ساتواں نکتہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے:
قرآن کی آیات سے واضح ہے کہ حضور ﷺ نظام مملکت کی سرانجام دہی میں ایک بشرکی حیثیت رکھتے تھے اور کبھی کبھی آں حضرت ﷺ سے اجتہادی غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں۔ قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰي نَفْسِيْ۰ۚ وَاِنِ اہْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوْحِيْٓ ({ FR 6809 }) اِلَيَّ رَبِّيْ۰ۭ اِنَّہٗ سَمِيْعٌ قَرِيْبٌo سبا 50:34 ({ FR 6810 }) اگر یہ اجتہادی غلطیاں ایسی ہوتیں جن کا اثر دین کے اہم گوشے پر پڑتا تو خدا کی طرف سے اس کی تادیب بھی آ جاتی جیسے کہ ایک جنگ کے موقع پر بعض لوگوں نے پیچھے رہنے کی اجازت چاہی اور حضور ﷺ نے دے دی۔ اس پر اللّٰہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی: عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَا({ FR 6811 }) اَذِنَتْ لَھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِیْنَ التوبہ 43:9
اسی طرح سورۂ تحریم میں تادیب آ گئی یَااَیُّھَا النَّبِیْ ({ FR 6812 }) لِمَ ُتحَرِّمَ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ التحریم 1:66 اسی طرح سورۂ عبس میں ہے عَبَسَ وَتَوَلّٰی اَنْ جَائَ ہُ الْاَعْمٰی وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہُ یَزَکّٰی اَوْیَذْکَرُ فَتَنَفَعَہُ الذِّکْرَ({ FR 6813 }) اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدَّیْ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَتَزَکّٰی({ FR 6814 }) وَاَمَّا مَنْ جَائَ کَ یَسْعٰی وَھُوَ یَخْشٰی فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی۔ عبس 1-10:80
یہ دیکھ کر سخت افسوس ہوتا ہے کہ کس قدر سرسری مطالعے کی بِنا پر لوگ کتنے بڑے اور نازک مسائل کے متعلق رائے قائم کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایک رسول بھی بھیجا اور پھر خود ہی اس کا اعتبار کھونے اور اسے غلط کاروگم راہ ثابت کرنے کے لیے یہ آیات بھی قرآن میں نازل کر دیں تاکہ کہیں لوگ اطمینان کے ساتھ اس کی پیروی نہ کرنے لگیں؟ کاش! آپ نے قرآن کا آپریشن کرنے سے پہلے، ان آیات پر اتنا ہی غور کر لیا ہوتا جتنا اپنے کسی مریض کی ایکسرے رپورٹ پر غور کرتے ہیں۔
پہلی آیت قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ سے آپ یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ خود قرآن کی رُو سے رسول اللّٰہ ﷺ کبھی کبھی گم راہ بھی ہو جاتے تھے اور آپ کی زندگی دراصل ضلالت وہدایت کا مجموعہ تھی (معاذ اللّٰہ)
یہ استدلال کرتے وقت آپ نے کچھ نہ دیکھا کہ یہ آیت کس سیاق وسباق میں آئی ہے۔ سورۂ سبا میں اللّٰہ تعالیٰ پہلے کفارِ مکہ کا یہ الزام نقل فرماتا ہے کہ وہ نبی ﷺ کے متعلق کہتے تھے: اَفْتَرٰى عَلَي اللہِ كَذِبًا اَمْ بِہٖ جِنَّۃٌ۰ۭ سبا 8:34 ’’یہ شخص یا تو اللّٰہ پر جان بوجھ کر بہتان گھڑتا ہے، یا یہ مجنون ہے۔‘‘ پھر اس کا جواب دیتے ہوئے آیات ۳۶ تا ۵۰ میں الزام نمبر ۲ کے متعلق فرماتا ہے کہ تم لوگ فردًا فردًا بھی اور اجتماعی طور پر بھی ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر خالصتاً للہ غور کرو، تمھارا دل خود گواہی دے گا کہ یہ شخص جو تمھیں اِسلام کی تعلیم دے رہا ہے، اس میں جنون کی کوئی بات نہیں۔ اس کے بعد ان کے پہلے الزام (یعنی ’’یہ شخص اللّٰہ پر جان بوجھ کر بہتان گھڑتا ہے۔‘‘) کے جواب میں اللّٰہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ اے نبیﷺ ان سے کہو: اِنَّ رَبِّيْ يَقْذِفُ بِالْحَـقِّ۰ۚ سبا 48:34 درحقیقت یہ سچا کلام میرا رب القا فرما رہا ہے۔ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰي نَفْسِيْ۰ۚ سبا 50:34 ’’اگر میں گم راہ ہو گیا ہوں (جیسا کہ تم الزام لگا رہے ہو) تو میری اس گم راہی کا وبال مجھ پر ہے۔‘‘ وَاِنِ اہْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوْحِيْٓ اِلَيَّ رَبِّيْ سبا 50:34 ’’اور اگر میں راہِ راست پر ہوں تو اس وحی کی بِنا پر ہوں جو میرا رب مجھ پر نازل کرتا ہے۔‘‘ اِنَّہٗ سَمِيْعٌ قَرِيْبٌo سبا 50:34 ’’وہ سب کچھ سننے والا اور قریب ہے۔‘‘ یعنی اس سے پوشیدہ نہیں ہے کہ میں گم راہ ہوں، یا اس کی طرف سے ہدایت یافتہ۔
اس سیاق وسباق میں جو بات کہی گئی ہے اس کا آپ یہ مطلب لے رہے ہیں کہ گویا اللّٰہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے سامنے اپنے رسول سے یہ اعتراف کروا دیا کہ واقعی میں کبھی گم راہ بھی ہو جاتا ہوں، مگر کبھی سیدھے راستے پر بھی چل لیتا ہوں۔ سبحان اللّٰہ، کیا خوب قرآن فہمی ہے۔
دوسری آیات جو آپ نے پیش فرمائی ہیں ان سے آپ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے فیصلوں میں بہت سی غلطیاں کی تھیں جن میں سے اللّٰہ تعالیٰ نے بطور نمونہ یہ دوچار غلطیاں پکڑ کر بتا دیں تاکہ لوگ ہوشیار ہو جائیں حالانکہ دراصل ان سے نتیجہ بالکل برعکس نکلتا ہے۔ ان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ سے اپنی پوری پیغمبرانہ زندگی میں بس وہی چند لغزشیں ہوئی ہیں جن کی اللّٰہ تعالیٰ نے فورًا اصلاح فرما دی، اور اب ہم پورے اطمینان کے ساتھ اس پوری سُنّت کی پیروی کر سکتے ہیں جو آپ سے ثابت ہے، کیوں کہ اگر اس میں کوئی اور لغزش ہوتی تو اللّٰہ تعالیٰ اس کو بھی برقرار نہ رہنے دیتا جس طرح ان لغزشوں کو اس نے برقرار نہیں رہنے دیا۔
پھر آپ نے کچھ تو سوچا ہوتا کہ وہ لغزشیں ہیں کیا جن پر اللّٰہ نے ان آیات میں اپنے نبیﷺ کو ٹوکا ہے۔ جنگ میں فوجی خدمت سے استثنا کی درخواست پر کسی کو مستثنیٰ کر دینا، کسی حلال چیز کو نہ کھانے کا عہد کر لینا، ایک صحبت میں چند اہم شخصیتوں کو دین کی دعوت دیتے ہوئے بظاہر ایک غیراہم شخصیت کی طرف توجہ نہ کرنا، کیا یہ ایسے ہی بڑے معاملات ہیں، جن کا دین کے اہم گوشوں پر اثر پڑتا ہے؟ کون سا ایسا لیڈر، یا فرماں روا، یا آپ کی اصطلاحِ خاص میں ’’مرکزِ ملت‘‘ ہے جس کی زندگی میں بار بار اس طرح کے، بلکہ اس سے بہت زیادہ بڑے معاملات نہ پیش آتے ہوں؟ پھر کیا ان لغزشوں کی تصحیح کے لیے ہمیشہ آسمان ہی سے وحی اترا کرتی ہے؟ آخر وہ کیا خاص وجہ ہے کہ اتنی معمولی لغزشیں جب رسول پاکﷺ سے صادر ہوئیں تو فورًا ان کی اصلاح کے لیے وحی آ گئی اور اسے کتاب میںثبت کر دیا گیا؟ آپ اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ رسالت کے منصب کو سمجھنے میں آپ نے کتنی بڑی ٹھوکر کھائی ہے۔ کوئی رئیس، یا لیڈر یا مرکزِ ملت اللّٰہ تعالیٰ کا نمایندہ نہیں ہوتا، اس کا مقرر کیا ہوا شارع (law giver)اور اس کا معمور کیا ہوا نمونۂ تقلید نہیں ہوتا، اس لیے اس کی کوئی بڑی سے بڑی غلطی بھی قانون اِسلامی پر اثر انداز نہیں ہو سکتی، کیوں کہ اس سے خدا کی شریعت کے اصول نہیں بدل سکتے لیکن رسول پاکﷺ چوں کہ خدا کے اپنے اعلان کی رو سے دُنیا کے سامنے مرضاتِ الٰہی کی نمایندگی کرتے تھے اور خدا نے خود اہل ایمان کو حکم دیا تھا کہ تم ان کی اطاعت اور ان کا اتباع کرو، جو کچھ یہ حلال کہیں اسے حلال مانو اور جو کچھ یہ حرام قرار دیں، اسے حرام مان لو، اس لیے ان کے قول وعمل میں یہ چھوٹی لغزشیں بھی بہت بڑی تھیں، کیوں کہ وہ ایک معمولی بشر کی لغزشیں نہ تھیں، بلکہ اس شارع مجاز کی لغزشیں تھیں جس کی ایک ایک حرکت اور سکون سے قانون بن رہا تھا۔ اسی لیے اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے لی تھی کہ اپنے رسولﷺ کو ٹھیک راستے پر قائم رکھے گا، ان کو غلطیوں سے محفوظ کر دے گا، اور ان سے ذرا سی چوک بھی ہو جائے تو وحی کے ذریعے سے اس کی اصلاح فرما دے گا۔