریاست کی شکل اختیار کر جائے یا جسے ناجائز طریقوں سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بنالیا جائے وہ چونکہ جائز زمینداری کی تعریف سے خارج ہے اس لیے اسے شخصی ملکیت کا وہ تحفظ حاصل نہ ہو جو صرف جائز زمینداری کا حق ہے۔
-6 میراث کے معاملے میں تمام رسومِ جاہلیت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ زمینداروں کی موجودہ املاک شرعی طریقے پر ان کے زندہ وارثوں کے درمیان تقسیم کر دی جائیں اور آئندہ کے لیے زرعی جائیدادوں کے معاملے میں اسلام کا قانون میراث ٹھیک ٹھیک نافذ کیا جائے۔
-7 زمین بے کار ڈال رکھنے پر پابندی عائد کردی جائے۔ مثلاً یہ کہ جو زمینیں حکومت نے کسی کو بلامعاوضہ دی ہوں وہ اگر تین سال سے زیادہ مدت تک بے کار ڈال رکھی جائیں گی تو عطیہ منسوخ ہوجائے گا اور جو زر خرید زمینیں افتادہ چھوڑ رکھی جائیں گی ان پر ایک خاص مدت کے بعد ٹیکس لگا دیا جائے گا۔
-8 زمینداروں اور کاشت کاروں سے ان کی پیداوار کا ایک مخصوص حصہ ان مقاصد کے لیے الگ لے لیا جائے جن کا ذکر آگے زکوٰۃ کے زیر عنوان آرہا ہے۔
-9 نئے سائنٹفک طریقوں سے اگر بڑے پیمانے کی کاشت کرنی ہو تو اس کے لیے امداد باہمی کے ایسے ادارے قائم کئے جائیں جن میں چھوٹے چھوٹے مالکان زمین اپنے مالکانہ حقوق قائم رکھتے ہوئے آپ کی رضامندی سے اپنی املاک کو ایک بڑے کھیت میں تبدیل کرلیں اور مل جل کر ایک انجمن کی طرح اس کے کاروبار چلائیں۔
کیا ان اصلاحات کے بعد زمینداری میں کوئی ایسی خرابی باقی رہ جاتی ہے جس کی معقولیت کے ساتھ نشاندہی کی جاسکتی ہو۔(۱)