Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

پیش لفظ: جدید اڈیشن
عرضِ ناشر
دیباچہ: طبع ہفتم
دیباچہ: طبع اول
مقدمہ
تحریک ضبط ولادت کا مقصد اور پس منظر
تحریک کی اِبتدا
ابتدائی تحریک کی ناکامی اور اس کا سبب
جدید تحریک
ترقی کے اسباب
1۔ صنعتی انقلاب
2۔ عورتوں کا معاشی استقلال
3۔ جدید تہذیب وتمدن
نتائج
(1) طبقات کا عدم توازن
(2) زنا اور امراضِ خبیثہ کی کثرت
(3) طلاق کی کثرت
(۴) شرحِ پیدائش کی کمی
ردِّ عمل
اُصولِ اسلام
نقصانات
1۔ جسم ونفس کا نقصان
2۔ معاشرتی نقصان
3۔ اخلاقی نقصان
4۔ نسلی وقومی نقصانات
5۔ معاشی نقصان
حامیانِ ضبط ِولادت کے دلائل اور اُن کا جواب : وسائل ِ معاش کی قلت کا خطرہ
دنیا کے معاشی وسائل اورآبادی
پاکستان کے معاشی وسائل اور آبادی
موت کا بدل
معاشی حیلہ
چند اور دلیلیں
اُصولِ اسلام سے کلی منافات
احادیث سے غلط استدلال
ضمیمہ (1) : اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی
ضمیمہ (2) : تحریکِ ضبطِ ولادت کا علمی جائزہ (پروفیسر خورشید احمد)

اسلام اور ضبطِ ولادت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

1۔ جسم ونفس کا نقصان

توالد وتناسل کا معاملہ چونکہ براہِ راست انسان کے جسم اور نفس سے تعلق رکھتا ہے اس لیے ہم کو سب سے پہلے ضبط ِ ولادت کے ان اثرات کی تحقیق کرنی چاہیے جو انسان کے نفس اور جسم پر مترتب ہوتے ہیں۔
ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ انواع میں نر ومادہ کی دو الگ الگ صنفیں بنانے سے فطرت کا اصل مقصد ہی توالد وتناسل اور بقائے انواع ہے۔ یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ نر ومادہ کی عین فطرت اس کا اقتضا کرتی ہے کہ وہ اولاد پیدا کریں اور خصوصاً نوعِ انسانی میں تو عورت کے اندر طبعاً اولاد کی خواہش اور محبت کا ایک زبردست داعیہ پیدا کیا گیا ہے۔ نیز یہ بھی آ پ کو معلوم ہو چکا ہے کہ انسان کے جسم میں اس کے صنفی غدود کا کتنا قوی اور گہرا اثرہے اور کس طرح یہ غدے انسان کو نوع کی خدمت پرابھارنے اور اس میں حسن، توانائی، عملی سرگرمی اور ذہنی قوت پیدا کرنے کے دوہرے فرائض انجام دیتے ہیں۔ خصوصاً عورت کے متعلق آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ اس کے جسم کی پوری مشین ہی خدمت بقائے نوع کے لیے بنائی گئی ہے، اس کی تخلیق کا اہم ترین مقصد یہی ہے، اور اس لیے اس کی عین فطرت اس سے اس خدمت کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان سب امور کو پیش نظر رکھ کر آپ کی عقل خود اس نتیجہ پر پہنچ سکتی ہے کہ جب انسان زوجی تعلق سے محض لذت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو اس مقصد کو پورا کرنے سے انکار کر دے گا جس کی طلب اس کے جسم کے ریشہ ریشہ میں اس قدر گہرائی کے ساتھ پیوست کر دی گئی ہے، تو ممکن نہیں ہے کہ اس کے نظامِ عصبی اوراس کے صنفی غدود کی فعلیت پر اس حرکت کے بُرے اثرات مترتب نہ ہوں اور ان اثرات سے اس کا نفس محفوظ رہ سکے۔
تجربہ اس عقلی نتیجہ کی تائید کرتا ہے۔ 1927ء میں برطانیہ عظمیٰ کے نیشنل برتھ ریٹ کمیشن (National Birth Rate Commission) نے ضبط ِولادت کے مسئلہ پر طبی نقطۂ نظر سے جورپورٹ شائع کی تھی اس میں لکھا ہے:
’’مانع ِ حمل وسائل کے استعمال سے مردوں کے نظامِ جسمانی میں برہمی پیدا ہو سکتی ہے، عارضی طور پر ان میں مردانہ کمزوری یا نامردی بھی پیدا ہو سکتی ہے ، لیکن مجموعی حیثیت سے کہا جا سکتا ہے کہ ان وسائل کا کوئی زیادہ بُرا اثر مرد کی صحت پر نہیں پڑتا۔ البتہ اس بات کا ہمیشہ خطرہ ہے کہ مانعِ حمل وسائل کے استعمال سے جب مرد کو زوجی تعلق میں اپنی خواہشات کی تسکین حاصل نہ ہو گی تو اس کی عائلی زندگی کی مسرتیں غارت ہو جائیں گی اور دوسرے ذرائع سے تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جو اس کی صحت کو برباد کر دیں گے اور ممکن ہے کہ اسے امراض خبیثہ میں مبتلا کر دیں۔‘‘
پھر عورتوں کے متعلق کمیشن یہ رائے ظاہر کرتا ہے:
’’جہاں طبی لحاظ سے منعِ حمل ناگزیر ہو، جہاں بچوں کی پیدائش حد سے زیادہ ہو، وہاں تو منعِ حمل کی تدابیر عورت کی صحت پر بلاشبہ اچھا اثر ڈالتی ہیں لیکن جہاں ان میں سے کوئی ضرورت داعی نہ ہو، وہاں منعِ حمل تدابیر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کے نظامِ عصبی میں سخت برہمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں بدمزاجی اور چڑچڑاپن پیدا ہو جاتا ہے۔ جب اس کے جذبات کی تسکین نہیں ہوتی تو شوہر کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ یہ نتائج ان لوگوں میں زیادہ نمایاں دیکھے گئے ہیں۔ جو عَزُل{ FR 7159 } (coitus interruptus) کا طریقہ اختیارکرتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر میری شارلیب ( Dr.Mary Scharlieb) اپنے چالیس سالہ تجربات کے نتائج ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
’’ضبط ِ ولادت کے طریقے خواہ فرزجے (pessaries) ہوں، یا جراثیم کش دوائیں، یاربر کی ٹوپیاں اور لفافے، بہرحال ان کے استعمال سے کوئی فوری نمایاں نقصان تو نہیں ہوتا لیکن ایک عرصہ تک ان کو استعمال کرتے رہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ادھیڑ عمر تک پہنچتے پہنچتے عورت میں عصبی ناہمواری (Nervous Instability)پیدا ہو جاتی ہے۔ پژمردگی، شگفتگی کا فقدان، افسردہ دلی، طبیعت کا چڑچڑا پن اور اشتعال پذیری، غمگین خیالات کا ہجوم، بے خوابی، پریشان خیالی، دل ودماغ کی کمزوری، دورانِ خون کی کمی، ہاتھ پائوں کا سن ہو جانا، جسم میں کہیں کہیں ٹیسیں اٹھنا، ایامِ ماہواری کی بے قاعدگی، یہ ان طریقوں کے لازمی اثرات ہیں۔‘‘
بعض دوسرے ڈاکٹروں نے بیان کیا ہے کہ اِعوجاجِ رحم (Falling of the Womb) حافظہ کی خرابی اور بسا اوقات مراق، خفقان اور جنون جیسے عوارض بھی ان طریقوں کے استعمال سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ نیز یہ کہ زیادہ عرصہ تک جس عورت کے ہاں بچہ نہیں ہوتا اس کے اعضائے تناسل میں ایسے تغیرات واقع ہوتے ہیں جن سے اس کی قابلیت ِ تولید متاثر ہو جاتی ہے اور اگر کبھی وہ حاملہ ہو جائے تو اس کو زمانہ حمل اور وضع حمل میں سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔{ FR 7160 }
پروفیسر لیونارڈہل، ایم۔ بی۔ اپنے مضمون میں لکھتا ہے:
’’بلوغ کے وقت عورت کے جسم میں جتنے تغیرات ہوتے ہیں سب تناسل کے مقصد ہی کے لیے ہوتے ہیں۔ ایام ماہواری کے دورے اسی غرض کے لیے ہوتے ہیں کہ بار بار عورت کو استقرارِ حمل کے لیے تیار کریں۔ ایک کنواری عورت میں، جو اپنے آپ کو استقرارِ حمل سے روکتی ہے، ایام کا ہر دورہ ان تمام اعضا کی ناامیدی کے ساتھ ختم ہوتا ہے جو اس دورہ میں حمل کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ اس اقتضائے طبیعی کے پورا نہ ہونے اور تناسلی اعضا کے معطل رہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تناسلی اعضا کی فعلیت میں برہمی وبدنظمی پیدا ہو، ایام ماہواری تکلیف اور بے قاعدگی کے ساتھ آنے لگیں، چھاتیاں ڈھلک جائیں۔ چہرے کی رونق اور خوبصورتی رخصت ہو جائے اور مزاج میں اشتعال پذیری یا افسردگی پیدا ہو جائے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی زندگی میں اس کے صنفی غدود کا بڑا اثر ہے۔ جو غدے زوجی قوت پیدا کرتے ہیں، وہی انسان میں توانائی، حسن اور چستی بھی پیدا کرتے ہیں۔ انھی سے انسان میں کیرکٹر کی بہت سے خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ زمانہ بلوغ کے قریب جب ان غدوں کا عمل تیز ہو جاتا ہے تو جس طرح انسان میں تناسل کی استعداد پیدا ہوتی ہے، اسی طرح اس میں خوبصورتی، شگفتگی، ذہنی قوت، جسمانی قوت، جوانی اور عملی سرگرمی بھی پیدا ہوتی ہے۔ اگر ان غدوں کے فطری مقصد کو پورا نہ کیا جائے گا تو یہ اپنے ضمنی فعل یعنی تقویت کو بھی چھوڑ دیں گے۔ خصوصاً عورت کو استقرارِ حمل سے روکنا دراصل اس کی پوری مشین کو معطل اور بے مقصد بنانا ہے۔‘‘
ڈاکٹر آزوالڈ شوارز کی رائے ہم اس سے پہلے نقل کر چکے ہیں جس میں وہ کہتا ہے:
’’یہ ایک ثابت شدہ حیاتیاتی قانون ہے کہ جسم کا ہر عضو اپنا خاص وظیفہ انجام دینا چاہتا ہے اور اس کام کو پورا کرنا چاہتا ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کیا ہے۔ نیز یہ کہ اگر اسے اپنا کام کرنے سے روکا جائے گا تو لازماً الجھنیں اور مشکلات پیدا ہوں گی۔ عورت کا جسم استقرارِ حمل اور تولید ہی کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر ایک عورت کو اپنے جسمانی اور ذہنی نظام کے اس اقتضا کو پورا کرنے سے روکا جائے گا تو وہ اضمحلال اور شکستگی کا شکار ہو جائے گی۔ اس کے برعکس مادریت میں وہ ایک نیا حسن….. ایک روحانی بالیدگی….. پا لیتی ہے جو اس جسمانی فرسودگی پر غالب آ جاتی ہے جس سے (زچگی کے باعث) عورت دو چار ہوتی ہے۔‘‘{ FR 7161 }
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ضبط ِ ولادت عورت پر ایک صریح ظلم ہے۔ یہ اسے اپنی فطرت سے برسرپیکار کر دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کا پورا جسمانی اور اعصابی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
اول تو ضبط ِ ولادت فی نفسہٖ انسان کے فطری نظام کے خلاف ایک بغاوت ہے اور اس کی مضرتیں بے پناہ ہیں۔ پھر ضبط ِ ولادت کے جو طریقے اختیارکیے جاتے ہیں وہ مرد اور عورت دونوں پر اور خصوصیت سے عورت پر ایسے اثرات چھوڑتے ہیں جو اس کی پوری زندگی کو متاثر کر دیتے ہیں اور اس کی شخصیت کی چولیں ہلا دیتے ہیں۔
ضبط ِ ولادت کا بہت پرانا اور بڑا اہم ذریعہ اسقاطِ حمل (abortion) ہے۔ مانع حمل ذرائع (contraceptives) کے فروغ کے باوجود آج بھی دنیا میں اس پر بکثرت عمل ہو رہا ہے اور بعض ممالک میں صرف اسقاطِ حمل ہی کے لیے باقاعدہ کلب اور مطب قائم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مانعِ حمل ذرائع میں سے کوئی بھی سو فیصدی موثر نہیں ہے۔ ان کے استعمال کے باوجود بسا اوقات حمل قرار پا جاتا ہے، اور اپنی نسل سے بیزار لوگ اس کا علاج یہ کرتے ہیں کہ پیدا ہونے سے پہلے ہی اس بچے کو قتل کر ڈالتے ہیں جو ان کی مرضی کے خلاف دنیا میں آنا چاہتا ہے۔ ضبط ِ ولادت کے حامی بالعموم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ کی وجہ سے اسقاطِ حمل میں بڑی کمی آ جاتی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکہ میں تازہ ترین اعداد وشمار کی رو سے بقول پروفیسر پال گیب ہارڈ (Paul H Gebhard) آج بھی آٹھ فیصدی عورتیں شادی سے پہلے اور 20 سے 25 فیصدی شادی کے بعد اسقاط حمل کا طریقہ اختیار کرتی ہیں۔{ FR 7162 } جاپان میں دوسری جنگ کے بعد امریکی سپریم کمانڈر کے زیر نگرانی ضبط ِ تولید کی تحریک کو بڑے زور وشور کے ساتھ فروغ دیا گیا لیکن حالات کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس تحریک کی بدولت اسقاطِ حمل میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ 1950ء میں اس کا رواج 29½ فیصدی آبادی میں تھا۔ 1955ء میں بڑھ کر 52 فیصد تک پہنچ گیا۔ پروفیسرسووے (Sauvy)کے اندازے کے مطابق جاپان میں ہر سال بارہ لاکھ اسقاط ہوتے ہیں، اور اگر غیر قانونی اسقاط کو بھی لے لیا جائے (جو بیس لاکھ سے کم نہیں) تو تعداد کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ { FR 7163 }
جاپان کے مشہور روزنامہ مینی چی (Mainichi) کے منعقد کردہ سروے کی رو سے جن خاندانوں میں ضبط ِ ولادت پر عمل ہوتا ہے ان میں اسقاط حمل کا طریقہ غیر عامل خاندانوں کے مقابلہ میں چھ گنا زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ { FR 7164 }
انگلستان کے متعلق رائل کمیشن بھی اسی نتیجہ پرپہنچا تھا کہ ضبط ِ ولادت پر عامل خاندانوں میں اسقاطِ حمل کا رواج 8.27 گنا زیادہ ہے۔ امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ایرین ٹوئیبر (Irene B Taeuber) کی وسیع تحقیقات بھی اسی نتیجہ پر منتج ہوئیں کہ مانعِ حمل ذرائع کی آمد کے ساتھ اسقاطِ حمل میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اب اس کا رواج صرف شادی شدہ خواتین ہی تک محدود نہیں بلکہ بیس سال سے کم عمر کی لڑکیوں میں بھی یہ عام ہے۔{ FR 7165 }
اور اس امر پر بیشتر ماہرین علوم طبیہ کا اتفاق ہے کہ اسقاطِ حمل عورت کی صحت اور اس کے نظامِ اعصاب کے لیے مہلک ہے۔ ہم یہاں صرف ڈاکٹر فریڈرک ٹاسگ کی رائے نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جنھوں نے اس موضوع پر طبی معلومات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے:
’’جب حمل کو اس کی تکمیل سے پہلے ہی خارج کر دیا جاتا ہے…جسے اصطلاح میں اسقاطِ حمل (abortion) کہا جاتا ہے…تو نسلِ انسانی کو اس کی وجہ سے تین طرح کے نقصان برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
اولاً، انسانوں کی ایک نامعلوم تعداد کو دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے ہی ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
ثانیاً، اسقاطِ حمل کے ساتھ ساتھ ہونے والی مائوں کی بڑی تعداد لقمۂ اجل ہو جاتی ہے۔
ثالثاً، اسقاط کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں ایسے مریضانہ (pathological) اثرات مترتب ہوتے ہیں جو آئندہ تولید کے امکانات کو بری طرح مجروح کر دیتے ہیں۔‘‘{ FR 7166 }
اسقاط کے علاوہ ضبط ِ تولید کے دوسرے ذرائع وہ ہیں جن کو مانع حمل (contraceptives) کہا جاتا ہے لیکن ان کے متعلق بھی ماہرین کی رائے یہی ہے کہ:
(۱) ان میں سے کوئی بھی یقینی اور حتمی نہیں اور
(ب) کوئی ایک ذریعہ بھی ایسا نہیں ہے جو بُرے طبی اور اعصابی اثرات نہ چھوڑتا ہو۔ ڈاکٹر کلیرای فولسم (Clair E.Folsome) کے الفاظ میں:
’’ہمارے پاس آج بھی کوئی ایسا معلوم، آسان، کم خرچ اور غیر مضرت رساں طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعہ ضبط ِ تولید پر عمل کیا جا سکے۔‘‘{ FR 7167 }
ہر مانعِ حمل طریقہ کے نفسیاتی اثرات بھی بڑے پیچیدہ ہیں اور ان کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ذہنی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں بلکہ جنسی فعل کی اس لذت کو بھی وہ خاک میں ملا دیتے ہیں جو فطرت نے افزائش نسل کی اس خدمت کے صلے میں اس کے اندر ودیعت کردی ہے۔{ FR 7168 }
ڈاکٹر ستیاوتی اپنی کتاب فیملی پلاننگ (Family Planning) میں اس حقیقت کو یوں بیان کرتی ہیں:
’’بعض صورتوں میں ضبط ِ ولادت کے نتائج خطرناک نکلتے ہیں۔ سکونِ قلب جاتا رہتا ہے۔ نفسیاتی ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ اعصابی بے چینی رہنے لگتی ہے۔ نیند غائب ہو جاتی ہے۔ انسان مراق اور ہسٹیریا کا شکار رہنے لگتا ہے، دماغی توازن بگڑ جاتا ہے۔ عورتیں بانجھ ہو جاتی ہیں اور مردوں کی قوت مردمی زائل ہو جاتی ہے۔‘‘{ FR 7673 }
آج کل ضبط ِ ولادت کی گولی (contraceptive pill) کا بڑا شور ہے۔ لیکن اس کے مضر اثرات بھی اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں اور اسے بالکل غیر مضرت رساں بتانا علمی بد دیانتی ہے۔ میک کارمک کے الفاظ ہیں:
’’گو یہ ابھی کچھ قبل از وقت ہے کہ اس گولی کے متعلق بالکل مستند طبی رائے دی جائے، لیکن یہ بہرحال واضح ہے کہ یہ منعِ حمل کا ایک قطعی اور یقینی ذریعہ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ بعد میں اس کے بُرے اثرات عورت کی زندگی پر مترتب ہو سکتے ہیں۔ یہ گولی افزائش بیضہ (ovulation) کو روک کر اپنا عمل کرتی ہے اور اس طرح ناگزیر ہو کہ یہ عورت کے ایام ماہواری (menstrual cycle) میں مخل ہے۔ جب صورت یہ ہے تو یہ بات کسی طرح نہیں مانی جا سکتی کہ عورت کے اتنے اہم غدودی نظام میں تبدیلی بلا کسی دوسرے ناخوشگوار اثرکے ممکن ہے۔‘‘{ FR 7169 }
ان گولیوں کے متعلق برٹش انسائیکلوپیڈیا آف میڈیکل پریکٹس کے ضمیمہ میں ہم کو ایک اور مستند رائے ملتی ہے۔ ڈاکٹر جی۔ آئی۔ سوئیر(G.I.Swyer) اس بات کا اظہارکرتا ہے کہ:
’’طویل المدت نقصان دہ اثرات کے امکان سے ہم اس وقت انکار نہیں کر سکتے۔ اس طریقہ کی بڑی خرابیاں یہ ہیں کہ اس میں بیسیوں گولیاں کامل تسلسل کے ساتھ اور مجوزہ پلان کے مطابق استعمال کرنی ہوتی ہیں، نیز گولیوں کی اونچی قیمت{ FR 7172 }اور ناموافق اثرات کی بہتات مریض کے لیے اس طریق علاج کی مقبولیت کو بہت کم کر دیتی ہے۔‘‘{ FR 7173 }
تازہ اخباری اطلاع یہ ہے کہ لندن کے مشہور ڈاکٹر رینیل ڈیوکس کی رائے میں ضبط ِ ولادت کی یہ گولیاں خطرناک نتائج کی حامل ہیں۔ ان سے دورانِ سر اور اعصابی تکالیف ہی نہیں، سرطان (Cancer) جیسے موذی مرض کے پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ { FR 7174 }
یہ تو ہے ان طریقوں کی مضرت انگیزی کا عالم لیکن یہ خطرات انگیز کرنے کے بعد بھی یہ یقین نہیں ہے کہ یہ فی الحقیقت مانعِ حمل ثابت ہوں گے۔ اس لیے کہ انگلش کمیشن آن اسٹیریلائزیشن (Commission of Sterilisation)کی رپورٹ کے الفاظ میں ’’مانع حمل ذرائع پریشان کن حد تک غیر یقینی ہیں۔‘‘ سویڈن میں ڈاکٹر ایم ایکبالڈ (Dr.M.Ekbald) کے تجربات سے بھی یہی معلوم ہوا ہے کہ 479 خواتین میں سے38 فیصدی کو مانعِ حمل ذرائع استعمال کرنے کے باوجود حمل ٹھہر گیا۔{ FR 7175 } یعنی ہر قسم کی مضرتیں برداشت کرنے کے بعد بھی آپ پورے یقین کے ساتھ اولاد کے ’’خطرے‘‘ سے محفوظ نہیں ہو سکتے۔
ان مضرتوں کے علاوہ ایک بڑی مضرت یہ بھی ہے کہ ضبط ِ ولادت کے طریقے استعمال کرکے جب استقرار حمل کی طرف سے بے فکری ہو جاتی ہے تو شہوانی جذبات قابو میں نہیں رہتے۔ عورت پر مرد کے شہوانی مطالبات حدِ اعتدال سے بڑھ جاتے ہیں اور زوجین کے درمیان ایک خالص بہیمی تعلق باقی رہ جاتا ہے جس میں تمام تر شہوانی میلانات ہی کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ چیز صحت اور اخلاق دونوں کے لیے غایت درجہ نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر فورسٹر(Foerster) لکھتا ہے:
’’مرد کی زوجیت کا رخ اگر کلیۃً خواہشاتِ نفس کی بندگی کی طرف پھر جائے اور اس کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی قوت ضابطہ نہ رہے تو اس سے جو حالت پیدا ہو گی وہ اپنی نجاست ودنائت اور زہریلے نتائج میں ہر اس نقصان سے کہیں زیادہ ہو گی جو بے حد وحساب بچے پیدا کرنے سے رونما ہو سکتی ہے۔‘‘

شیئر کریں