آٹھویں نکتے میں آپ فرماتے ہیں کہ:
اگر حضورﷺ نے یہ سارا کام بشر (یعنی ایک عام غیر معصوم بشر)کی حیثیت سے نہیں، بلکہ نبیﷺ کی حیثیت سے کیا ہوتا تو اس سے لازمًا دو نتائج پیدا ہوتے۔ ایک یہ کہ حضور ﷺ کے بعد اس کام کو جاری رکھنا غیر ممکن تصور کیا جاتا اور لوگ سمجھتے کہ جو نظامِ زندگی حضورﷺ نے قائم کرکے چلا دیا اسے قائم کرنا اور چلانا عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ دوسرا نتیجہ اس کا یہ ہوتا کہ اس کام کو چلانے کے لیے لوگ حضور ﷺ کے بعد بھی نبیوں کے آنے کی ضرورت محسوس کرتے۔ ان دونوں خطرات سے بچنے کی واحد صورت آپ کے نزدیک یہ ہے کہ تبلیغ قرآن کے ماسوا حضور ﷺ کے باقی پورے کارنامۂ زندگی کو رسول اللّٰہ ﷺ کا نہیں، بلکہ ایک غیر نبی انسان کا کارنامہ مانا جائے۔ اسی سلسلے میں آپ یہ بھی دعوٰی کرتے ہیں کہ اسے رسول کا کارنامہ سمجھنا ختم نبوت کے عقیدے کی بھی نفی کرتا ہے کیوں کہ اگر حضور ﷺ نے یہ سارا کام وحی کی راہ نُمائی میں کیا ہے تو پھر ویسا ہی کام کرنے کے لیے ہمیشہ وحی آنے کی ضرورت رہے گی، ورنہ دین قائم نہ ہو گا۔
یہ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے، قرآن اور اس کے نزول کی تاریخ سے آنکھیں بند کرکے اپنے ہی مفروضات کی دُنیا میں گھوم پھر کر سوچا اور فرما دیا ہے۔ آپ کی ان باتوں سے مجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ سے قرآن کی بس وہی آیتیں گزری ہیں جو مخالفین سُنّت نے اپنے لٹریچر میں ایک مخصوص نظریہ ثابت کرنے کے لیے نقل کی ہیں اور انھی کو ایک خاص ترتیب سے جوڑ جاڑ کر ان لوگوں نے جو نتائج نکال لیے ہیں، ان پر آپ ایمان لے آئے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی اور آپ نے ایک مرتبہ بھی پورا قرآن سمجھ کر پڑھا ہوتا تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ جو خطرات آپ کے نزدیک سیرت پاک کو سُنّت رسولﷺ ماننے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، وہی سب خطرات قرآن کو وحی الٰہی ماننے سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ قرآن خود اس بات پر شاہد ہے کہ یہ پوری کتاب ایک ہی وقت میں بطور ایک کتاب آئین کے نازل نہیں ہو گئی تھی بلکہ یہ ان وحیوں کا مجموعہ ہے جو ایک تحریک کی راہ نُمائی کے لیے ۲۳ سال تک تحریک کے ہر ہر مرحلے میں ہر اہم موقع پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی رہی ہیں۔ اس کو پڑھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ایک برگزیدہ انسان اِسلامی تحریک کی قیادت کے لیے مبعوث ہوا ہے اور قدم قدم پر خدا کی وحی اس کی راہ نُمائی کر رہی ہے۔ مخالفین اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرتے ہیں اور جواب ان کا آسمان سے آتا ہے۔ طرح طرح کی مزاحمتیں راستے میں حائل ہوتی ہیں اور تدبیر اوپر سے بتائی جاتی ہے کہ یہ مزاحمت اس طرح سے دور کرو اور اس مخالفت کا یوں مقابلہ کرو۔ پیرووں کو طرح طرح کی مشکلات سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان کا حل اوپر سے بتایا جاتا ہے کہ تمھاری فلاں مشکل یوں دور ہو سکتی ہے اور فلاں مشکل یوں رفع ہو سکتی ہے۔ پھر یہ تحریک جب ترقی کرتے ہوئے ایک ریاست کے مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو جدید معاشرے کی تشکیل اور ریاست کی تعمیر کے مسائل سے لے کر منافقین اور یہود اور کفار عرب سے کشمکش تک جتنے معاملات بھی دس سال کی مدت میں پیش آتے ہیں، ان سب میں وحی اس معاشرے کے معمار اوراس ریاست کے فرماں روا اور اس فوج کے سپہ سالار کی راہ نُمائی کرتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس تعمیر اور کشمکش کے ہر مرحلے میں جو مسائل پیش آتے ہیں ان کو حل کرنے کے لیے آسمان سے ہدایات آتی ہیں بلکہ کوئی جنگ پیش آتی ہے تو اس پر لوگوںکو ابھارنے کے لیے سپہ سالار کو خطبہ آسمان سے ملتا ہے۔ تحریک کے کارکن کہیں کم زوری دکھاتے ہیں تو ان کی فہمائش کے لیے تقریر آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ نبیﷺ کی بیوی پر دشمن تہمت رکھتے ہیں تو اس کی صفائی آسمان سے آتی ہے۔ منافقین مسجد ضرار بناتے ہیں تو اس کے توڑنے کا حکم وحی کے ذریعے سے دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ جنگ پر جانے سے جی چراتے ہیں تو ان کے معاملے کا فیصلہ براہِ راست اللّٰہ تعالیٰ کرکے بھیجتا ہے۔ کوئی شخص دشمن کو جاسوسی کا خط لکھ کر بھیجتا ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے بھی اللّٰہ تعالیٰ خود توجہ فرماتا ہے۔
اگر واقعی آپ کے نزدیک یہ بات مایوس کن ہے کہ دین کو قائم کرنے کے لیے جو اولین تحریک اٹھے اس کی راہ نُمائی وحی کے ذریعے سے ہو تو یہ مایوسی کا سبب تو خود قرآن میں موجود ہے۔ ایک شخص آپ کا نقطہ نظر اختیار کرنے کے بعد تو کہہ سکتا ہے کہ جس دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کے پہلے قدم سے لے کر کامیابی کی آخری منزل تک ہر ضرورت اور ہر نازک موقع پر قائد تحریک کی راہ نُمائی کے لیے خدا کی آیات اترتی رہی ہوں اسے اب کیسے قائم کیا جا سکتا ہے۔ جب تک کہ اسی طرح نظام دین کے قیام کے لیے سعی وجہد کرنے والے ’’مرکزِ ملت‘‘ کی مدد کے لیے بھی آیات الٰہی نازل ہونے کا سلسلہ نہ شروع ہو۔ اس نقطہ نظر سے تو اللّٰہ تعالیٰ کے لیے صحیح طریق کار یہ تھا کہ نبی ﷺ کے تقرر کی پہلی تاریخ کو ایک مکمل کتاب آئین آپ کے ہاتھ میں دے دی جاتی جس میں اللّٰہ تعالیٰ انسانی زندگی کے مسائل کے متعلق اپنی تمام ہدایات بیک وقت آپ کو دے دیتا۔ پھر ختم نبوت کا اعلان کرکے فورًا ہی حضور ﷺ کی اپنی نبوت بھی ختم کر دی جاتی۔ اس کے بعد یہ محمد رسول اللّٰہﷺ کا نہیں بلکہ محمدبن عبداللّٰہﷺ کا کام تھا کہ غیر نبی ہونے کی حیثیت سے اس کتاب آئین کو لے کر جدوجہد کرتے اور مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق ایک معاشرہ اور ریاست قائم کر دکھاتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کو بروقت صحیح مشورہ نہ مل سکا اور وہ اپنا نامناسب طریقہ اختیار کر گئے جو مستقبل میں قیامِ دین کے امکان سے ہمیشہ کے لیے مایوس کر دینے والا تھا۔
غضب تو یہ ہے کہ وہ اس مصلحت کو اس وقت بھی نہ سمجھے جب انھوں نے ختم نبوت کا اعلان فرمایا۔ یہ اعلان سورۂ احزاب میں کیا گیا ہے جو اس زمانے سے متصل نازل ہوئی ہے جب کہ حضرت زیدؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی اور پھر ان کی مطلقہ سے نبی ﷺ نے بحکم الٰہی نکاح کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد کئی سال تک حضورﷺ ’’مرکزِ ملت‘‘ رہے اور ختم نبوت کا اعلان ہو جانے کے باوجود نہ حضور ﷺ کی نبوت ختم کی گئی اور نہ وحی کے ذریعے سے آپ کی راہ نُمائی کرنے کا سلسلہ بند کیا گیا۔
آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کی اسکیم سے اتفاق ہو یا اختلاف، بہرحال قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ان کی اسکیم ابتدا ہی سے یہ نہیں تھی کہ نوع انسانی کے ہاتھ میں ایک کتاب تھما دی جائے اور اس سے کہا جائے کہ اس کو دیکھ دیکھ کر اِسلامی نظام زندگی خود بنا لے۔ اگر یہی ان کی اسکیم ہوتی تو ایک بشر کا انتخاب کرکے چپکے سے کتاب اس کے حوالے کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کے لیے تو اچھا طریقہ یہ ہوتا کہ ایک کتاب چھاپ کر اللّٰہ تعالیٰ تمام انسانوں تک براہِ راست بھیج دیتے اور دیباچے میں یہ ہدایت لکھ دیتے کہ میری اس کتاب کو پڑھو اور نظام حق برپا کر لو لیکن انھوں نے یہ طریقہ پسند نہیں کیا۔ اس کے بجائے جو طریقہ انھوں نے اختیار کیا وہ یہ تھا کہ ایک بشر کو رسول بنا کر اُٹھایا اور اس کے ذریعے سے اصلاح وانقلاب کی ایک تحریک اٹھوائی۔
اس تحریک میں اصل عامل کتاب نہ تھی بلکہ وہ زندہ انسان تھا جسے تحریک کی قیادت پر مامور کیا گیا تھا۔ اس انسان کے ہاتھوں سے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی نگرانی وہدایت میں ایک مکمل نظامِ فکر واخلاق، نظام تہذیب وتمدن، نظام عدل وقانون اور نظام معیشت وسیاست بنوا کر اور چلوا کر ہمیشہ کے لیے ایک روشن نمونہ (اسوۂ حسنہ) دُنیا کے سامنے قائم کر دیا تاکہ جو انسان بھی اپنی فلاح چاہتے ہوں وہ اس نمونے کو دیکھ کر اس کے مطابق اپنا نظام زندگی بنانے کی کوشش کریں۔ نمونے کا ناقص رہ جانا لازمًا ہدایت کے نقص کو مستلزم ہوتا۔ اس لیے اللّٰہ تعالیٰ نے یہ نمونے کی چیز براہ راست اپنی ہدایات کے تحت بنوائی۔ اس کے معمار کو نقشۂ تعمیر بھی دیا اوراس کا مطلب بھی خود سمجھایا۔ اس کی تعمیر کی حکمت بھی سکھائی اور عمارت کا ایک ایک گوشہ بناتے وقت اس کی نگرانی بھی کی۔ تعمیر کے دوران میں وحی جلی کے ذریعے سے بھی اس کو راہ نُمائی دی اور وحی خفی کے ذریعے سے بھی۔ کہیں کوئی اینٹ رکھنے میں اس سے ذرا سی چوک بھی ہو گئی توفورًا ٹوک کر اس کی اصلاح کر دی تاکہ جس عمارت کو ہمیشہ کے لیے نمونہ بننا ہے اس میں کوئی ادنیٰ سی خامی بھی نہ رہ جائے۔ پھر جب اس معمار نے اپنے آقا کی ٹھیک ٹھیک مرضی کے مطابق یہ کارِ تعمیر پورا کر دیا تب دُنیا میں اعلان کیا گیا کہ
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ المائدہ 3:5
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
تاریخ اِسلام گواہ ہے کہ اس طریقِ کار نے حقیقتاً امت میں کوئی مایوسی پیدا نہیں کی ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺ کے بعد جب وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو گیا تو کیا خلفائے راشدین نے پے درپے اٹھ کر وحی کے بغیر اس نمونے کی عمارت کو قائم رکھنے اور آگے اسی نمونے پر وسعت دینے کی کوشش نہیں کی؟ کیا عمر بن عبدالعزیز ؒنے اسے انھی بنیادوں پر از سر نو تازہ کرنے کی کوشش نہیں کی؟ کیا وقتاً فوقتاً صالح فرماں روا اور مصلحین امت بھی اس نمونے کی پیروی کرنے کے لیے دُنیا کے مختلف گوشوں میں نہیں اٹھتے رہے؟ ان میں سے آخر کس نے یہ کہا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ تو وحی کی راہ نُمائی میں یہ کام کر گئے، اب یہ ہمارے بس کا روگ نہیں ہے؟ حقیقت میں اللّٰہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے تاریخ انسانی میں اپنے رسولﷺ کے عملی کارنامے سے روشنی کا ایک مینار کھڑا کر دیا ہے، جو صدیوں سے انسان کو صحیح نظامِ زندگی کا نقشہ دکھا رہا ہے اور قیامت تک دکھاتا رہے گا۔ آپ کا جی چاہے تو اس کے شکر گزار ہوں، اور جی چاہے تو اس کی روشنی سے آنکھیں بند کر لیں۔