Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
باب اوّل: دُنیوی زندگی کا اسلامی تصور
دُنیوی زندگی کا اِسلامی تصوّر
باب دوم: زندگی کا نصب العین
زِندگی کا نصب العین
حصہ سوم: ۱۔ ایمان کی حقیقت و اہمیت
۲۔اسلام کے ایمانیات
۳۔ ایمان باللّٰہ
۴۔ ایمان بالملائکہ
۵۔ ایمان بالرُّسُل
۶۔ ایمان بالکتب
۷۔ ایمان بالیوم الآخر
۸۔ اسلامی تہذیب میں ایمان کی اہمیت
ضمیمہ: زندگی بعد موت

اسلامی تہذیب اور اس کے اُصول ومبادی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

۷۔ ایمان بالیوم الآخر

یوم آخر سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے۔ اس لیے اس کو حیاتِ آخرت اور دار ِآخرت بھی کہا گیا ہے۔ قرآن مجید کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جو اس دوسری زندگی کے ذکر سے خالی ہو۔ طرح طرح سے اس کو ذہن نشین کرایا گیا ہے، اس کی صداقت پر دلائل قائم کیے گئے ہیں، اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، اس کی اہمیت جتائی گئی ہے، اس پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو شخص اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا اس کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں:
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ۝۰ۭ الاعراف 147:7
ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا انکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔
اور
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللہِ۝۰ۭ الانعام 31:6
نقصان میں پڑ گئے وہ لوگ جنھوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا۔
حیات اُخروی کا اعتقاد جس کو اس شد و مد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، بعض ایسے سوالات کا جواب ہے جو فطری طور پرانسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔
چند فطری سوالات
انسان خوشی سے زیادہ غم، اورراحت سے زیادہ تکلیف و مصیبت کو محسوس کرتا ہے، اور یہ کچھ فطری بات ہے کہ جو چیز انسان کے حسیات کو جتنی زیادہ ٹھیس لگاتی ہے وہ اتنی ہی زیادہ اس کی قوتِ فکر کو حرکت میں لاتی ہے۔ جب کوئی چیز ہم کو حاصل ہوتی ہے تو اس کی خوشی میں ہم یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یہ کہاں سے آئی؟ کیوں کر آئی اور کب تک رہے گی؟ لیکن جب کوئی شے ہم سے کھوئی جاتی ہے تو اس کا صدمہ ہمارے تو سنِ فکر کو ایک تازیانہ لگا دیتا ہے اور ہم سوچنے لگتے ہیں کہ یہ کیسے کھوئی گئی؟ کہاں گئی؟ اب کہاں ہو گی؟ اور کیا یہ ہمیں کبھی پھر حاصل ہو گی یا نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ زندگی اور اس کے آغاز کا سوال ہمارے لیے اتنی زیادہ اہمیت نہیں رکھتا جتنی اہمیت موت اور اس کے انجام کے سوال کو حاصل ہے۔ اگرچہ دنیا کی اس تماشا گاہ اور اس میں خود اپنے وجود کو دیکھ کر ہمارے دل میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیسا ہنگامہ ہے؟ کیسے شروع ہو گیا؟ کس نے برپا کر دیا؟ لیکن یہ سب فرصت کی باتیں ہیں اور گہری فکر رکھنے والے خواص کو چھوڑ کر عام انسان ان سوالات میں کم الجھتے ہیں۔ بخلاف اس کے موت اور اس کی تلخیوں سے ہر شخص کو دو چار ہونا پڑتا ہے، ہر شخص کی زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں جب وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں، دوستوں اور پیاروں کو مرتے دیکھتا ہے۔ بے کس اور کم زوربھی مرتے ہیں، طاقت اور ہیبت والے بھی مرتے ہیں، حسرت ناک موتیں بھی واقع ہوتی ہیں، عبرت ناک موتیں بھی پیش آتی ہیں، اور آخر میں ہرشخص کو خود اسی راہ پر اپنے گزرنے کا یقین ہوتا ہے جس پر سب گزرے ہیں۔ ان مناظر کو دیکھ کر شاید ہی کوئی انسان دنیا میں ایسا ہو جس کے دل میں موت کے سوال نے ایک الجھن نہ پیدا کی ہو، اور جس نے اس امر پر غور نہ کیا ہو کہ یہ موت کیا ہے؟ انسان اس دروازے سے گزر کر آخر کہاں چلا جاتا ہے؟ اور اس دروازے کے پیچھے کیا ہے؟ بلکہ کچھ ہے بھی یا نہیں؟
یہ تو ایک عام سوال ہے جس پر عوام اور خواص سب نے غور کیا ہے۔ ایک معمولی کسان سے لے کر ایک بڑے فلسفی اور حکیم تک سب ہی اس میں الجھے ہیں۔ لیکن اسی ضمن میں بعض اور سوالات بھی ہیں جو قریب قریب ہر صاحبِ فکر آدمی کے دل میں کھٹکتے ہیں، اور زندگی کے بہت سے تلخ واقعات اس کھٹک کو اور زیادہ بڑھا دیتے ہیں۔ یہ چند برس کی زندگی جو ہم میں سے ہر شخص کو اس دنیا میں ملتی ہے، ہر لمحہ اور ہر آن کسی نہ کسی کام، کسی نہ کسی سعی، اور کسی نہ کسی حرکت میں بسر ہوتی ہے۔ جس کو ہم سکون سمجھتے ہیں وہ بھی ایک حرکت ہے۔ جس کو ہم بے کاری خیال کرتے ہیں وہ بھی ایک کام ہے۔ ان میں سے ہر فعل کا رد فعل، ہر حرکت کی بازگشت، ہر کوشش کا ثمرہ اور ہر سعی کا انجام ضرور ہونا چاہیے۔ نیکی کا پھل نیک اور بدی کا پھل برا ملنا لازم ہے۔ اچھی کوشش کا اچھا نتیجہ اور بری کوشش کا برا نتیجہ ظاہر ہونا ضروری ہے۔ مگر کیا ہماری تمام کوششوں کے نتائج، تمام مساعی کے ثمرات، تمام افعال کے جواب، ہماری اس زندگی میں ہمیں مل جاتے ہیں؟ ایک بدکار نے تمام عمر شرارتوں میں گزار دی۔ بعض شرارتوں کا پھل بلاشبہ اسے دنیا میں مل گیا۔ کسی شرارت نے اسے بیماری میں مبتلا کر دیا۔ کسی شرارت نے اس کو تکلیفوں اور مصیبتوں اور پریشانیوں میں پھنسا دیا۔ مگر بہت سی شرارتیں ایسی بھی تو رہ گئیں جن کا پورا پورا بدلہ اس کو دنیا میں نہ ملا۔ بہت ساری شرارتیں ایسی ڈھکی چھپی رہیں کہ ان کی وجہ سے اس کی بدنامی اور رسوائی تک نہ ہوئی، اور اگر بالفرض بدنامی ہوئی بھی تو جس غریب پر اس نے ظلم کیا تھا اس کے نقصان کی کون سی تلافی ہوئی؟ پھر کیا اس شریر کے یہ ظلم، اور مظلوموں کے صبر، سب کے سب بے نتیجہ ہی رہیں گے؟ کیا ان کا کوئی انجام کبھی ظاہر ہی نہ ہو گا؟ یہی حال نیکیوں کا بھی ہے۔ بہت سے نیک انسان عمر بھر نیکی کرتے رہے اور ان کا پورا پورا ثمرہ انھیں دنیا میں نہ ملا۔ بعض نیکیوں پران کی الٹی بدنامی اور رسوائی ہوئی۔ بعض نیکیوں پر وہ ستائے گئے۔ بعض نیکیوں پر انھیں سزائیں ملیں۔ بعض نیکیوں کا حال کبھی دنیا پر کھلا ہی نہیں۔ پھر کیا ان غریبوں کی سب نیکیاں اکارت گئیں؟ کیا اتنی سخت محنتوں اور کوششوں کا صرف اتنا ہی ثمرہ کافی ہے کہ انھیں ضمیر کا اطمینان نصیب ہو گیا؟
یہ سوال تو صرف اشخاص اور افراد سے تعلق رکھتا ہے، لیکن اس کے بعد ایک اور سوال انواع اور اجناس اور عناصر اور اس تمام عالم کے انجام سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی مرتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے پیدا ہو جاتے ہیں۔ درخت اور جانور سب فنا ہوتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے درخت اور جانور وجود میں آ جاتے ہیں۔ مگر کیامرنے اور جینے کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا؟ کیا یہ کہیں پہنچ کر ختم نہ ہو گا؟ یہ ہوا، یہ پانی، یہ زمین، یہ روشنی، یہ حرارت، اور یہ قدرتی طاقتیں جن کے ساتھ یہ کارخانۂ عالم ایک خاص ڈھنگ پرچل رہا ہے، کیا یہ سب لازوال ہیں؟ کیا ان کے لیے کوئی عمر مقرر نہیں ہے؟ کیا ان کے نظم اور ان کی ترتیب میں کبھی کوئی تغیر واقع نہ ہو گا؟
اسلام نے ان تمام سوالات کو حل کیا ہے، اور حیاتِ اُخروی کا اعتقاد دراصل انھی سوالات کا جواب ہے۔ لیکن اس حل اور اس کی صداقت اور اس کے اخلاقی و تمدنی نتائج پر بحث کرنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ خود انسان نے ان سوالات کو حل کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ کس حد تک کام یاب ہیں۔
حیاتِ اُخروی کا انکار
ایک جماعت کہتی ہے کہ زندگی جو کچھ بھی ہے یہی دنیا کی زندگی ہے، اور موت کے معنی بالکل فنا اور معدوم ہو جانے کے ہیں، جس کے بعد حیات، شعور، پھل، احساس اور نتائج کچھ بھی نہیں:
اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ لَيَقُوْلُوْنَo اِنْ ہِىَ اِلَّا مَوْتَـتُنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِيْنَo
الدخان 34-35:44
یہ لوگ کہتے ہیں،’’ہماری پہلی موت کے سوا اور کچھ نہیں، اُس کے بعد ہم دوبارہ اُٹھائے جانے والے نہیں ہیں۔‘‘
وَقَالُوْا مَا ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ الجاثیہ 24:45
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش آیام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو۔‘‘
بخلاف اس کے یہ کارخانۂ عالم جس طرح چل رہا ہے یوں ہی چلتا رہے گا، اس نظام میں ایسی پائداری ہے کہ یہ کبھی درہم برہم ہونے والا نہیں ہے۔
جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ اس بِنا پر نہیں کہتے کہ ان کو کسی ذریعۂ علم سے بتحقیق ایسا معلوم ہو گیا ہے کہ فی الواقع موت کے بعد کچھ نہیں ہے، اور فی الواقع یہ کارخانۂ عالم لازوال ہے، بلکہ دراصل انھوں نے محض اپنے حواس پر اعتماد کیا ہے، اور یہ رائے اس لیے قائم کی ہے کہ موت کے بعد کی کوئی کیفیت انھیں محسوس نہیں ہوئی، اور نظامِ عالم کی برہمی کے کوئی آثار انھوں نے نہیں دیکھے۔ مگر کیا ہمارا کسی شے کو محسوس نہ کرنا اس کے انکار کے لیے کافی دلیل ہے؟ کیا ہمارا احساس ہی دراصل اشیا کا وجود اور ہمارا عدم احساس ہی اشیا کا عدم ہے؟ اگر ایسا ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ جو چیز جس وقت میرے احساس میں آتی ہے وہ دراصل اسی وقت وجود میں آتی ہے اورجب وہ میرے حواس سے غائب ہو جاتی ہے تو دراصل فنا ہو جاتی ہے۔ میں نے جس دریا کو بہتے دیکھا تھا وہ اسی وقت پیدا ہوا جب میں نے اسے بہتے دیکھا، اور جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا تو معدوم ہو گیا۔ کیا کوئی صاحب عقل میرے اس قول کو صحیح مان لے گا؟ اگر نہیں تو کوئی صاحب عقل اس قول کو کیسے صحیح مان سکتا ہے کہ موت کے بعد کی کیفیت چوں کہ ہمارے مشاہدے اور تجربے میں نہیں آئی اس لیے موت کے بعد سرے سے کوئی کیفیت ہی نہیں ہے۔
پھر جس طرح موت اور فنا کے متعلق محض حواس پر بھروسا کرکے حکم لگانا غلط ہے اسی طرح زندگی اور بقا کے متعلق بھی جو احکام محض حواس کے بل پر لگائے جاتے ہیں ان کا کچھ اعتبار نہیں۔ اگر کارخانۂ عالم کے دائمی اور لازوال ہونے کا حکم محض اس بنا پر لگانا درست ہے کہ ہم نے اس کو درہم برہم ہوتے نہیں دیکھا تو میں بھی ایک مضبوط عمارت کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ قائم رہے گی، کیوں کہ میں نے نہ اسے گرتے دیکھا ہے اور نہ اس میں کوئی بوسیدگی مجھے نظر آتی ہے جو اس کے کبھی آئندہ گرنے کی پیش گوئی کرتی ہو۔ کیا میرا یہ استدلال اربابِ عقل کی بارگاہ میں مقبول ہو گا؟
اخلاق پر انکارِ آخرت کا اثر
فلاسفہ اور حکما اب قریب قریب اس خیال پرمتفق ہو چکے ہیں کہ ایک نہ ایک دن نظامِ عالم ضرور درہم برہم ہو گا۔ عالم کی ازلیت اور ابدیت کے قدیم فلسفیانہ نظریے کو دہرانے والا شاید اہلِ علم کی جماعت میں کوئی بھی نہیں ہے۔ تاہم ابھی تک موت کو فنائے محض کہنے والے بہت سے باقی ہیں، اور ان کے اس قول کی بِنا وہی غیر معقول بات ہے جو ابھی اوپر بیان ہوئی۔ لیکن اس کی غیر معقولیت سے قطع نظر،یہ ایک حقیقت ہے کہ اس قول سے انسان کو کبھی تسلی حاصل نہیں ہو سکتی، اور بہت سے وہ سوالات جو زندگی کے معاملات کو دیکھ کر دل میں پیدا ہوتے ہیں اس قول میں تشنۂ جواب ہی رہ جاتے ہیں۔ علاوہ بریں اگر انسان کے اخلاق اور اس کی سیرت کی تعمیر اس اعتقاد پر قائم ہو تو یقیناً وہ دو حال سے خالی نہ ہو گی۔ حالات ناموافق ہوں تو اس عقیدے سے ایک شدید قسم کی مایوسی اور پست ہمتی انسان پر طاری ہو گی، کیوں کہ جب وہ اپنی نیکوکاری کا کوئی نتیجہ دنیا میں ظاہر ہوتے نہ دیکھے گا تو اس کی قوتِ عمل سرد پڑ جائے گی۔ جب وہ اپنی مظلومی کی داد رسی کا کوئی ذریعہ دنیا میں نہ پائے گا تو اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔ اور جب وہ شریروں، بدکاروں اور ظالموں کو دنیا میں پھلتے پھولتے دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ عالمِ ہستی میں شر ہی کا بول بالا ہے اور خیر صرف نیچا ہی دیکھنے کے لیے ہے۔ بخلاف اس کے اگر حالات موافق ہوں تو اس اعتقاد کے اثر سے انسان ایک نفس پرست حیوان بن جائے گا۔ وہ خیال کرے گا کہ جودن عیش اور لطف میں بسر ہو جائیں بس وہی غنیمت ہیں۔ اگر دنیا کی کسی لذت اور کسی لطف سے محروم رہ گئے تو پھرکوئی زندگی نہیں جس میں اس کی کسر پوری ہو۔ وہ ظلم و ستم کرے گا، لوگوں کے حقوق غصب کرے گا، اپنے فائدے اوراپنے نفس کی خواہشات کے لیے کوئی بدتر سے بدتر فعل کرنے میں بھی اس کو باک نہ ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ نیکی اور شرافت جو ایسے شخص کے تصور میں آ سکتی ہے وہ بس وہی ہے جس کے اظہار سے نیک نامی، شہرت، عزت، یا اور کسی قسم کے دنیوی فائدے حاصل ہو سکیں۔ اسی طرح وہ صرف ایسے ہی جرائم کو جرائم اور ایسے ہی گناہوں کو گناہ سمجھے گا جن کا نتیجہ کسی دنیوی سزا یا جسمانی عقوبت یا مادی نقصان کی شکل میں ظاہر ہونے کا اندیشہ ہو۔ رہیں وہ نیکیاں جن کا کوئی نفع اس دنیا میں ظاہر ہونے والا نہ ہو، تو وہ اس کے نزدیک حماقت سے کم نہ ہوں گی اور وہ برائیاں جن کا کوئی نقصان اس دنیا میں عائد ہونے والا نہ ہو، وہ اس کے نزدیک عین صواب ہوں گی۔
اگر کہیں پوری سوسائٹی کا نظامِ اخلاق اسی اعتقاد اور اسی ذہنیت پرقائم ہو تو سرے سے اس کے اخلاقی تصورات ہی بدل جائیں گے۔ اس کا پورا نظامِ اخلاق خود غرضی اورنفسانیت کی بنیاد پر تعمیر ہو گا۔ نیکی محض دنیوی فائدے کی ہم معنی ہو گی اور بدی محض دنیوی نقصان کی مترادف ہو کر رہ جائے گی۔ جھوٹ اگر دنیا میں نقصان کا موجب ہو تو گناہ ہو گا، اور فائدہ کا ذریعہ ہو تو عین صواب بن جائے گا۔ صداقت اگر دنیا میں جلبِ منفعت کا ذریعہ ہو تو نیکی ہو گی، ورنہ بصورتِ نقصان اس سے بڑھ کر کوئی بدی نہ ہو گی۔ زنا لذت اور عیش کے لیے مستحسن ہو گی، اور اس میں برائی کا پہلو اگر کبھی پیدا ہو گا بھی تو صرف اس وقت جب کہ وہ صحت کے لیے موجب ِ نقصان ہو۔ غرض جہاں اس دنیوی زندگی سے آگے کسی اچھے یا بُرے نتیجے کے مترتب ہونے کا خوف یا امید نہ ہو، وہاں انسان افعال کے صرف انھی نتائج پر نظر رکھے گا جو اس دنیا میں ظاہر ہونے والے ہیں، اور اس سے اعمال کی اخلاقی قدروں میں ایسا تغیر واقع ہو جائے گا جو ہرگز کسی مہذب انسانی سوسائٹی کے لیے سازگار نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ ایسے اخلاقی معیاروں کے ساتھ کوئی انسانی گروہ جانوروں سے بھی زیادہ بدتر درجے تک گرے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آپ کہیں گے کہ سزا اور جزا کے لیے دنیا میں صرف مادّی وجسمانی نقصانات اور فوائد ہی نہیں بلکہ خود انسان کے اندر بھی ایک قوت موجود ہے جس کا نام ’’ضمیر‘‘ ہے۔ اس کی ملامتیں اور اس کی بے اطمینانی اس دنیا میں بدی کے لیے کافی سزا ہیں اور اس کا اطمینان انسان کے لیے نیکی کا کافی معاوضہ ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ اوّل تو بہت سے گناہ ایسے ہیں جن کے مادی فوائد انسان کو ضمیر کی سرزنش برداشت کرنے کے لیے آمادہ کر دیتے ہیں، اور بہت سی نیکیوں کے لیے انسان کو اتنی قربانی کرنی پڑتی ہے کہ محض ضمیر کا اطمینان ان کا پورا معاوضہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے اگر آپ ضمیر کی حقیقت پر غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ اس کا کام اخلاقی تصورات پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ جو اخلاقی تصورات ایک خاص قسم کی تعلیم و تربیت سے انسان کے ذہن میں راسخ ہو جاتے ہیں انھی کی تائید ان کا ضمیر کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہندو کا ضمیر جن باتوں پر سرزنش کرتا ہے، ایک مسلمان کا ضمیر ان پر سرزنش نہیں کرتا۔ پس اگر کسی سوسائٹی کے اخلاقی تصورات بدل جائیں اور خیر و شر کے معیار متغیر ہو جائیں تو ان کے ساتھ ساتھ ضمیر کا رُخ بھی پھر جائے گا،وہ نہ ان افعال پرسرزنش کرے گا جنھیں اب اس سوسائٹی نے گناہ سمجھنا چھوڑ دیا ہے، اور نہ ان افعال میں اطمینان محسوس کرے گا جنھیں اب یہ سوسائٹی نیکی ہی نہیں سمجھتی۔
نظریۂ تناسخ:
دوسری جماعت وہ ہے جس نے تناسخ کا نظریہ پیش کیا ہے۔ اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ موت کے معنی فنائے محض کے نہیں ہیں بلکہ محض تبدیلِ جسم کے ہیں۔ روح اس جسم سے مفارقت کرنے کے بعد کوئی دوسرا جسم اختیار کر لیتی ہے، اور وہ دوسرا جسم، یا زیادہ صحیح الفاظ میں دوسرا قالب اس قابلیت کی مناسبت سے ہوتا ہے جو انسان نے اپنی پہلی زندگی میں اپنے اعمال اور اپنے رجحانات سے بہم پہنچائی ہے۔ اگر اس کے اعمال برے رہے ہیں اور ان کے اثر سے اس کے نفس میں بری قابلیتیں پیدا ہو گئی ہیں تو اس کی روح ادنیٰ درجے کے حیوانی یا نباتی طبقات میں چلی جائے گی، اور اگر اچھے اعمال سے اچھی قابلیتیں اس نے بہم پہنچائی ہیں تو روح اعلیٰ طبقوں کی طرف ترقی کرے گی۔ غرض اس نظریے کی رُو سے جزا اور سزا جو کچھ بھی ہے، اس دنیا اور انھی اجسام کے عالم میں ہے۔ ارواح بار بار اسی دنیا میں قالب بدل بدل کر آتی ہیں، تاکہ اپنے پچھلے اعمال کے نتائج بھگتیں۔
یہ نظریہ ایک زمانے میں بہت مقبول رہا ہے۔ یونان میں مسیح ؑسے کئی صدی قبل فیثا غورث اور اَنْبِذُقُلَس وغیرہ اس کے قائل تھے۔ روم میں بھی مسیحیت سے پہلے اس کا چرچا تھا۔ مصر کی قدیم تاریخ میں بھی اس کے کچھ آثار پائے جاتے ہیں۔ یہودیوں میں بھی بیرونی اثرات سے تناسخ کا یہ عقیدہ داخل ہو گیا تھا۔ لیکن اب یہ اعتقاد یا تو ہندی الاصل مذاہب (برہمنیت، بودھ مت، جین مت وغیرہ) میں پایا جاتا ہے، یا پھر مغربی افریقہ، جنوبی افریقہ، مڈغا سکر، وسطی آسٹریلیا، انڈونیشیا، اوشیانیا و جنوبی امریکا وغیرہ کی وحشی یا نیم وحشی قوموں میں۔ باقی تمام مہذب قومیں اس کو ردّ کر چکی ہیں، کیوں کہ انسان نے اب تک علم و عقل کی ترقی سے دنیا اور اس کی زندگی کے متعلق جس قدر واقفیت بہم پہنچائی ہے، وہ ان تمام نظریات کی تردید کرتی ہے جن پر نظریۂ تناسخ کی بِنا قائم ہے۔ خود ہندی الاصل مذاہب میں بھی جب ہم اس نظریے کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ویدک ہندوستان میں یہ تخیل سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ اس زمانے کے آریوں کا عقیدہ یہ تھا کہ مرنے کے بعد انسان کو ایک دوسری زندگی ملتی ہے جو نیکو کاروں کے لیے سراسر راحت اور بدکاروں کے لیے سراسر مصیبت ہے۔ اس کے بعد دفعتاً اس نظریے میں تغیر واقع ہوتا ہے، اور دوسرے دور کے ہندوستانی لٹریچر میں ہمیں وہ کتابیں ملتی ہیں جن میں تناسخ کا نظریہ ایک فلسفیانہ اعتقاد کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس تغیر کا سبب ابھی تک متحقق نہیں ہو سکا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ تخیل آریوں میں دراوڑ قوموں سے آیا ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ خود آریوں کے ادنیٰ طبقوں میں موجود تھا، اور انھی سے بعد کے برہمن فلسفیوں نے اسے لے کر تخیلات اور قیاسات کی ایک پوری عمارت اس پر قائم کر دی۔ اسی طرح بودھ مذہب بھی ابتداء ً تناسخ کی اس مفصل اسکیم سے خالی تھا جو بعد کے بودھی لٹریچر میں پائی جاتی ہے۔ جہاں تک قدیم لٹریچر سے پتا چلتا ہے، ابتدا میں بودھ دھرم کا نظریہ یہ تھا کہ وجود ایک دریا ہے جو مسلسل تغیر اور انقلاب کی شان سے بہتا چلا جا رہا ہے۔ اسی تخیل نے آگے چل کر یہ صورت اختیار کی کہ تمام عالم کی ایک ہی روح اور تمام عالم میں ایک ہی وجود ہے جو صورتوں پرصورتیں اور قالبوں پر قالب بدلتا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ابتدا میں وحی و الہام کے سرچشمے سے ہندی قوموں کو جو علم حاصل ہوا تھا اسے انھوں نے بدل کر ایک ایسا فلسفیانہ مذہب ایجاد کر لیا جو محض ان کی اپنی اپج کا نتیجہ تھا۔
عقلی تنقید
یہاں تناسخ کے مسئلے پر کسی مفصل بحث کی گنجائش نہیں ہے، مگر اس کی غلطی واضح کرنے کے لیے اتنا اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ عقیدۂ تناسخ کی بنیاد ایسے نظریات پر ہے جو صریح عقل کے خلاف ہیں، اوران تمام علوم کے منافی ہیں جو اب تک انسان کو دنیا اور اس کی زندگی پر غور و خوض کرنے سے حاصل ہوئے ہیں۔ اہلِ تناسخ کا خیال ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا نتیجہ اسی دنیا میں اس طرح ملتا ہے کہ وہ اپنے اچھے اعمال کی بدولت زندگی کے اعلیٰ طبقات کی طرف صعود کر جاتا ہے اور برے اعمال کی بدولت ادنیٰ طبقات کی طرف اتر جاتا ہے۔ مثلاً اگر انسان نے اس زندگی میں برے عمل کیے تو وہ حیوانی اور نباتی طبقات کی طرف نزول کرے گا، اور اگر حیوان نے اپنی زندگی میں اچھے عمل کیے تو وہ انسانی طبقات کی طرف صعود کرے گا۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ حیوانی اور نباتی زندگی نتیجہ ہے انسانی زندگی کے برے اعمال کا، اور انسانی زندگی نتیجہ ہے نباتی اور حیوانی زندگی کے اچھے اعمال گا۔ بالفاظ دیگر اس وقت جو انسان ہیں وہ اس لیے انسان ہیں کہ پہلے انھوں نے نباتی اور حیوانی زندگی میںاچھے اعمال کیے تھے، اور اس وقت جو نباتات اور حیوانات ہیں وہ اس لیے ایسے ہیں کہ انھوں نے انسانی زندگی میں برے اعمال کیے تھے۔ اس نظریے کو ماننے کے لیے چند اورباتوں کا ماننا بھی ضروری ہے اور وہ سب علم و عقل کے خلاف ہیں ، مثلاً:
۱۔ تناسخ کا یہ چکر ایسا ہے جس کا کوئی آغاز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انسان ہونے کے لیے لازم ہے کہ اس سے پہلے نبات اور حیوان ہو، اور نبات اور حیوان ہونے کے لیے لازم ہے کہ ان سے پہلے انسان ہو۔ یہ کھلا ہوا تضاد ہے جسے عقل محال قرار دیتی ہے۔
۲۔ اگر تناسخ کا چکر ازلی اور ابدی ہے توماننا پڑے گا کہ نہ صرف وہ ارواح جو بار بار قالب بدلتی ہیں، بلکہ وہ مادے بھی جوان ارواح کو قالب مہیا کرتے ہیں، ازلی اور ابدی ہوں، اور یہ زمین اور یہ نظامِ شمسی اور یہ قوتیں جو اس نظام میں کام کر رہی ہیں، یہ سب بھی ازلی اور ابدی ہوں۔ لیکن عقل کا دعویٰ ہے اور علمی تحقیقات اس پر شہادت دیتی ہیں کہ ہمارا نظامِ شمسی نہ ازلی ہے اور نہ ابدی۔
۳۔ ماننا پڑے گا کہ نباتات اور حیوانات اور نوع بشری کی جتنی امتیازی خصوصیات ہیں وہ سب دراصل ان کے اجسام کے خاصے ہیں نہ کہ نفوس کے۔ اس لیے کہ جو نفس انسان کے قالب میں عقل و فکر کی قوتیں رکھتا تھا وہ حیوان کے قالب میں پہنچ کر لایعقل ہو گیا، اور نباتی قالب میں پہنچ کر اس غریب سے حرکتِ ارادی کی قوت بھی سلب ہو گئی۔
۴۔ نیک اور بد کا اطلاق دراصل ان اعمال پر ہوتا ہے جو سوچ سمجھ کر بالارادہ کیے جائیں۔ اس لحاظ سے انسان کے اعمال تو نیک اور بد ہو سکتے ہیں اور ان پر جزا و سزا مترتب ہو سکتی ہے، لیکن نباتات اور حیوانات کے اعمال پر نہ تو نیکی اور بدی کا اطلاق جائز ہے اور نہ ان پر جزا و سزا مترتب ہونے کی کوئی معقول وجہ ہے۔ ایسا حکم لگانے کے لیے یہ ماننا ضروری ہو گا کہ نباتات اور حیوانات میں بھی سوچ سمجھ کر بالارادہ فعل کرنے کی قوت ہے۔
۵۔ اگر بعد کی زندگی ہمارے موجودہ جنم کے کرموں کا پھل ہے تو ظاہر ہے کہ برے کرموں کا پھل برا ہی ہونا چاہیے اور جب دوسرے جنم میں وہ برا پھل ہم کو ملا تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ اس برے پھل سے نیک اعمال صادر ہوں؟ لامحالہ اس سے برے ہی اعمال صادر ہوں گے، اور پھر ان کا پھل تیسرے جنم میں اور بھی زیادہ برا ہو گا۔ اس طرح بدکار انسان کی رُوح تناسخ کے چکر میں نیچے سے نیچے طبقوں کی طرف ہی گرتی چلی جائے گی۔ اس کے پھر ابھر کر آنے کی کبھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہوئے کہ انسان سے حیوان تو بن سکتا ہے مگر حیوان سے انسان بننا غیر ممکن ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس وقت انسان ہیں وہ کس حسن عمل کے نتیجے میں انسان ہوئے اور کہاں سے آئے۱؎ ؟
تمدن پر عقیدۂ تناسخ کا اثر
ان کے علاوہ اور بہت سے وجوہ ہیں جن کی بِنا پر عقل سلیم تناسخ کے اعتقاد کو قبول نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان عقل اور علم میں جتنی جتنی ترقی کرتا گیا، تناسخ کا اعتقاد باطل ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ اب وہ زیادہ تر ان قوموں میں باقی رہ گیا ہے جو عقلی اور علمی ترقی میں بہت پس ماندہ ہیں۔اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تناسخ کا اعتقاد ہمتوں کو پست کرنے والا اور ترقی کی روح کو مردہ کرنے والا اعتقاد ہے۔ اسی اعتقاد سے ’’اہنسا‘‘ کا عقیدہ نکلا ہے جو انسان کی شخصی اور قومی زندگی کے لیے حد درجے مہلک ہے۔ جو قوم اس عقیدے کی قائل ہو اس کی جنگی اسپرٹ فنا ہو جاتی ہے، اس کی جسمانی قوتیں مضمحل ہو جاتی ہیں،وہ قوائے جسمانی کو نشو ونما دینے والی بہترین غذائوں سے محروم ہو جاتی ہے، اس کے افراد نہ صرف جسمانی اعتبار سے کم زور بلکہ دماغی قوتوں کے لحاظ سے بھی ضعیف ہوتے ہیں۔ اس دوسرے ضعف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم مغلوب و محکوم ہو کر رہتی ہے، اور آخر کار یا تو صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہے یا دوسری طاقت ور قوموں میں جذب ہو جاتی ہے۔
عقیدۂ تناسخ کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ وہ تمدن و تہذیب کا دشمن ہے اور انسان کو رہبانیت اور ترکِ دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔ اہلِ تناسخ کا اعتقاد ہے کہ روح کو جو چیز گناہوں سے آلودہ کرتی ہے وہ خواہش ہے۔ اسی کی بدولت روح کو بار بارجسمانی قالبوں میں آ کر اپنے اعمال کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ اگر انسان خواہشات کو پامال کردے اور اپنے آپ کو دنیا اور اس کے دھندوں میں نہ پھنسائے تو اس کی روح کو آواگون کے چکر سے نجات مل سکتی ہے، اور نجات کی بس یہی ایک صورت ہے کیوں کہ دنیوی زندگی کے معاملات میں پھنسنے کے بعد انسان کا خواہشات اور ان کے مقتضیات سے بچ جانا محال ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ نجات کے طالب ہوں وہ سنیاسی بن کر جنگلوں اور پہاڑوں میں جا بیٹھیں، اور جو ایسا نہ کریں وہ نجات سے مایوس ہو کر جانوروں اور درختوں کے طبقات میں جانے کے لیے مستعد ہو جائیں۔ کیا یہ تخیل تمدن و تہذیب کی ترقی میں کسی طرح مددگار ہو سکتا ہے؟ اور کیا کوئی قوم یہ اعتقاد رکھ کر دنیا میں ترقی کر سکتی ہے؟
اس میں شک نہیں کہ بعض حیثیات سے تناسخ کا اعتقاد کم از کم اس سے بہتر ہے کہ موت کو فنائے محض اور عدمِ مطلق سمجھا جائے۔ کیوں کہ انسان میں بقائے دوام کی جو ایک فطری خواہش ہے وہ تناسخ میں ایک حد تک تسکین پا سکتی ہے، اور اس کے ساتھ اس عقیدے میں جزا و سزا اور اعمال کے اچھے اور بُرے انجام کا جو تخیل موجود ہے، اس کی بِنا پر یہ ایک اچھے اور مضبوط اخلاقی قانون کے لیے پُشت پناہ بھی بن سکتا ہے۔ لیکن اوّل تو یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے جس کی طرف ہم بار بار اشارہ کر چکے ہیں کہ جو عقیدہ عقل اور علم کے خلاف اور تمدن و تہذیب کی ترقی میں مانع و مزاحم ہو، اس کی گرفت انسان کے دل ودماغ پر کبھی ایسی مضبوط نہیں ہو سکتی کہ وہ علمی و عقلی ارتقا کے ہر مرتبے اور ترقی ِ تہذیب و تمدن کے ہر مرحلے میں یکساں قوت کے ساتھ قائم رہ سکے۔ اور جب اس کی گرفت قائم ہی نہیں رہ سکتی تو اس عقیدے کا محض کتابوں میں ایک فلسفیانہ نظریے کی حیثیت سے موجود رہنا نظامِ اخلاق کے بقا و استحکام کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ وہ تو اس صورت میں نافع ہو گا جب کہ وہ کتابوں کے بجائے دلوں میں متمکن ہو اور لوگ پوری طرح اس پر اعتقاد رکھتے ہوں۔ دوسرے، یہ عقیدہ اپنے آخری نتیجے کے اعتبار سے اپنی اخلاقی قیمت بھی کھو دیتا ہے، کیوں کہ جب کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ تناسخ کا چکر بالکل ایک مشین کی طرح چل رہا ہے، اور اس میں ہر فعل کا جو نتیجہ مقرر ہے وہ ظاہر ہو کر رہے گا، اور کسی توبہ و استغفار یا کفارے سے اس فعل کی تاثیر اور اس کے نتیجے کونہیں بدلا جا سکتا، تو ایک دفعہ گناہ کرنے کے بعد ایسا شخص ہمیشہ کے لیے گناہ کے پھیر میں آ جائے گا، اور سمجھ لے گا کہ جب مجھے جانور یا درخت بننا ہی ہے تو کیوں نہ میں اس انسانی جُون کی تمام لذتوں سے دل بھر کر فائدہ اٹھا لوں۔
حیاتِ اُخروی کا عقیدہ
دنیا اور انسان کے انجام پر دو مذہبوں کی رائیں آپ سن چکے ہیں اور یہ بھی آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ وہ دونوں مذہب نہ عقلاً صحیح ہیں، نہ ان فطری سوالات کا پورا پورا اور دل کو مطمئن کرنے والا جواب دیتے ہیں جو دنیا میں زوال و فنا کے آثار کودیکھ کر ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، اور نہ ان میں یہ صلاحیت ہی ہے کہ ایک صحیح اور مضبوط اور اخلاقی نظام کے لیے پشت پناہ بن سکیں۔ اب تیسرے مذہب کا بیان سنیے۔ وہ کہتا ہے:
۱۔ جس طرح دنیا کی ہر چیز فردا ًفرداً اپنی ایک عمر رکھتی ہے، جس کے ختم ہو جانے کے بعد اس میں فساد رونما ہوجاتا ہے، اسی طرح اس پورے نظامِ عالم کی بھی ایک عمر ہے جس کے تمام ہونے پر یہ سارا کارخانہ درہم برہم ہو جائے گا، اور کوئی دوسرا نظام اس کی جگہ لے گا جس کے قوانینِ طبیعی اس نظام کے قوانینِ طبیعی سے مختلف ہوں گے۔
۲۔ اس نظام کے درہم برہم ہونے پر اللّٰہ تعالیٰ عدالت قائم فرمائے گا جس میں ہر چیز کا حساب لیا جائے گا۔ انسان کو اس روز پھر ایک نئی جسمانی زندگی ملے گی۔ وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو گا۔ اس کے تمام اعمال، جو اس نے اپنی پہلی زندگی میں انجام دیے تھے، ٹھیک ٹھیک جانچے اور تولے جائیں گے۔ حق اور انصاف کے ساتھ اس کے مقدمے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اچھے اعمال کی اچھی جزا ملے گی اور بُرے اعمال کی بُری سزا دی جائے گی۔
۳۔ انسان کی دنیوی زندگی دراصل اس کی اُخروی زندگی کا مقدمہ ہے۔ یہ زندگی عارضی ہے اور وہ پائدار۔ یہ ناقص ہے اور وہ کامل۔ تمام اعمال کے پورے پور ے نتائج اس عارضی زندگی میں مترتب نہیں ہوتے۔ ہر بیج جو یہاں بویا جاتا ہے اپنے فطری ثمرات کے ساتھ اس ناقص زندگی میں بار آور نہیں ہو سکتا۔ اس نقص کی تکمیل اس دوسری زندگی میں ہو گی، اور جو کچھ یہاں بے نتیجہ اور بے ثمر رہ گیا ہے وہ اپنے حقیقی نتائج اور ثمرات کے ساتھ وہاں ظاہر ہو گا۔ لہٰذا انسان کو اپنے اعمال و افعال کے محض ان ناتمام اور بسا اوقات دھوکا دینے والے نتائج ہی پر نظر نہ رکھنی چاہیے جو اس دنیوی زندگی میں مترتب ہوتے ہیں، اور نتائج کے اس مکمل سلسلے کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے افعال کی قدریں متعین کرنی چاہییں۔
یہ وہ مذہب ہے جسے انبیا علیہم السلام نے پیش کیا ہے اور قرآن مجید اسی مذہب کا پُر زور وکیل ہے۔ مگر قبل اس کے کہ ہم اس مذہب کے اخلاقی نتائج اور تہذیب اسلامی میں اس کے رتبے اور اہمیت پر کلام کریں، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس مذہب کے دلائل کیاہیں؟ اور عقل کہاں تک اس کو قبول کرتی ہے؟
عقلی تحقیق کا صحیح طریقہ
یہ سوال کہ موت کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں، ان امور سے تعلق رکھتا ہے جو ہمارے حواس اور حسی تجربہ کے حدود سے باہر ہیں۔ ہم جو کچھ محسوس کرتے ہیں وہ صرف اس قدر ہے کہ ایک شخص جو چند لمحے قبل تک سانس لیتا اور اپنے ارادے سے حرکت کرتا تھا وہ اب زندگی کے تمام آثار سے محروم ہو گیا اور اس کے جسم سے کوئی ایسی شے غائب ہو گئی جس نے اس جامد، غیر نامی، غیر متحرک مادے کو نمو اور حرکت کی قوت مہیا کر رکھی تھی۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ شے کہاں چلی گئی؟ جسم سے الگ ہو کر بھی موجود ہے یا معدوم ہو گئی؟ اور پھر کبھی اس جسم یا ایسے ہی کسی اور جسم سے اس کا تعلق دوبارہ قائم ہو گا یا نہیں؟ تو جہاں تک ہمارے حواس اور تجربی علم کا تعلق ہے، ہم اس سوال کا نفیاً یا اثباتاًکوئی جواب نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ اس چیز کو فی نفسہٖ نہ ہم نے پہلے کبھی محسوس کیا تھا اور نہ اب محسوس کرتے ہیں۔ اس بنا پر یہ بات پہلے ہی سمجھ لینی چاہیے کہ اس سوال کا سائنس، یعنی حکمت عملی یا تجربی علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سائنس دان اگر اس پر اثباتاً کوئی حکم نہیں لگا سکتا تو نفیاً بھی کوئی حکم لگانے کا حق نہیں رکھتا۔ وہ صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’میں کچھ نہیں جانتا کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔‘‘ لیکن اگر وہ خالص لاادریت٭ کے مقام سے ہٹ کر یہ کہے کہ ’’چوں کہ میں نہیں جانتا کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے اس لیے میں جانتا ہوں کہ مرنے کے بعد کچھ بھی نہیں ہوتا‘‘ تو یقیناً معقولیت کی حدود سے تجاوز کر جائے گا۔
حواس کے بعد ہمارے پاس علم کا دوسرا ذریعہ ’’تفکر‘‘ ہے۔ انسان ہمیشہ اپنے آپ کو محسوسات کے دائرے میںمقید رکھنے سے انکار کرتا رہا ہے، اور اس کی بشری فطرت کا مقتضا یہی ہے کہ وہ غور و فکر کی قوتوں سے کام لے کر ان پوشیدہ حقیقتوں کو معلوم کرے جو محسوسات سے ماورا ہیں۔ اسی فکری جستجو کا نام ’’تفکر‘‘ ہے اور اس کے دو طریقے ہیں:
ایک یہ کہ تم دنیا اور خود اپنے نفس کے آثار و شواہد سے آنکھیں بند کرکے، یا ایک بڑی حد تک بے پروا ہو کر، خالص عقلی مقدمات سے نتائج اخذ کرنا شروع کرو، اور آخر تک عقل کے گھوڑے دوڑاتے چلے جائو۔ یہ خالص قیاسی فلسفے کا میدان ہے، اور تمام گمراہیوں کی جُولان گاہ ہے۔ یہ اندھیری منزل ہے۔ یہیں سے وہ فلسفیانہ مذاہب نکلے ہیں جن میں الجھ کر انسان تخیل کی وادیوں میں بھٹکتا چلا جاتا ہے۔ یہیں سے خدا اور ملائکہ اور نظامِ عالم اور حیاتِ بعد الموت کے متعلق وہ مختلف اور متضاد عقیدے نکلے ہیں جو محض اندھیرے میں ٹٹولنے اور وہم و گمان اور خرص و تخمین پر چلنے کا نتیجہ ہیں۔
دوسرا طریقۂ فکر یہ ہے کہ تم آنکھیں کھول کر کائنات میں اور خود اپنے نفس میں ان آثار کا مشاہدہ کرو جو منزلِ حقیقت کے مشعل بردار ہیں، اور ان چراغوں کو لے کر عقلِ سلیم و فکر صحیح کی مدد سے ان حقیقتوں تک پہنچو جو ان آثار کی تہ میں چھپی ہوئی ہیں۔ اس دوسرے طریقے میں سائنس اور فلسفہ دونوں مل کر چلتے ہیں۔ اگرچہ حقیقت تک پہنچنے کا یقینی ذریعہ یہ بھی نہیں ہے، لیکن آسمانی ہدایت سے قطع نظر کرکے انسان کے پاس حقیقت رَسی کا واحد ذریعہ یہی ہے، اور اس ذریعے سے حقیقت تک یا اس کے قریب تک پہنچ جانا ممکن ہے، بشرطیکہ انسان کی قوتِ مشاہدہ تیز ہو، اس کی ادراکی قوتیں لطیف اور نازک ہوں، اور اس میں غور و فکر کی کافی صلاحیت موجود ہو۔ حکمت ِ نظری میں انسان کی ترقی کا مدار اسی مشاہدے اور تفکر کی آمیزش پر ہے۔ آج جن نظریات پر حکمت کی بنیاد قائم ہے اور جن اصولوں پر ایمان لائے بغیر سائنس کا کوئی طالب علم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا،ان میں سے کوئی بھی محض تجربے اور مشاہدے پر مبنی نہیں ہے۔ ہر نظریے اور ہراصول کی بنیاد اس قیاس عقلی پر قائم ہے جس کے لیے مشاہدات و تجربات کو موادِ قیاس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ قانونِ فطرت، قانونِ جذب و کشش، سلسلۂ علت و معلول، نظریۂ اضافیت، قانونِ نشو وارتقا، قانونِ انتخابِ طبیعی اور ایسے ہی دوسرے اصول و قوانین جن پر بڑے بڑے اہلِ حکمت ایمان لائے ہیں، سب کے سب آثار و مظاہر کے مشاہدات پر غور و فکر اور عقلی قیاس آرائی کے استعمال کا نتیجہ ہیں۔ ورنہ آج تک کسی نے بھی ان قوانین اور ان اصول کا حِسّی مشاہدہ نہیں کیا ہے۔
پھر جو نتائج ایک حکیم اپنے مشاہدے اور قیاس سے مستنبط کرتا ہے ان پر اسے اتنا ہی یقین ہوتا ہے جتنا کسی عامی کو کسی شے کے حسی مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود کوئی بڑے سے بڑا حکیم بھی کسی منکر کو ان نتائج کے مان لینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ جب تک کوئی شخص آثار و مظاہر کا اس خاص نظر سے مشاہدہ نہ کرے جس سے حکیم نے مشاہدہ کیا ہے، اور اسی غور و فکر سے کام نہ لے جس سے حکیم نے کام لیا ہے، وہ ان نتائج پر کسی طرح نہیں پہنچ سکتا۔ ایک عامی کے لیے میدانِ حکمت میں قدم رکھنے اور ترقی کرنے کی بس یہی صورت ممکن ہے کہ وہ جس حکیم کی دانائی و بصیرت پر اعتماد رکھتا ہو اس کے اخذ کردہ نتائج پر ایمان بالغیب لے آئے، بغیر اس کے کہ وہ خود اپنے مشاہدے اور اپنے غور و فکر سے ان نتائج تک پہنچا ہو۔
یہ مقدمہ ذہن نشین کر لیجیے، کیونکہ امور ماورائے طبیعت کے باب میں قرآن مجید کے بیان اور استدلال کو سمجھنے کے لیے اس مقدمے کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ بہت سی غلط فہمیاں اسی کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہیں۔
اب ہم کو حیاتِ اُخروی کے متعلق قرآن مجید کے بیان کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
حیاتِ اُخروی پر منکرین کا اعتراض
حیاتِ اُخروی کا اعتقادجب قرآن مجید نے پیش کیا تو اس کے خلاف اس وقت کے منکرین نے جو اعتراض کیا تھا وہ وہی تھا جو آج کے منکرین کرتے ہیں۔ اور درحقیقت اس پر یہی ایک اعتراض ممکن بھی ہے۔ یعنی یہ کہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہونا ایک بعید از عقل و قیاس بات ہے، ہم کس طرح مان لیں کہ جو مردے زمین میں گل سڑ گئے، جن کے جسم خاک میں مل گئے، جن کے اجزائے جسم ہوا، زمین اور پانی میں منتشر ہو گئے انھیں پھر زندگی میسر ہو گی؟
وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا ضَلَلْنَا فِي الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ السجدہ 10:32
اور انھوں نے کہا کہ جب ہم زمین میں گم ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا ہوںگے؟
وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًاo بنی اسرائیل 49:17
اور انھوں نے کہا کہ جب گل سڑ کر ہماری صرف ہڈیاں رہ جائیں گی اور ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے؟
ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا۝۰ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِيْدٌo قٓ 3:50
کیا جب ہم مرکر مٹی بن جائیں گے تو پھر جی اٹھیں گے؟ یہ واپسی تو بعید از قیاس و عقل ہے۔
مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَہِىَ رَمِيْمٌo یٰس 78:36
کون ہے جو ہڈیوں کو زندہ کرے گا جب کہ وہ بوسیدہ ہو چکی ہوں؟
قرآنِ مجید کا طرِز استدلال
اس شبہے کے مقابلے میں قرآن مجید نے جو طرزِ استدلال اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ قدرتِ الٰہی کے آثار کا مشاہدہ کرنے اور ان پر غور کرنے کی طرف دعوت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۝۰ۭ
حٰمٓ سجدہ 53:41
ہم انھیں آفاق میں اور خود ان کے اپنے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے تاکہ ان پر واضح ہوجائے کہ یہی حق ہے۔
اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الاعراف 185:7
کیا وہ آسمانوں اور زمین کے انتظام پرغور نہیں کرتے؟
وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَo
یوسف 105:12
آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے وہ اس طرح گزر جاتے ہیں کہ ان پر غور ہی نہیں کرتے۔
یہ اشارہ ہے اس طرف کہ تمھیں اتنی قوت تو نہیں دی گئی ہے کہ جو چیز تمھارے حواس سے پوشیدہ ہے اسے تم برأی العین مشاہدہ کر سکو، یا کسی تجربے سے اس کی حقیقت معلوم کر سکو۔ البتہ اگر تم آنکھیں کھول کر ان آثار کو دیکھو جو شب و روز تمھارے سامنے پیش ہو رہے ہیں، اور زمین و آسمان کے انتظام کامشاہدہ کرو، اور خود اپنے نفس کی پیدائش پر غور کرو، اور ان سب محسوسات و مشاہدات پر غور و فکر کرکے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرو، تو تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ جو کچھ کہا گیا ہے وہ درست ہے۔
حیاتِ اُخروی کا امکان
پھر وہ انھی آثار و مظاہر میں سے ان چیزوں کو پیش کرتا ہے جو سب سے زیادہ بدیہی ہیں، اور ان سے یہ استدلال کرتا ہے کہ جس بات کو تم بعید اَز عقل و قیاس سمجھ رہے ہو، وہ چاہے تمھاری عقل و قیاس سے دور ہو، مگر حقیقت میں ناممکن نہیں ہے۔
اَللہُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَo الرعد 2:13
وہ اللّٰہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بلند کر رکھا ہے جو تمھیں نظر آ سکیں۔ پھر وہ عرش پر جلوہ فرما ہوا، اور اس نے سورج اور چاند کو اپنا تابع فرمان کیا۔ ان میں سے ہر ایک مدت مقررہ تک کے لیے حرکت کر رہا ہے۔ وہی تمام عالم کا انتظام کرتا ہے اور وہ نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات پر یقین لائو۔
ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ۝۰ۭ بَنٰىہَاo النازعات 27:79
کیا تمھارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟ خدا نے تو (ایسی بڑی چیز) کو بنایا ہے۔
یہ اجرامِ سماوی کے آثار سے استشہاد ہے کہ جس خدا نے اتنا بڑا نظامِ کائنات پیدا کیا ہے، جس نے بڑے بڑے سیاروں کو اپنے قانون کی بندشوں میں جکڑ رکھا ہے، جس کی قدرت ان عظیم اَجرام کو اس انتظام کے ساتھ حرکت دے رہی ہے کہ کوئی جرم اپنے مدار سے بال برابر تجاوز نہیں کر سکتا، نہ اپنے مقررہ اوقات سے پل بھر کے لیے ہٹ سکتا ہے، اور جس طاقت نے کائنات کے طبقوں کو ایسے غیر مرئی اور غیر محسوس سہاروں پر قائم کیا ہے جن کے ادراک سے تم عاجز ہو، اس خدا کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ تم جیسی حقیر مخلوق کو ایک دفعہ ہلاک کرکے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے، کیسی بڑی خام خیالی ہے:
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ۔
بنی اسرائیل 99:17
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس خدانے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ ان جیسوں کو بھی پیدا کرنے پر قادر ہے۔
آسمان کے بعد وہ ہمارے قریب ترین ماحول، یعنی زمین کے آثار کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے:
سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ بَدَاَ الْخَــلْقَ ثُمَّ اللہُ يُنْشِئُ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo العنکبوت20:29
زمین کی سیر کرو اور دیکھو کہ اللّٰہ نے کس طرح آفرینش کی ابتدا کی ہے اور پھر وہی اللّٰہ چیزوں کو دوبارہ زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَۃُ۝۰ۚۖ اَحْيَيْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ يَاْكُلُوْنَo
یٰس 33:36
اور ان کے لیے ایک نشانی تو مردہ زمین ہی ہے جس کو ہم نے زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ لوگ کھاتے ہیں۔
فَانْظُرْ اِلٰٓى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللہِ كَيْفَ يُـحْىِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتٰى۝۰ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo الروم 50:30
پھر اللّٰہ کی رحمت کے آثار دیکھ کہ کس طرح زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً وہ ضرور مُردوں کو بھی زندگی عطا کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْٓ اَحْيَاہَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo حٰمٓ سجدہ 39:41
اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تو زمین کو دیکھتا ہے کہ سُونی پڑی ہے۔ پھر جہاں ہم نے پانی برسایا اور وہ بھیگ اٹھی اور لہلہانے لگی، تو جس نے اسے زندہ کیا وہی مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے۔ یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وَاللہُ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُـثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحْيَيْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُo فاطر 9:35
اور وہ اللّٰہ ہی ہے جو ہوائوں کو چلاتا ہے، پھر وہ بادلوں کو ابھارتی ہیں، پھر ہم ان بادلوں کو ایسی بستی کی طرف ہانکتے ہیں جو بے آب و گیاہ پڑی ہے، پھر اس مردہ پڑی ہوئی زمین کو بارش کے ذریعے سے زندہ کر دیتے ہیں۔ بس ایسا ہی جی اٹھنا قیامت میں بھی ہو گا۔
اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ ہر طرف سے آنکھیں بند کرکے ذرا خود اپنے نفس پر تو غور کرو کہ خود تمھارے اندر ہی خدا کے احیائے موتیٰ پر قادر ہونے کا ثبوت موجود ہے:
ہَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ يَكُنْ شَـيْــــًٔا مَّذْكُوْرًاo الدھر 1:76
بلاشبہ انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت گزرا ہے جب کہ وہ کوئی قابل ذکر شے نہ تھا۔
كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَo
البقرہ 28:2
تم مردہ تھے تو خدا نے تمھیں زندہ کیا، پھر وہ تمھیں مردہ کر دے گا، پھر زندہ کرے گا، پھر تم اس کی طرف لوٹائے جائو گے۔
اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ الحج 5:22
اگر تمھیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو تمھیں معلوم ہو کہ ہم نے مٹی جیسی بے جان شے سے تمھیں پیدا کیا ہے۔
قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَہِىَ رَمِيْمٌo قُلْ يُحْيِيْہَا الَّذِيْٓ اَنْشَاَہَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۝۰ۭ
یٰس 78-79:36
اس نے کہا کہ کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا جب کہ وہ بوسیدہ ہو جائیں گی؟ کہہ دے کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی بار زندگی بخشی تھی۔
قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِيْدًاo اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِيْ صُدُوْرِكُمْ۝۰ۚ فَسَيَقُوْلُوْنَ مَنْ يُّعِيْدُنَا۝۰ۭ قُلِ الَّذِيْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۝۰ۚ بنی اسرائیل 50-51:17
ان سے کہو کہ تم پتھر بن جائو یا لوہا یا کوئی اور ایسی چیز جس کا زندہ ہونا تمھارے نزدیک بہت ہی بعید از عقل ہو، پھروہ پوچھیں کہ کون ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا؟ تو کہو کہ وہی جس نے پہلی بار تمھیں پیدا کیا تھا۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـۃٍ مِّنْ طِيْنٍo ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍo ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۝۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَo ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَo ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَo المومنون 12-16:23
ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر ہم نے ہی اس ست کو نطفہ بنا کرایک حفاظت کی جگہ میں رکھا، پھر نطفے کو لوتھڑا بنایا، پھر لوتھڑے کو مضغۂ گوشت کی صورت دی، پھر مضغہ کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوںپر گوشت چڑھایا، پھر اس کو ایک دوسری ہی چیز بنا کھڑا کیا۔ پس بڑی برکت والا ہے اللّٰہ جو بہترین خالق ہے، پھر اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو، پھر یقیناً تم قیامت کے روز اٹھائے جائو گے۔
اَلَمْ يَكُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْـنٰىo ثُمَّ كَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰىo فَجَــعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰىo اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰىo
القیامہ 37-40:75
کیا انسان منی کا محض ایک قطرہ نہ تھا جو رحمِ مادر میں ٹپکایا گیا تھا؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر خدا نے اسے انسانی شکل دی اور اس کی ساخت کو استوار کیا، پھر اس کی دو صنفیں کر دیں اور مرد و عورت کے جوڑے بنائے۔ کیا وہی خدا اس پر قادر نہیں کہ مُردوں کو زندہ کرے۔
یہ صاف اور واضح اور ہمارے مشاہدہ و احساس سے قریب تر شواہد پیش کرنے کے بعد قرآن مجید ایک ایسی کھلی ہوئی دلیل پیش کرتا ہے جو بالکل عقلِ عام (common sense) سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اشیا کو عدم سے وجود میں لانا زیادہ مشکل ہے بہ نسبت اس کے کہ انھیں منتشر اور پراگندہ ہوجانے کے بعد دوبارہ پہلی صورت پر پیدا کیا جائے۔ پس جو طاقت اس دشوارتر کام کو انجام دینے سے عاجز نہ ہوئی، وہ آسان تر کام کو انجام دینے سے کیوں کر عاجز ہو سکتی ہے؟ اگر ایک شخص موٹر ایجاد کرنے پر قادر ہے اور اس کو بنا چکا ہے تو کیا یہ بات عقل میں آ سکتی ہے کہ وہ موٹر کے پرزوں کو الگ الگ کرنے کے بعد دوبارہ انھیں جوڑ دینے پر قادر نہیں ہے؟ اسی مثال پر قیاس کر لو کہ صانع عالم جو تمھیں عدم سے وجود میں لایا ہے، تمھیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے سے ہرگز عاجز نہیں ہو سکتا:
اَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللہُ الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌo
العنکبوت 19:29
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللّٰہ کس طرح آفرینش کی ابتدا کرتا ہے؟ پھر اسی طرح وہ اس کا اعادہ بھی کرے گا اور یہ بات اللّٰہ تعالیٰ کے لیے یقیناً زیادہ آسان ہے۔
وَہُوَالَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ وَہُوَاَہْوَنُ عَلَيْہِ۝۰ۭ الروم 27:30
اور وہی تو ہے جو آفرینش کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اعادہ اس کے لیے سہل تر ہے۔
اَفَعَيِيْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ۝۰ۭ بَلْ ہُمْ فِيْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيْدٍo قٓ 15:50
کیا ہم پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے عاجز رہے تھے؟ (نہیں، ان کو پہلی آفرینش سے انکار نہیں ہے) مگر ان کو ایک نئی آفرینش میں شک ہے۔
اب صرف یہ شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ جن مُردوں کے اجزائے جسم فنا ہو گئے ان کو پھر کیوں کر پہلا جسم عطا کیا جا سکتا ہے؟ کوئی پانی میں ڈوب کر مرا اور اس کی بوٹی بوٹی مچھلیوں اور آبی جانوروں کی غذا بن گئی۔ کوئی جل کرمرا یا مر کر جلا دیا گیا اور اس کا سارا جسم راکھ اور دھویں میں منتقل ہو گیا۔ کوئی زمین میں دفن ہوا اور خاک میں رَل مل گیا۔اب کیوں کر ممکن ہے کہ اس کا پہلا جسم عُود کرے اور اس میں وہی پہلی روح پھونکی جائے؟ اس شبہے کو لوگوں نے یہ کہہ کر رفع کرنے کی کوشش کی ہے کہ روح کو جسمانی زندگی عطا کرنے کے لیے لازم نہیں ہے کہ وہی پہلا جسم اس کو واپس دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ روح وہی ہو اور اس کو پہلے جسم کے مشابہ کوئی دوسرا جسم عطا کردیا جائے۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ خدا وہی جسم عطا کرنے پر قادر ہے۔ پہلے جسم کے اجزا معدوم نہیں ہوئے ہیں۔ منتشر حالت میں اس کا ہر ہر جز کہیں نہ کہیں موجود ہے، خواہ ہوا میں ہو، خواہ پانی میں ہو، خواہ مٹی میں ہو، خواہ نباتات یا حیوانات کے اجسام میں ہو، خواہ معدنیات کے اجرام میں ہو۔ خدا کا علم اتنا حاوی ہے کہ وہ ہر ہر جز کے مقام کو جانتا ہے اور اس کی قدرت اتنی کامل ہے کہ وہ ان منتشر اجزا کو پھر جمع کرکے پہلی صورت پر بنا سکتا ہے۔
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْہُمْ۝۰ۚ وَعِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِيْظٌo قٓ 4:50
ہم کو معلوم ہے کہ زمین ان میں سے کیا چیز گھٹاتی ہے اور ہمارے پاس ایسی کتاب ہے جس میں ہر چیز کا ریکارڈ محفوظ ہے۔
وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا يَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍo الانعام 59:6
اور اس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ جو کچھ خشکی اور تری میں ہے اس کو سب معلوم ہے۔ ایک پتا بھی اگر جھڑتا ہے تووہ اس کو جانتا ہے۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے، اور کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں ہے جو واضح کرکے دکھا دینے والی ایک کتاب میں موجود نہ ہو۔
یہ جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا مقصد اس استبعاد٭ کو دور کرنا ہے جس کی بِنا پر لوگ حیاتِ اُخروی سے انکار کرتے ہیں۔ انکار کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ منکرین کو کسی تجربہ یا مشاہدہ یا علمِ یقین کے کسی اور ذریعے سے قطعاً و ایجاباً یہ معلوم ہو گیا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ بلکہ انکار صرف اس بِنا پر ہے کہ مرنے کے بعد پھر جی اٹھنا ان کی عقل میں نہیں سماتا۔ انھوں نے اس نظارے کو کبھی نہیں دیکھا۔ ان کو تو یہ دیکھنے کی عادت رہی ہے کہ جو مرا سو پھر نہ پلٹا۔ لہٰذا جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو مر چکے ہیں وہ پھر پلٹیں گے تو اس خلافِ عادت بات کو وہ محال، غیر ممکن اور بعید از عقل و قیاس سمجھتے ہیں۔ لیکن غور و فکر کی راہ میں ایک قدم آگے بڑھیے۔ یہ سارا استبعاد دور ہو جاتا ہے اور جو بات پہلے ناممکن نظر آتی تھی وہ عین ممکن نظر آنے لگتی ہے۔ جن باتوں کو آپ ممکن بلکہ واقعی سمجھتے ہیں ان کے متعلق آپ کا ایسا سمجھنا محض اس وجہ سے ہے کہ آپ کو ان کے وقوع کا مشاہدہ کرنے کی عادت رہی ہے۔ ایک بیج کا زمین میں جا کر پھوٹنا اور ایک تناور درخت کی شکل میں نمودار ہو جانا، ایک قطرے کا رحم میں پہنچنا اور وہاں سے ایک انسان کی شکل میں برآمد ہونا، دو ہوائوں کے مجموعے سے پانی بننا اور اس کا ایک ترتیب کے ساتھ بار بار پانی سے بھاپ اور بھاپ سے پانی بنتے رہنا، عالم کی اس وسیع فضا میں کروڑہا کروڑ سیاروں کا گیندوں کی طرح دوڑنا اور کسی مادی رشتے کے بغیر ایک کا دوسرے کے ساتھ ایسا مربوط ہونا کہ ان کی حرکات اور گردشوں کے نظم میں ذرّہ برابر فرق نہ آئے، یہ سب باتیں دیکھنے کے آپ خُوگر ہیں، اس لیے ان کو معمولی سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر یہی چیزیں آپ کے سامنے پیش نہ ہوتیں اور اس کے بجائے کسی اور نظام سے آپ مانوس ہوتے تو انھی سب باتوں کو آپ انتہا سے زیادہ بعید از عقل وقیاس سمجھتے اور شدت کے ساتھ ان کے امکان سے انکار کرتے۔ فرض کیجیے کہ کرۂ مریخ میں درخت نہ اُگتے ہوں اور وہاں کے لوگوں سے بیان کیا جائے کہ ایک ماشہ بھرکا بیج زمین میں دفن ہو کر درخت بنتا ہے، اور اپنے ابتدائی جرم سے کئی ہزار بلکہ کئی لاکھ گنا بڑا ہو جاتا ہے، اورپھر اس میں سے ویسے ہی ہزاروں بیج پیدا ہوتے ہیں، تو یہ بات مریخ والوں کی نگاہوں میں اتنی ہی حیرت انگیز ہو گی جتنی آپ کے نزدیک مرنے کے بعد پھر جی اٹھنے کی داستان حیرت انگیز ہے۔ وہ بھی اسی طرح کہیں گے کہ یہ تو ناممکن ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ عدمِ امکان کا فتویٰ علم کی بِنا پر نہیں جہل کی بِنا پر ہو گا۔ عقل کی رسائی کا نتیجہ نہیں نارسائی کا نتیجہ ہو گا۔ بس ایسا ہی حال آپ کے استبعاد کا ہے۔ اگر آپ اپنے استعجاب یا استبعاد کی حقیقت کو سمجھ لیں تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ کسی چیز کا آپ کی عقل و قیاس سے دُور ہونا درحقیقت اس چیز کے غیر ممکن یا محال ہونے کے لیے کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔ جو چیزیں آج خود انسان ایجاد کر رہا ہے وہ آج سے سو برس پہلے خود انسان کے نزدیک بعید از عقل و قیاس تھیں۔ مگر واقعات سے ثابت ہو گیا کہ ناممکن نہیں ہیں۔ پھر جب انسان کی عقل اور اس سے بعید یا قریب ہونے کی حقیقت یہ ہو تو کسی چیز کو محض اس بِنا پر ناممکن نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس محدود عقل میں نہیں سماتی۔
کسی مخفی اور ماورائے حواس چیز کو ثابت کرنے کے لیے پہلا قدم یہی ہے کہ اس کا امکان ثابت کیا جائے۔ چنانچہ قرآن مجید نے اپنے استدلال سے حیاتِ اُخروی کے استبعاد کو دور کرکے اس کو ممکن ثابت کر دیا۔ اب دوسرا قدم یہ ہے کہ اس کی ضرورت ثابت کی جائے تاکہ عقل یہ تسلیم کر لے کہ ایسی ایک چیز ضرور ہونی چاہیے اور اس کے عدم سے اس کا وجود اَولیٰ ہے۔
نظامِ عالم ایک حکیمانہ نظام ہے
حیاتِ اُخروی کی ضرورت کا اثبات دراصل اس سوال کے تصفیے پر موقوف ہے کہ آیا یہ کائنات کسی حکیم کا فعل ہے یا بلا کسی حکمت کے آپ سے آپ بن گئی ہے؟
زمانۂ حال کا سائنس زدہ انسان کہتا ہے کہ اس نظام کو کسی صانع حکیم نے نہیں بنایا۔ یہ آپ سے آپ بن گیا ہے اور خود بخود حرکت کرنے والی مشین کی طرح اپنے تمام اجزا سمیت (جن میں انسان بھی شامل ہے) چل رہا ہے۔ مادہ (matter) اور توانائی (energy) کا باہمی تعامل جس روز ختم ہو جائے گا اسی روز یہ نظام بھی درہم برہم ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسا نظام، جس کو ایک اندھی طبیعت (nature) بِلا کسی علم، عقل، شعور، ارادہ اور حکمت کے چلا رہی ہے، اس میں کسی مقصدیت اور حکمت کی تلاش بالکل لاحاصل ہے۔ اسی وجہ سے مادہ پرست سائنس نے آثارِ کائنات کی مقصدی تعلیل (teledogical causation) کو اپنے حدود سے نہ صرف خارج کر دیا ہے، بلکہ اس طریقِ فکر کو سرے سے لغو و بے معنی قرار دیا ہے، اور قطعیت کے ساتھ دعوٰی کیا ہے کہ اس کائنات اور اس کی کسی شے اور کسی فعل میں کوئی مقصد نہیں پایا جاتا۔ آنکھیں دیکھنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ دیکھنا نتیجہ ہے مادہ کی اس خاص تنظیم کا جو آنکھوں میں پائی جاتی ہے۔ دماغ اس لیے نہیں ہے کہ سوچنے اور فکر و شعور کا محل بنے، بلکہ خیالات دماغ کے مادے سے اسی طرح نکلتے ہیں جس طرح جگر سے صفرا نکلتا ہے۔ یہ محض غلط فہمی ہے کہ اشیا کے طبیعی افعال کو ان کا مقصد قرار دیا جاتا ہے اوران کے وجود میں کسی حکمت اور کسی عقل کی جستجو کی جاتی ہے۔
اس نظریے کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو حیاتِ دنیوی کے بعد کسی حیاتِ اُخروی کی ضرورت تسلیم کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں رہتی۔ کیوں کہ جس کائنات کا نظام ایک اندھی بے عقل و شعور طبیعت کے ہاتھوں کسی مقصد و غایت کے بغیر چل رہا ہے، اس کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ وہ اور اس کی ہر شے عبث ہے، عبث بنی ہے اور عبث ہی تمام ہو کر فنا ہو جائے گی۔ یہ مستبعد ہے کہ ایسی اندھی طبیعت عدل کی صفت سے متصف ہو اور اس سے کسی حساب کتاب اور انصاف کی امید کی جائے۔ تاہم اگر بالفرض وہ عدل سے متصف ہو بھی، تو جب کہ انسان اس کے ہاتھ میں ایک بے بس کھلونے کی طرح کھیل رہا ہے اور اپنے اختیار سے کچھ کرنا تو درکنار، سرے سے کوئی اختیار اور کوئی ارادہ رکھتا ہی نہیں، اس پر اپنے کسی اچھے یا بُرے فعل کی اسی طرح کوئی ذمے داری نہیں ہونی چاہیے جس طرح ایک موٹر پر اپنی راست روی یا کج روی کی کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ اورذمے داری کا سوال اٹھ جانے کے بعد دنیا ہی میں عدل وانصاف اور جزا و سزا کا سوال منقطع ہو جاتا ہے، کجا کہ اس کی خاطر ایک دوسری زندگی کی ضرورت تسلیم کی جائے۔ لیکن یہ نظریہ سراسر خلافِ عقل ہے، اور کوئی عقلی دلیل یا علمی شہادت ایسی نہیں پیش کی گئی جس سے اس کی صداقت ثابت اور مبرہن ہو جائے۔ اس کی تائید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا لبِ لباب بس اتنا ہے کہ ہم کو کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا اور کوئی چلانے والا نظر نہیں آتا، نہ اس کی پیدائش کا کوئی مقصد ہماری سمجھ میں آتا ہے۔ ہم اس کو کسی بنانے والے کے بغیر چلتا ہوا دیکھتے ہیں اور اس کے چلنے کا مقصد معلوم کرنا نہ ہمارے لیے ممکن ہے، نہ ہم کو اس کے معلوم کرنے کی ضرورت۔ لیکن کسی شے کی علتِ فاعلی اور علتِ غائی نہ معلوم ہونا اس کی دلیل نہیں ہے کہ اس کی کوئی علتِ غائی اور علتِ فاعلی ہے ہی نہیں۔ فرض کرو کہ ایک بچہ کسی مطبع کی مشین کو چلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مشین کس غرض سے چلائی گئی ہے۔ اس بِنا پر وہ خیال کرتا ہے کہ یہ محض ایک کھلونا ہے جو بلا کسی مقصد و غایت کے چل رہا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ جس طرح اس مشین سے آواز پیدا ہوتی ہے، پُرزے حرکت کرتے ہیں، زمین لرزتی ہے، اسی طرح کاغذ بھی چھپ چھپ کر نکلتے ہیں۔ اس بِنا پر وہ حکم لگاتا ہے کہ جس طرح وہ افعال اس مشین کے چلنے کے نتائج ہیں، اسی طرح کاغذوں کا چھپ چھپ کر نکلنا بھی اس کی حرکت کا ایک طبیعی نتیجہ ہے۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ یہ تمام افعال جو اس سے صادر ہو رہے ہیں، ان میں سے صرف ایک فعل، یعنی کاغذوں کا چھپ کر نکلنا، اس پوری مشین کے بنائے جانے کا مقصد ہے، اور باقی تمام افعال مشین کی حرکت کے طبیعی نتائج ہیں۔ اس کی طفلانہ نظر مشاہدے کی اتنی قوت نہیں رکھتی کہ اس مشین کے پرزوں میں ترتیب، تناسب اور نظم کو محسوس کر سکے، اور یہ سمجھ سکے کہ اس کا ہر پُرزہ جس صورت پر بنایا گیا ہے، اور جس مقام پر لگایا گیا ہے، وہی صورت اور وہی مقام اس کے لیے موزوں ہے اور مشین میں اپنے حصے کا کام انجام دینے کے لیے وہ پرزہ اسی صورت کا اور اسی مقام پر ہونا چاہیے۔ اس بِنا پر وہ کُند ذِہن بچہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مشین یوں ہی لوہے کے ٹکڑوں کے باہم مل جانے سے آپ ہی آپ بن گئی ہے۔ اس کی عقلی قوتیں اتنی ترقی یافتہ نہیں ہیں کہ وہ مشین کے افعال اور اس کی ترتیب کو دیکھ کر قیاس کر سکے کہ اس کا بنانے والا ضرور کوئی حکیم شخص ہونا چاہیے، جس نے ایسے اچھے اندازے، اور ایسے عمدہ نقشے پر ایسی مشین بنائی ہے جس کا کوئی پرزہ بے کار، غیر موزوں، غیر منضبط اور بے ضرورت نہیں ہے، اور یہ کہ ایسی حکمت و دانائی کے ساتھ جو چیز پیش کی گئی ہے وہ ہرگز بے مقصد، بے مصلحت، اور عبث نہیں ہو سکتی۔ اب اگر پریس مشین کے اس ناقص مشاہدے اور اس پر اپنے ناقص غور و فکر سے وہ نادان بچہ یہ نظریہ قائم کرتا ہے کہ مشین کی کوئی علتِ فاعلی اورعلتِ غائی نہیں ہے، نہ کوئی حکمت اس کے بنانے میں صرف ہوئی ہے، اور نہ کوئی حکیمانہ مقصد اس کی صنعت میں پیشِ نظر ہے، تو کیا کوئی عاقل و بالغ آدمی یہ تسلیم کر لے گا کہ بچے نے اس مشین کی حقیقت کے متعلق ایک صحیح نظریہ قائم کیا ہے؟
اگر یہ بات ایک پریس مشین کے معاملے میں درست نہیں ہے تو اُس نظامِ کائنات کے معاملے میں کیوں کر درست ہو سکتی ہے جس کا ایک ایک ذرہ اپنے صانع کے علم، ارادے، حکمت اور بصیرت پر شہادت دے رہا ہے۔ ناقص العقل اور کوتاہ بیں بچہ جو چاہے کہے، مگر کوئی صاحبِ عقل آدمی تو، جس نے آنکھیں کھول کر اس کائنات کے آثار کا مشاہدہ کیا ہے، ایک لمحے کے لیے بھی یہ شک نہیں کر سکتا کہ ایسا محکم، استوار، مرتب اور متناسب نظام، جس میں کوئی شے بے کار اور عبث نہیں ہے، جس میں کوئی شے ضرورت سے کم یا زیادہ نہیں ہے، جس کا ہر جز اپنے مقام اور اپنی ضرورت کے لحاظ سے ٹھیک ٹھیک موزوں ہے، اور جس کے ضابطے میں کہیں کوئی فتور نظر نہیں آتا، کسی حکمت، کسی علم، کسی ارادے کے بغیر بن اور چل سکتا ہے۔
حکیمانہ نظام بے مقصد اور مہمل نہیں ہو سکتا
قرآن مجید نے حیاتِ اُخروی کی ضرورت پر جو دلائل قائم کیے ہیں وہ سب اسی بنیادی نظریے پر مبنی ہیں کہ اس کائنات کا بنانے والا ایک حکیم ہے، جس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہے، اور جس کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہیں کی جا سکتی جو خلافِ حکمت ہو۔ اس بنیاد کو استوار کرنے کے بعد قرآن مجید کہتا ہے کہ:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَo فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ۝۰ۚ المومنون 115-116:23
کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ ہم نے تم کو عبث پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف واپس نہ لائے جائو گے؟ بادشاہ برحق خدا اس سے بالاتر ہے (کہ اس سے کوئی فعلِ عبث صادر ہو)۔
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًىo القیامہ 36:75
کیا انسان یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ وہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَا لٰعِبِيْنَo مَا خَلَقْنٰہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَo اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيْقَاتُہُمْ اَجْمَعِيْنَo
الدخان 38-40:44
ہم نے آسمان اور زمین کو اوران چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ہے۔ ہم نے تو ان کو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کیا ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ یقیناً ان سب کے لیے فیصلے کے دن تک وقت مقرر ہے۔
وَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ۝۰ۣ مَا خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗئِ رَبِّہِمْ لَكٰفِرُوْنَo الروم 8:30
کیا انھوں نے خود اپنے دلوں میں غور نہیں کیا کہ اللّٰہ نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو جو پیدا کیا ہے، تو حکمت کے مطابق کیا ہے اور ان کے لیے ایک وقت مقرر ہے؟ مگر بہت سے آدمی ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔
ان آیات میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر زمین و آسمان کا یہ سارا کارخانہ صرف اس لیے ہے کہ ایک مدت تک چلتا رہے، پھر کسی حاصل اور نتیجے کے بغیر معدوم ہو جائے، تو یہ ایک لغو اور عبث فعل ہو گا، ایک کھیل ہو گا۔ ایسا فعل ہرگز کسی حکیم کا فعل نہیں ہو سکتا۔ اگر تم مانتے ہو کہ یہ کارخانہ خدا نے بنایا ہے اور خدا تمھارے نزدیک حکیم ہے، تو تم کو عقل سے کام لے کر یہ سمجھنا چاہیے کہ موجودات میں سے کوئی شے بے مقصد وجود میں آنے والی اور بے حاصل و بے نتیجہ معدوم ہو جانے والی نہیں ہے۔ خصوصاً انسان جو کائناتِ ارضی کا گلِ سرسبد ہے، جس کی ذی شعور ہستی اس کائناتِ ارضی کے تدریجی ارتقا اور اس کی تمام حرکات و تحولات کا ماحصل ہے، جس کو اتنی حکمت کے ساتھ عقل و فکر اور بینش و دانش اور اختیار و ارادہ سے آراستہ کیا گیا ہے، اس کی تخلیق کا مقصد اتنا مہمل نہیں ہو سکتا کہ وہ چند برس اس دنیا میں ایک مشین کی طرح بسر کرے، پھر مر کر معدوم ہو جائے۔
اقتضائے حکمت کے مطابق نظامِ عالم کا کیا انجام ہونا چاہیے
جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ یہ کائنات عبث اور کھیل نہیں ہے، اور نہ اس کی کوئی شے بے نتیجہ و بے حاصل ہے، تودوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدم مطلق کے سوا اس کارخانے کا اور کون سا انجام ایسا ہے جو اقتضائے حکمت کے عین مطابق ہو؟ اس سوال کا تفصیلی جواب قرآن مجید کی آیات میں موجود ہے، اور وہ ایسا جواب ہے جس کو سننے کے بعد عقلِ سلیم بالکل مطمئن ہوجاتی ہے۔ مگر اس جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے چند امور ذہن نشین کر لیے جائیں:
۱۔ عالمِ وجود کے تمام آثار اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ اس نظام کے جتنے تغیرات و تحولات ہیں، ان سب کا رخ ارتقا کی جانب ہے۔ اس کی ساری گردشوں کا مقصود یہ ہے کہ یہ نقص کو کمال کی طرف لے جائیں، اور اشیا کی ناقص صورتوں کو مٹا کر انھیں کامل اور کامل سے کامل تر صورتیں بخشیں۔
۲۔ اس قانونِ ارتقا کا عمل چوں کہ تغیر کی روش پر ہوتا ہے، اس لیے ہر کون کے لیے ایک فساد ضروری ہے۔ ایک صورت کا وجود میں آنا اس کا مقتضی ہے کہ پہلی صورت فاسد ہو جائے، اور ناقص صورت کا زائل ہونا کامل تر کے وجود میں آنے کا دیباچہ ہوا کرتا ہے۔ یہ تغیرات و استحالات اگرچہ ہر آن ہوتے رہتے ہیں، لیکن بہت سے خفی تغیرات کے بعد ایک جلی اور نمایاں تغیر واقع ہوا کرتا ہے جس میں ایک جلی اور نمایاں فساد پیش آتا ہے۔ یہ دوسری قسم کا فساد ہے جس کو ہم عرف عام میں موت یا زوال سے تعبیر کرتے ہیں، اور ایک صورت کے وجود میں آنے سے لے کر اس کی موت یا اس کے قطعی فساد تک ایک وقفہ ہوتا ہے جس کو ہم اپنی زبان میں عمر کہتے ہیں۔
۳۔ ہر صورت اپنے لیے ایک خاص محل چاہتی ہے جو اس کے مناسب ِ حال ہوا کرتا ہے۔ کوئی صورت کسی ایسے محل میں نہیں رہ سکتی جو اس کے لیے مناسب ِحال نہ ہو۔ مثلاً صورت نباتی کے لیے حیوانی جسم غیرمناسب ہے، اور صورتِ انسانی اسی جسم اور اسی مخصوص طور کے نظام جسمانی کی طالب ہے جو انسان کے لیے بنایا گیا ہے۔ پس اگر کسی شے کو ایک ترقی یافتہ صورت دینی ہو تو لازم ہے کہ فرو تر درجے کی صورت کے لیے جو محل بنایا گیا تھا اس کو توڑ دیا جائے، اور نئی صورت کے لیے اس کے مناسب حال محل تیار کیا جائے۔
۴۔ اجزائے عالم کے حق میں قانونِ ارتقا کی ہمہ گیری کو جس شخص نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے، اس کے نزدیک یہ بات ہرگز مستبعد نہیں ہے کہ یہی قانون اس پورے نظامِ عالم پر بھی حاوی ہو۔ اس وقت جو نظامِ عالم ہم دیکھ رہے ہیں، اس کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ جب سے خلق و ابداع کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سے پہلے نہ معلوم کتنے اور نظامات گزر چکے ہوں گے، جن میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی عمر پوری کرکے دوسرے ترقی یافتہ نظام کے لیے جگہ خالی کردی، اورارتقا کے تدریجی مراتب سے گزر کر سلسلۂ وجود ہمارے اس نظام تک پہنچا۔ اسی طرح یہ نظام بھی کوئی آخری نظام نہیں ہے، یہ بھی جب اپنے امکانی کمالات کو پہنچ جائے گا، اور کمال کے بالاتر درجے کو قبول کرنے کی استعداد اس میں باقی نہ رہے گی، تو اس کو توڑ دیا جائے گا اور اس کے بجائے کوئی دوسرا نظام قائم کیا جائے گا جس کے قوانین کچھ اور ہوں گے، اورجس میں وجود کے کامل تر مراتب قبول کرنے کی صلاحیت ہوگی۔
۵۔ عالم کے موجودہ نظام پر غور کرنے سے ہم کو بیّن طور پر یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ یہ ایک ناقص نظام ہے اور مزید تکمیل کا محتاج ہے۔ اس نظام میں اشیا کی حقیقتیں مادی آلائشوں سے اس درجہ آلودہ ہیں کہ حقیقتوں نے اوہام کا اور ان کے مادی لباسوں نے حقیقتوں کامرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ جوچیز جتنی زیادہ لطیف اور مادی آلائشوں سے مجرّد ہے وہ اس نظامِ عالم میں اتنی ہی زیادہ مخفی و مستور، اور عقل و شعورکی دست رس سے دُور ہے۔ یہاں ٹھوس مادی جسم وزن رکھتا ہے اور لطیف و بسیط حقائق کا کوئی وزن نہیں ہے۔ یہاں لکڑی اور پتھر ناپے اور تولے جا سکتے ہیں، مگر عقل و فکر، خیال ورائے، نیت وارادہ، جذبات و وجدانات کو ناپنے اور تولنے کے لیے اس عالم کے قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں غلہ تولا جا سکتا ہے، مگر محبت اور نفرت کو تولنے والا کوئی ترازو نہیں ہے۔ یہاں کپڑا ناپا جا سکتا ہے، مگر بغض و حسد کو ناپنے کے لیے کوئی پیمانہ موجود نہیں۔ یہاں روپے پیسے کی قدریں متعین کی جا سکتی ہیں، مگر اس جذبے کی قدر و قیمت متعین کرنا ممکن نہیں ہے جو سخاوت یا بخل کے لیے محرک ہوتا ہے۔ یہ اس عالم کے نظام کا نقص ہے۔ عقل چاہتی ہے کہ اس سے زیادہ ترقی یافتہ کوئی اور نظام ہو جس میں حقیقتیں مادی لباسوں کی محتاج نہ رہیں اور بے نقاب جلوہ گر ہو سکیں۔ جس میں لطافتیں کثافتوں پر غالب آ جائیں اور جو کچھ اب مستور و مخفی ہے وہ نمایاں اور جلی ہوجائے۔ اسی طرح یہ بھی اس عالم کا نقص ہے کہ یہاں مادی قوانین کا غلبہ ہے جس کی وجہ سے افعال کے صرف وہی نتائج مترتب ہوتے ہیں جو مادی قوانین کے مقتضیات سے مطابقت رکھتے ہوں، اور ایسے نتائج مترتب نہیں ہونے پاتے جو مقتضیاتِ عقل و حکمت کے مطابق ہوں۔ یہاں آگ لگائو تو ہر آتش پذیر شے جل جائے گی، پانی ڈالو تو نمی کو قبول کرنے والی ہر شے بھیگ جائے گی، مگر نیکی کرو تو اس کا پھل نیکی کی صورت میں ظاہر نہ ہو گا جو اس کا حقیقی عقلی نتیجہ ہے، بلکہ اس صورت میں ظاہر ہو گا جو مادی قوانین کے تحت ظاہر ہو سکتا ہے، خواہ وہ نیکی کے بالکل برعکس بدی ہی کی صورت کیوں نہ ہو۔ اس نقص کودیکھ کر عقل تقاضا کرتی ہے کہ اس نظام کے بعد کوئی اور ترقی یافتہ نظام ایسا قائم ہو جس میں مادی قوانین کے بجائے عقلی قوانین جاری ہوں، اور افعال کے وہ حقیقی نتائج ظاہر ہوں جو اس نظام میں مادی قوانین کے غالب ہونے کی وجہ سے ظاہر نہیں ہو سکتے۔
نظامِ عالم کا خاتمہ
ان مقدمات کو سمجھ لینے کے بعد اب دیکھیے کہ قرآنِ حکیم نے قیامت اور نشا ٔۃِ آخرت کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں آپ کے سوال کا کیا جواب ملتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ:
مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ الاحقاف46:3
ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو چیزیں ہیں ان سب کو مقتضائے حکمت کے مطابق اور ایک مدت مقررہ تک کے لیے پیدا کیا ہے۔
وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ الرعد 2:13
اس نے چاند سورج کو اپنے قانون کا پابند کر دیا۔ یہ سب ایک مدت مقررہ تک کے لیے چل رہے ہیں۔
اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْo وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْo وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّـــرَتْo وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْo الانفطار82:4-1
جب آسمان پھٹ جائے گا اور کواکب منتشر ہو جائیں گے اور سمندر پھوٹ نکلیں گے اور قبریں اکھاڑ دی جائیں گی۔
اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْo وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْo وَاِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْo
التکویر 1-3:81
اور جب آفتاب کو لپیٹ دیا جائے گا اور تارے درہم برہم ہو جائیں گے اور پہاڑ چلائے جائیں گے۔
فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْo وَاِذَا السَّمَاۗءُ فُرِجَتْo وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْo
المرسلٰت77:10- 8
پھر جب تارے ماند پڑ جائیں گے اور جب آسمان شق کر دیا جائے گا اور جب پہاڑ اڑائے جائیں گے۔
فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُo وَخَسَفَ الْقَمَرُo وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُo القیامہ 7-9:75
جب آنکھیں پتھرا جائیں گی اور چاند گہنا جائے گا اور چاند سورج ملا دیے جائیں گے۔
وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّۃً وَّاحِدَۃًo الحاقہ 14:69
زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر ٹکرا دیا جائے گا اور ایک ہی ٹکر میں وہ پاش پاش ہو جائیں گے۔
يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِo
ابراہیم 48:14
جس روز زمین بدل کر دوسری طرح کی زمین کر دی جائے گی اور اسی طرح آسمان بھی، اور سب کے سب خدائے واحد قہار کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے۔
یہ سب اشارات ہیں اس طرف کہ اس نظامِ عالم کی ایک خاص عمر مقرر ہے۔ یہ کوئی دائمی نظام نہیں ہے۔ جب اس کی عمر پوری ہو جائے گی تو یہ نظام درہم برہم کر دیا جائے گا۔ سورج، زمین، چاند اور دوسرے سیارے جو اس نظام کے ارکان ہیں، اور جن کی گردشوں سے اس نظام کا قیام ہے، منتشر ہو جائیں گے، ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے اور یہ عارضی عمارت توڑ ڈالی جائے گی۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ عالمِ وجود کا خاتمہ ہو جائے گا، خلق و ابداع کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا، بلکہ اس کا مدّعا یہ ہے کہ وجود کا یہ خاص طور جو اس نظام میں نظر آ رہا ہے، بدل ڈالا جائے گا، اور عالم وجود کے لیے ایک دوسرانظام قائم کیا جائے گا جس کی طرف يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ ابراہیم 48:14 میں اشارہ کیا گیا ہے۔
حیاتِ اُخروی کا نظام کیا ہو گا؟
وہ نظام کیسا ہو گا؟ اس کی جو کیفیت قرآن میں بیان کی گئی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ موجودہ نظام ہی کے نقص کی تکمیل ہے، اسی نظام کی ارتقائی صورت ہے، اور ویسی ہی ہے جیسی عقل چاہتی ہے کہ ہو۔اس نظام میں وزن اور پیمایش اور حساب سب کچھ ہو گا، مگر مادی چیزوں کے لیے نہیں بلکہ لطیف، بسیط اور مجرد حقیقتوں کے لیے۔ وہاں خیر اور شر، ایمان اور کفر، اخلاق اور ملکات کا وزن ہو گا۔ نیتوں اور ارادوں کی پیمایش ہو گی۔ دلوں کے اعمال ناپے اور تولے جائیں گے۔ وہاں اس روٹی کے وزن اور اس پیسے کے عدد کا حساب نہ ہو گا جو آپ نے کسی غریب کو دیا ہے، بلکہ اس نیت کا حساب ہو گا جو اس بخشش کے لیے محرک ہوئی ہے، اس لیے کہ وہاں کا قانون مادی نہیں، عقلی ہو گا۔
اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًاo بنی اسرائیل 36:17
آنکھ اور کان اور دل سب کی پوچھ گچھ ہو گی۔
وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَابِہَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَo الانبیائ 47:21
اور قیامت کے روز ہم ٹھیک وزن کرنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی نفس پر کچھ ظلم نہ ہو گا اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا تو ہم اس کو لے آئیں گے، اور ہم حساب کرنے کے لیے کافی ہیں۔
وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَo
الاعراف 8-9:7
اس روز اعمال کا تولا جانا برحق ہے۔ پھر جس کے اعمال کا وزن بھاری ہو گا وہی فلاح پانے والا ہو گا، اور جس کے اعمال کا وزن ہلکا ہو گاوہ، وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنے آپ کو خود نقصان میں ڈالا۔
يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا۝۰ۥۙ لِّيُرَوْا اَعْمَالَہُمْo فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗo وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗo الزلزال 6-8:99
اس روز لوگ جدا جدا نکلیں گے تاکہ ان کے اعمال انھیں دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھے گااور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھے گا۔
اس دوسرے نظام میں وہ سب چیزیں نمایاں ہو جائیں گی جو اس مادی نظام میں مادی قوانین کی بندشوں کے سبب سے چھپی ہوئی ہیں۔ وہاں مخفی اور مستور حقیقتیں بے نقاب سامنے آ جائیں گی اور ہر چیز کی اصلی اور حقیقی حیثیت کھل جائے گی۔
لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌo
قٓ 22:50
انسان سے کہا جائے گا کہ تو اس چیز سے غفلت میں تھا، اب ہم نے تیری آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا اور اب تیری نگاہ بہت تیز ہے۔
يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَۃٌo الحاقہ 18:69
اس روز تم پیش کیے جائو گے۔ تمھارا کوئی راز مخفی نہ رہے گا۔
وہاں افعال کے وہ حقیقی نتائج مترتب ہوں گے جو عقل و حکمت اور عدل و انصاف کے مطابق ہیں۔ موجودہ نظام کے مادی قوانین اور مادی اسباب و وسائل، جن کے اثر سے افعال کے حقیقی اور عقلی نتائج مترتب نہیں ہو سکتے، وہاں نافذ نہیں ہوں گے، اس لیے وہ تمام چیزیں جو یہاں عدل و انصاف میں مانع ہوتی ہیں، اور صحیح نتائج مترتب نہیں ہونے دیتیں، وہاں بالکل بے اثر ہو جائیں گی۔ مثال کے طور پر یہاں دولت، مادی وسائل کی کثرت، دوستوں اور حامیوں کی طاقت، سعی، سفارش، خاندانی اثرات، خود اپنی چالاکی و ہوشیاری اور ایسی ہی دوسری چیزیں انسان کو اس کے بہت سے افعال کے نتائج سے بچا لیتی ہیں۔ مگر وہاں ان اسباب کی تاثیریں باطل ہو جائیں گی اور ہر فعل کا وہی نتیجہ برآمد ہو گا جو عدل اور حق کی بِنا پر برآمد ہونا چاہیے۔
ہُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ یونس 30:10
وہاں ہرنفس اپنے ان اعمال کو خود جانچ لے گا جو وہ پہلے کر چکا ہے۔
وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَo آل عمران 25:3
ہر نفس کو جیسا اس نے کیا ہے اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا۝۰ۚۖۛ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۚۛ
آل عمران 30:3
وہ دن جب کہ ہر نفس ہر اس نیکی کو جو اس نے کی ہے اور ہر اس برائی کو جو وہ کر چکا ہے حاضر پائے گا۔
وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَلَا يُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَo البقرہ 48:2
ڈرو اس دن سے جب کہ ایک نفس دوسرے نفس کے کچھ کام نہ آئے گا، اور نہ اس کے حق میں کوئی سفارش قبول کی جائے گی، اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا، اور نہ ان کی کوئی مدد کی جاسکے گی۔
فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَہُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَo فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ المومنون 101-103:23
پھر جب صور پھونک دیا گیا تو اس روز ان میں کوئی نسبی تعلق باقی نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ جن کے اعمال کا پلہ بھاری ہو گا، وہی لوگ فلاح پائیں گے اور جن کے اعمال ہلکے ہوں گے وہ وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے خود اپنے آپ کو نقصان میں ڈالا۔
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَo اِلَّا مَنْ اَتَى اللہَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍo الشعرائ 88-89
اس دن جب کہ نہ مال کچھ نفع دے گا اور نہ اولاد، نجات صرف اس کی ہو گی جو خدا کے پاس قلبِ سلیم کے ساتھ حاضر ہو گا۔
وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِكُمْ۝۰ۚ وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّہُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰۗؤُا۝۰ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَo الانعام 94:6
تم ہمارے پاس اکیلے آئے ہو جیسا ہم نے تم کو پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا۔ ہم نے تم کو جو کچھ ساز و سامان دیا تھا اس سب کو تم پیچھے چھوڑ آئے ہو اور اب ہم تمھارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جن کو تم اپنی پرورش اور رزق بخشی میں خدا کا شریک سمجھتے تھے۔ تمھارے درمیان سب رابطے ٹوٹ چکے ہیں اور باطل ہو چکے ہیں۔
لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ۝۰ۚۛ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚۛ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo الممتحنہ60:3
قیامت کے دن تمھاری رشتے داریاں اور تمھاری اولاد تمھارے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گی۔ اللّٰہ تمھارے درمیان فیصلہ کرے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کو وہ دیکھتا ہے۔
يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْہِo وَاُمِّہٖ وَاَبِيْہِo وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِيْہِo لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْہِo عبس 34-37:80
وہ دن جب کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں باپ اور بیوی اور بچوں سے بھاگے گا، اس روز ہر شخص اپنے اپنے حال میں مبتلا ہو گا۔
موجودہ نظام میں یہ نقص ہے کہ یہاں قدرت کے انعامات کی تقسیم انسان کے عمل اور اس کی خوبی پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایسے اسباب پر مبنی ہے جن میں ذاتی اعمال اور نفسی صلاحیتیں محض ایک سبب کی حیثیت رکھتی ہیں اور دوسرے قوی تر اسباب ان کی تاثیر کو ضعیف بلکہ بسا اوقات بالکل زائل کر دیتے ہیں۔ اس وجہ سے انعامات کی تقسیم میں استحقاقِ ذاتی کو دخل نہیں ہوتا، یا ہوتا بھی ہے تو بہت کم۔ یہاں ایک شخص تمام عمر ظلم اور فسق کرنے کے باوجود خوش حالی اور دنیوی برکات سے متمتع ہو سکتا ہے، اور ایک شخص زندگی بھر ایمان داری اور پرہیز گاری کے ساتھ بسر کرنے کے باوجود خستہ حال اور دنیوی مصائب سے پراگندہ حال رہ سکتا ہے۔ یہ نقص تکمیل کا محتاج ہے اور حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ موجودہ نظام ترقی کرکے ایک ایسے نظام میں تبدیل ہو جائے جس میں عدل کے ساتھ جزا و سزا کی تقسیم ہو اور ہر شخص کو وہی ملے جس کا وہ اپنے ذاتی حُسن و قبح کی بِنا پر مستحق ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ دارِ آخرت کا نظام ایسا ہی ہو گا:
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۡاَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِo ص 28:38
کیا ہم ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انھی جیسا بنا دیں گے جو زمین میں فسادکرتے ہیں؟ کیا ہم متقیوں اور فاجروں کو یکساں کر دیں گے؟
اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ۝۰ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَo الجاثیہ 21:45
کیا بدکاریاں کرنے والے یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر کر دیں گے اور ان کی زندگی و موت یکساں ہو گی؟ یہ کیسی بری بات ہے جس کا وہ حکم لگاتے ہیں۔
وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا۝۰ۭ الانعام 132:6
ہر ایک کے لیے ویسے ہی درجات ہوں گے جیسے انھوں نے عمل کیے۔
وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِيْنَo وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَo الشعرائ 90-91:26
جنت پرہیز گاروں کے قریب لائی جائے گی اور دوزخ گمراہوں کے سامنے کر دی جائے گی۔
یہ ہے اس دوسرے جہان کا نقشہ جس کو اس جہان کے بعد محمدؐ کا مذہب اور تمام انبیا علیہم السلام کا مذہب تجویز کرتا ہے۔ جو لوگ اس جہان اور اس کے سارے کارخانے کو ایک کھیل، ایک گھروندا، ایک بے مقصد و بے حاصل ہنگامہ، اور ایک ایسا مہمل گورکھ دھندا سمجھتے ہیں جو اہمال سے شروع ہو اور اہمال ہی میں ختم ہو جائے گا، ان کو تو اس تجویز اور اس کے دلائل و شواہد میں کوئی بات ماننے کے قابل نظر نہ آئے گی، مگر جو شخص نظامِ عالم کو خدا کا آفریدہ سمجھتا ہے اور خدا کو حکیم مانتا ہے، وہ ان دلائل پر غور کرنے کے بعد یقیناً یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا کہ موجودہ نظامِ عالم کے بعد اس طور اور اس کیفیت کے ایک نظام کا ہونا ضروری ہے، اور جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ممکن ہے، تو اس ممکن کی ضرورت کا ثابت ہو جانا اس بات پر ایمان لانے کے لیے بالکل کافی ہے کہ خدائے حکیم و دانا اس ممکن ضروری الوجود کو ضرور وجود بخشے گا۔
اس بحث سے واضح ہو گیا کہ اسلام نے جس حیاتِ اُخروی پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا ہے وہ بعید از عقل نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے، بلکہ عین مقتضائے عقل و حکمت ہے، اور علم و عقل کی کسی ترقی سے اس ایمان میں رخنہ نہیں پڑ سکتا، بشرطیکہ وہ ترقی حقیقی ہو نہ کہ سطحی اور نمایشی۱؎۔
اعتقادِ یومِ آخر کی ضرورت
اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ اس دنیوی زندگی کے بعد ایک اُخروی زندگی کا وجود میں آنا ممکن اور اغلب اور اقتضائے حکمت کے مطابق ہے، اور عقل (بشرطیکہ صحیح و سلیم ہو) اور علم (بشرطیکہ حقیقی ہو) ہم کو اُخروی زندگی کے اس تصور پر جو قرآن نے پیش کیا ہے، ایمان لانے سے روکتے نہیں بلکہ اس پر آمادہ کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اُخروی زندگی کے اس تصور پر ایمان لانے کی ضرورت کیا ہے؟ اس کو ایمانیات میں کیوں داخل کیا گیا ہے؟ اس پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے اس کو ماننا لازم ہو اور کوئی شخص اس کو تسلیم کیے بغیر مسلمان نہ ہو سکتا ہو؟ اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس کا انکار کرنے کے بعد خدا اور رسولؐ اور کتاب پر ایمان لانا بھی نافع نہ ہو، حتیٰ کہ زندگی بھر کے نیک اعمال بھی غارت ہو جائیں؟ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ اُخروی زندگی کانظریہ بھی ویسا ہی ایک مابعد الطبیعی نظریہ ہے جیسے ما بعد الطبیعیات کے دوسرے نظریات ہیں۔ ہم نے مانا کہ یہ نظریہ دلیل و حجت سے خوب مستحکم کر دیا گیا ہے، اور اس کو تسلیم کرنے کے لیے کافی وجوہ موجود ہیں، لیکن ما بعد الطبیعیات کے کسی مسئلے کا دلیل سے ثابت ہو جانا یہ معنی تو نہیں رکھتا کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہو جائے اور اسی پر کفر و اسلام کا مدار ٹھیرے۔حیاتِ اُخروی کی طرح مابعد الطبیعیات کے اور بھی بہت سے نظریات ایسے ہیں جن کی تائید میں قوی دلائل موجود ہیں۔ پھر ان سب کو بھی اسی طرح داخلِ ایمان کیوں نہ کر لیا گیا؟
اگر حیاتِ اُخروی کے اعتقاد کی حیثیت محض ایک ما بعد الطبیعی مسئلے کی ہوتی تو یہ اعتراض یقیناً قوی ہوتا۔ اس صورت میں اس مسئلے کو ایمانیات میں داخل کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی، کیوں کہ کسی خالص ما بعد الطبیعی مسئلے کا اس حیثیت سے کہ وہ ما بعد الطبیعی مسئلہ ہے، ہماری عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ہم اس سے خالی الذہن ہوں یا اس کو ماننے سے انکار بھی کر دیں تو ہمارے اخلاق اور اعمال پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن حیاتِ اُخروی کے مسئلے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ایک فلسفیانہ مسئلہ ہی نہیں ہے، بلکہ انسان کی اخلاقی اور عملی زندگی سے اس کا ایک گہرا تعلق ہے۔ اس کو ماننے سے دنیوی زندگی اور اس کے معاملات کے متعلق انسان کا نقطۂ نظر بنیادی طور پر بدل جاتا ہے۔ اس اعتقاد کو تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے آپ کو ایک ذمے دار اور جواب دہ ہستی سمجھے اور اپنی زندگی کے تمام معاملات یہ سمجھتے ہوئے انجام دے کہ وہ اپنی ہر حرکت اور ہر فعل کے لیے ذمے دار ہے۔ آیندہ زندگی میں اس کو اپنے تمام اعمال کی جواب دہی کرنی ہے اور مستقبل کی سعادت و شقاوت اس کے حال کی نیکی اور بدی پر منحصر ہے۔ بخلاف اس کے اس اعتقاد کو تسلیم نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے آپ کو غیر ذمے دار اور غیر مسئول ہستی سمجھے اور اپنی دنیوی زندگی کا سارا پروگرام اس خیال کے تحت مرتب کرے کہ وہ اس زندگی کے اعمال کے لیے کسی دوسری زندگی میں جواب دہ نہیں ہے اور آیندہ کوئی اچھا یا برا نتیجہ اس زندگی کے اعمال و افعال پر مترتب ہونے والا نہیں ہے۔ اس عقیدے سے خالی الذہن ہونے یا اس کو نہ ماننے کا لازمی اثر یہ ہو گا کہ انسان کی نظر اپنے اعمال کے صرف ان نتائج پر ہو گی جو اس دنیوی زندگی میں مترتب ہوتے ہیں اور انھی نتائج کے لحاظ سے وہ رائے قائم کرے گا کہ کون سا فعل اس کے لیے مفید ہے اور کون سا مضر۔ وہ زہر کھانے اور آگ میں ہاتھ ڈالنے سے ضرور احتراز کرے گا، کیوں کہ اس کو معلوم ہے کہ وہ ان دونوں حرکتوں کے برے نتائج اپنی اسی زندگی میں بھگت لے گا۔ لیکن ظلم، بے انصافی، جھوٹ ، غیبت، خیانت، زنا اور ایسے ہی دوسرے افعال کے پورے نتائج چوں کہ اسی دنیوی زندگی میں ظاہر نہیں ہوتے، اس لیے وہ ان سے صرف اسی حد تک اجتناب کرے گا جس حد تک ان کا کوئی برا نتیجہ اس زندگی میں مترتب ہونے کا اندیشہ ہو۔ اور جہاں کوئی بُرا نتیجہ مترتب ہوتا نظر نہ آئے یا برعکس اس کے ان سے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید ہو، تو وہ ان افعال کے ارتکاب میں کوئی تامل نہ کرے گا۔ غرض کہ اس تصور کے ماتحت اس کی نگاہ میں کسی اخلاقی فعل کی کوئی متعین اخلاقی قدر نہ ہو گی، بلکہ ہر ایسے فعل کی اچھائی اور برائی اس نتیجے کی اچھائی اور برائی پر منحصر ہو گی جو اس پر اس دنیا میں مترتب ہوتا ہو۔ بخلاف اس کے جو شخص یومِ آخر کا معتقد ہو گا اس کی نظر اپنے اخلاقی افعال کے صرف انھی نتائج پر نہ ہو گی جو اس زندگی میں مترتب ہوتے ہیں، بلکہ وہ ان آخری نتائج پرنگاہ رکھے گا جو اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی میں ظاہر ہونے والے ہیں، اور ان نتائج کے لحاظ سے ہر فعل کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ کرے گا۔ اس کو جس طرح زہر کے مہلک اور آگ کے موذی ہونے کا یقین ہو گا اسی طرح خیانت اور جھوٹ کے مہلک اور مُوذی ہونے کا بھی یقین ہو گا۔ وہ جس طرح روٹی اور پانی کو مفید سمجھے گا اسی طرح عدل و امانت اور عفت کو بھی مفید سمجھے گا۔ وہ اپنے ہر فعل کے ایک متعین اور یقینی نتیجے کا قائل ہو گا، خواہ وہ نتیجہ اس زندگی میں قطعاً ظاہر نہ ہو بلکہ برعکس صورت میں ظاہر ہو۔ اس کے پاس اخلاقی اعمال کی متعین اخلاقی قدریں ہوں گی اور ان قدروں میں دنیوی فوائد یا مضرتوں سے کوئی تغیر واقع نہ ہو گا۔ اس کے نظامِ اخلاق میں صداقت، انصاف اور وفائے عہد بہرحال صواب اور حَسن ہی ہوں گے، خواہ اس دنیا میں ان سے سراسر نقصان ہی نقصان ہو اور قطعاً کوئی فائدہ نہ ہو۔ اور جھوٹ، ظلم اور بد عہدی بہرحال گناہ اور بدی ہی ہوں گے، خواہ ان سے دنیا میں سراسر فائدہ ہی فائدہ ہو اور ذرّہ برابر کوئی نقصان نہ ہو۔
پس حیاتِ اُخروی کے اعتقاد سے خالی الذہن ہونے یا اس کا انکار کر دینے کے معنی اسی قدر نہیں ہیں کہ انسان ایک ما بعد الطبیعی نظریے سے خالی الذہن رہا یا اس نے اس نظریے کو ماننے سے انکار کر دیا، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی ذمے دارانہ اور مسئولانہ حیثیت سے غافل ہو گیا، اپنے آپ کو مطلق العنان اور جواب دہی سے بری الذمہ سمجھ بیٹھا، دنیا اور اس کی ظاہری زندگی اور اس کے غیر مکمل بلکہ بسا اوقات دھوکا دینے والے نتائج سے مطمئن ہو گیا، اور اس نے آخری منافع اور آخری نقصانات سے غافل ہو کر محض ابتدائی اورعارضی اور ناقابلِ اعتبار منفعتوں اور مضرتوں کا اعتبار کر لیا اور انھی کے لحاظ سے اپنے افعال کی ایسی اخلاقی قدریں متعین کیں جو بدلنے والی اور دھوکا دینے والی ہیں۔ وہ ایک صحیح اور پائدار اخلاقی ضابطے سے محروم ہو گیا جو صرف ذمے داری کے احساس اور آخری نتائج کے ملاحظے اور متعین اخلاقی قدروں کے اعتبار ہی سے منضبط ہو سکتا ہے، اور اس طرح اس نے اپنی پوری زندگی دنیا کے ناقص سطحی مظاہر سے دھوکا کھا کر ایک ایسے ناپائدار اور غلط اخلاقی ضابطے کے تحت بسر کی جس میں حقیقی مضرت منفعت بن گئی اور حقیقی منفعت مضرت قرار پائی، حقیقی حسن قبح بن گیا اور حقیقی قبح حسن قرار پایا، حقیقی گناہ صواب بن گیا اور حقیقی صواب گناہ قرار پایا۔
یومِ آخر پر ایمان نہ لانے کے یہی نتائج ہیں جن کو قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس باب میں آیاتِ قرآنی کا تتبع کیجیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ تمام خرابیاں ایک ایک کرکے گنائی گئی ہیں جو یومِ آخر کو نہ ماننے سے انسان کے اخلاق اور اعمال میں پیدا ہو جاتی ہیں۔
۱۔ انسان اپنے آپ کو مہمل، مطلق العنان، غیر ذمے دار سمجھتا ہے، اپنی زندگی کو بحیثیت مجموعی بے نتیجہ خیال کرتا ہے، اور یہ سمجھ کر کام کرتا ہے کہ کوئی اس کے کام کا نگران اور اس سے حساب لینے والا نہیں ہیں:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَo المومنون 115:23
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو عبث پیدا کیا ہے اور تم ہمارے پاس واپس نہ لائے جائو گے؟
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًىo القیامہ 36:75
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟
اَيَحْسَبُ اَنْ لَّنْ يَّقْدِرَ عَلَيْہِ اَحَدٌo يَقُوْلُ اَہْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًاo اَيَحْسَبُ اَنْ لَّمْ يَرَہٗٓ اَحَدٌo البلد 5-7:90
کیاانسان یہ گمان کرتا ہے کہ اس پرکسی کا بس نہ چلے گا؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا۔ کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا؟
۲۔ ایسے آدمی کی نظر دنیا کے صرف ظاہری پہلو پر ہوتی ہے، ابتدائی اور سطحی نتائج کو وہ آخری اور حقیقی نتائج سمجھتا ہے اور ان سے دھوکا کھا کر غلط رائے قائم کرتا ہے۔
يَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚۖ وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ہُمْ غٰفِلُوْنَo الروم 7:30
وہ دنیوی زندگی کے صرف ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے تو وہ غافل ہی رہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِہَا یونس 7:10
جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور حیات دنیا سے راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں۔
كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَo وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَo القیامہ 20-21:75
ہرگز نہیں، تم تو فوری حاصل ہونے والے نتائج کو پسند کرتے ہو اور آخرت کے نتائج کو چھوڑ دیتے ہو۔
بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَاo وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰىo الاعلیٰ 16-17:87
تم حیاتِ دنیا کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور زیادہ پائدار ہے۔
وَّغَرَّتْہُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا۝۰ۚ الاعراف 51:7
ان کو حیات دنیا نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔
۳۔اس ظاہر بینی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی نگاہ میں اشیا کی اخلاقی قدروں کا معیار بالکل الٹا ہوجاتا ہے۔ جو چیزیں حقیقت میں اپنے آخری نتائج کے لحاظ سے مضر ہوتی ہیں ان کو وہ فوری فوائد پر نظر رکھنے کی وجہ سے مفید سمجھتا ہے، اور جو اعمال آخری نتائج کے لحاظ سے غلط ہیں ان کو وہ ابتدائی نتائج کا لحاظ کرکے خیر و صلاح سمجھنے لگتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی دنیوی کوششیں صحیح راہوں سے بھٹک جاتی ہیں اور آخر کار ضائع ہو جاتی ہیں۔
قَالَ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا يٰلَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ قَارُوْنُ۝۰ۙ اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍo وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللہِ خَيْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۚ القصص79-80:28
جو لوگ دنیوی زندگی ہی کے فائدوں کو چاہتے تھے انھوں نے کہا کہ کاش ہم کو بھی وہی ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے۔ اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا انھوں نے کہا کہ تم پر افسوس! اللّٰہ کا ثواب اس شخص کے لیے بہت اچھا ہے جو ایمان لایا اور جس نے نیک اعمال کیے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ زَيَّنَّا لَہُمْ اَعْمَالَہُمْ فَہُمْ يَعْمَہُوْنَo النمل 4:27
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لیے ہم ان کے کرتوتوں کو خوش نما بنا دیتے ہیں اور وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔
اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَo نُسَارِعُ لَہُمْ فِي الْخَــيْرٰتِ۝۰ۭ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَo المومنون 55-56:23
کیا یہ لوگ اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہیں کہ ہم جو ان کو مال اور اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں تو گویا ان کے لیے بھلائیوں میں سرگرم ہیں؟ مگر یہ لوگ حقیقت کو نہیں سمجھتے۔
ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاۗىِٕہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ الکہف 103-105:18
کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ ٹوٹے میں کون لوگ ہیں؟ وہ جن کی کوششیں حیاتِ دنیا میں بھٹک گئیں مگر وہ سمجھتے رہے کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی نشانیوں اور اس کی ملاقات کا انکارکیا، اس لیے ان کے اعمال ضائع ہو گئے۔
۴۔ ایسا شخص کبھی دینِ حق کو قبول نہیں کر سکتا۔ جب کبھی اس کے سامنے مکارمِ اخلاق اور اعمالِ صالح اور راست روی کے طریقے پیش کیے جائیں گے، وہ ان کو ردّ کر دے گا، اور جب ان کے خلاف عقائد اور اعمال پیش کیے جائیں گے تو وہ انھیں اختیار کر لے گا۔ کیوں کہ دین کے جتنے طریقے ہیں، وہ دنیوی زندگی کے بہت سے فوائد ومنافع اور بہت سی لذتوں کی قربانیاں چاہتے ہیں، اور ان کا اصل الاصول یہ ہے کہ آخرت کے بہتر اور پائندہ تر فوائد کے لیے دنیا کے عارضی فوائد کو قربان کر دے۔ مگر منکرِ آخرت اسی دنیا کے فوائد کو فوائد سمجھتا ہے، اس لیے وہ نہ ایسی کسی قربانی کے لیے تیار ہو سکتا ہے، اور نہ دین داری کے ان طریقوں کو اختیار کر سکتا ہے جو ان قربانیوں کے طالب ہیں۔ لہٰذا انکارِ آخرت اور دینِ حق کی پیروی دونوں ایک دوسرے کے نقیض ہیں۔ جو منکرِ آخرت ہو گا وہ کبھی دین حق کا پیرو نہیں ہو سکتا۔
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰــتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ۝۰ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَۃٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِہَا۝۰ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْہُ سَبِيْلًا۝۰ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْہُ سَبِيْلًا۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِيْنَo وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ۝۰ۭ ہَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo الاعراف 146-147:7
میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں حق کے بغیر تکبرکرتے ہیں۔ وہ خواہ کوئی آیت دیکھ لیں، اس پر ایمان نہ لائیں گے، اور اگر راہِ راست کو دیکھیں گے تو اسے اختیار نہ کریں گے، اور اگر غلط راستے کو دیکھیں گے تو اس پر چل پڑیں گے۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے۔ اور جو لوگ ہماری نشانیوں اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلائیں گے ان کے اعمال اکارت ہوجائیں گے۔ کیا ان کو ویسا ہی بدلہ نہ ملے گا جیسے انھوں نے عمل کیے ہیں؟
۵۔ انکارِ آخرت سے انسان کی پوری اخلاقی اور عملی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ وہ متکبر اور سرکش ہو جاتا ہے۔
فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ قُلُوْبُہُمْ مُّنْكِرَۃٌ وَّہُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَo النحل 22:16
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل حق بات سے انکار کرنے لگتے ہیں اور وہ متکبر ہوجاتے ہیں۔
وَاسْـتَكْبَرَ ہُوَ وَجُنُوْدُہٗ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اِلَيْنَا لَا يُرْجَعُوْنَo
القصص 39:28
فرعون اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے تکبر کیا اور سمجھنے لگے کہ وہ ہمارے پاس واپس نہ لائے جائیں گے۔
اس کے معاملات بگڑ جاتے ہیں
وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَo الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَo وَاِذَا كَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ يُخْسِرُوْنَo اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَo لِيَوْمٍ عَظِيْمٍo
المطففین83:5- 1
تباہی ہے ان بد معاملہ لوگوں کے لیے جو دوسروں سے لیتے ہیں تو پورا پورا ناپ تول کر لیتے ہیں اور جب دوسروں کو ناپ تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ وہ ایک بڑے دن اٹھائے جانے والے ہیں؟
وہ سنگ دل، تنگ نظر، ریا کار، خود غرض اور عبادتِ الٰہی سے رُوگرداں ہو جاتا ہے:
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِo فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَo وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِo فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَo الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَo الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَo وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo الماعون107:7-1
کیا تو نے دیکھا کہ اس شخص کو جو روزِ جزا کی تکذیب کرتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کودھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں ابھارتا۔ پھر افسوس ہے ان نمازیوں پر جو اپنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں۔ جو عمل نیک کرتے بھی ہیں تو دکھانے کے لیے، اور چھوٹی چھوٹی عام ضرورت کی چیزیں بھی لوگوں کو دینے میں دریغ کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ حق سے تجاوز کرنا اور گناہوں میں مبتلا ہو جانا انکارِ آخرت کا لازمی نتیجہ ہے۔
وَمَا يُكَذِّبُ بِہٖٓ اِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍo المطففین 12:83
یوم الجزا کی تکذیب نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو حق سے تجاوز کر گیا اور گناہوں میں پھنس گیا۔
یوم آخر کے اعتقاد سے خالی الذہن یا منکر ہونے کے یہ ایسے نتائج ہیں جن سے کوئی صاحبِ عقل انکار نہیں کر سکتا۔ خصوصاً جب کہ ہم اپنی آنکھوں سے اس تمدن کے ثمرات بھی دیکھ چکے ہیں جو ظاہر حیاتِ دنیا پر فریفتہ ہو کر زندگی کے محض دنیوی اور مادی مطمحِ نظر پر قائم ہوا ہے، اور حیاتِ اُخروی کے عقیدے سے یکسر خالی ہے، ہمارے لیے اس حقیقت سے انکار کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہی کہ انکارِ آخرت کے ساتھ خدا پرستی، دین داری اور مکارمِ اخلاق کا قیام بالکل ناممکن ہے۔
اب دیکھیے کہ اسلام جب انھی چیزوں کو قائم کرنا چاہتا ہے، جب وہ انسان کو اخلاقِ فاضلہ اور اعمالِ صالحہ کی طرف دعوت دیتا ہے جن کے لیے دنیا کی بہت سی مادی لذتوں اور منفعتوں کی قربانی ضروری ہے، جب وہ انسان کوعبادتِ الٰہی اور تزکیۂ نفس کی تلقین کرتا ہے جس کا کوئی فائدہ اس دنیا میں مترتب ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس بہت سی تکلیفوں اور مشقتوں میں انسان کے نفس اور جسم کو مبتلا ہونا پڑتا ہے، جب وہ زندگی کے تمام معاملات اور دنیا کے اسباب و وسائل سے متمتع ہونے میں حرام و حلال اور خبیث و طیب کا امتیاز قائم کرتا ہے، جب وہ بالاتر روحانی مقاصد کے لیے انسان سے شخصی اغراض اور شخصی محبتوں اور رغبتوں اور بسا اوقات جان ومال تک کو قربان کر دینے کا مطالبہ کرتا ہے، اور جب وہ انسان کی زندگی کو ایک ایسے اخلاقی ضابطے کے تحت منضبط کرنا چاہتا ہے جس میں دنیوی فائدے اور نقصان سے قطع نظر کرکے ہر شے کی ایک خاص اخلاقی قدرمتعین کر دی گئی ہے، تو کیا وہ ایسے دین اور ایسی شریعت کو قائم کرنے میں عقیدۂ حیاتِ اُخروی کے بغیر کام یاب ہو سکتا تھا؟ کیا یہ ممکن تھا کہ انسان اس عقیدے سے خالی الذہن یا منکر ہوتے ہوئے ایسی تعلیم کو قبول کر لیتا؟ اگر جواب نفی میں ہے، اور یقیناً نفی میں ہے، تو ماننا پڑے گا کہ اس قسم کے نظامِ دینی اور ضابطۂ اخلاق کو قائم کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سب سے پہلے انسان کے دل میں حیاتِ اُخروی کے عقیدے کو راسخ کر دیا جائے۔ بس یہی وجہ ہے جس کی بِنا پراسلام نے اس عقیدے کو ایمانیات میں داخل کیا ہے اور اس پر اتنا زور دیا ہے کہ ایمان باللّٰہ کے بعد اور کسی چیز پر اتنا زور نہیں دیا۔
آیئے اب ہم دیکھیں کہ اسلام نے اس عقیدے کو کس شکل میں پیش کیا ہے اور اس سے انسان کے اخلاق و اعمال پر کیا اثرات مترتب ہوتے ہیں۔
دنیا پر آخرت کو ترجیح
سب سے پہلی چیز جس کو قرآن مجید نے انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا انسان کے لیے ایک عارضی جائے قیام ہے۔ اس کے لیے صرف یہی ایک زندگی نہیں ہے بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی اس سے بہتر اور پائندہ تر بھی ہے، جس کے فوائد یہاں کے فائدوں سے زیادہ فراواں اور جس کے نقصانات یہاں کے نقصانات سے زیادہ سخت ہیں۔ جو شخص اس دنیا کے مظاہر سے دھوکا کھا کر اسی کی لذتوں اور منفعتوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے، اور ان کو حاصل کرنے کے لیے ایسی کوششیں کرتا ہے جن کی بدولت اس دوسری زندگی کی لذتیں اور منفعتیں اسے حاصل نہیں ہو سکتیں، وہ بہت برا سودا کرتا ہے اور حقیقت میں اس کی یہ تجارت سراسر نقصان کی تجارت ہے۔ اسی طرح جو شخص اس دنیا کے نقصان ہی کو نقصان سمجھتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے ایسی سعی کرتا ہے جس سے وہ اپنے آپ کو اس دوسری زندگی کے نقصان کا مستحق بنا لیتا ہے، وہ بہت بڑی حماقت کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کا یہ فعل کسی طرح مقتضائے دانش مندی نہیں ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں اس کثرت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تمام آیات کا استقصا یہاں ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں:
وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ۝۰ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۝۰ۘ
العنکبوت 64:29
یہ دنیا کچھ نہیں ہے مگر لہو و لعب، اور اصلی زندگی کا گھر آخرت ہی ہے۔
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ۝۰ۚ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى النسائ 77:4
کہو اے محمدؐ! کہ متاعِ دنیا تھوڑی سی ہے، اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو پرہیز گاری کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِيْلٌo التوبہ 38:9
کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے؟ دنیا کی زندگی کے سامان تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑے ہیں۔
بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَاo وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰىo الاعلیٰ 16-17:87
تم حیاتِ دنیا کو ترجیح دیتے ہو حالاں کہ آخرت زیادہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ۝۰ۭ وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِo
آل عمران 185:3
ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تم کو اپنی اس زندگی کے پورے پورے بدلے قیامت کے دن ملنے والے ہیں۔ پس اس روز جو شخص آگ کے عذاب سے بچ گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی اصل میں کام یاب ہوا۔ رہی اس دنیا کی زندگی، تو یہ محض دھوکے کا سامان ہے۔
وَاتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِيْہِ وَكَانُوْا مُجْرِمِيْنَo ھود 116:11
جن لوگوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا ہے، وہ انھی لذتوں کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو دی گئی تھیں اور وہ مجرم ہوئے۔
قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ اَلَا ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُo الزمر 15:39
اے محمدؐ! کہہ دو کہ سخت نقصان میں وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو قیامت کے دن نقصان میں ڈالا۔ یہی اصلی اور کھلا ہوا ٹوٹا ہے۔
فَاَمَّا مَنْ طَغٰىo وَاٰثَرَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَاo فَاِنَّ الْجَــحِيْمَ ھِيَ الْمَاْوٰىo وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰىo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰىo
النازعات 37-41:79
پھر جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تو جہنم اس کا ٹھکانا ہے۔ اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو خواہشات سے روکا، تو جنت اس کا ٹھکانا ہے۔
اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِيْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۝۰ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا۝۰ۭ وَفِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ۝۰ۙ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانٌ۝۰ۭ وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِo الحدید 20:57
جان لو کہ حیاتِ دنیا تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس میں کھیل اورکود اور زینت اور آپس کا تفاخر اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانا ہے۔ اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ اس سے کھیتی لہلہاتی ہے اور کسان اس کو دیکھ کر خوشیاں مناتے ہیں۔ پھر وہ پک کر خشک ہو جاتی ہے اور تو دیکھتا ہے کہ وہ زرد پڑ گئی اور آخر کار روند ڈالی گئی۔ اس کے بعد آخرت کی زندگی ہے جس میں کسی کے لیے سخت عذاب ہے اور کسی کے لیے اللّٰہ کی طرف سے مغفرت اور خوش نودی۔ پس دنیا کی زندگی محض ایک دھوکے کا سامان ہے۔
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ۝۰ۭ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ۝۰ۭ آل عمران 14-15:3
لوگوں کے لیے عورتوں اور بچوں اور سونے چاندی کے ڈھیروں اور نشان لگے ہوئے گھوڑوں اور جانوروں اور کھیتوں کی محبت خوش نما بنا دی گئی ہے۔ یہ دنیوی زندگی کی متاع ہے مگر اللّٰہ کے پاس اس سے اچھا ٹھکانا ہے۔ کہو اے محمدؐ! کیا میں تمھیں اس سے بہتر متاع کی خبر دوں؟ جن لوگوں نے پرہیز گاری اختیار کی، ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کو پاکیزہ ازواج ملیں گی اور وہ اللّٰہ کی خوش نودی سے سرفراز ہوں گے۔
دنیا پر آخرت کی ترجیح اور آخرت کی دائمی کام یابی کے لیے دنیا کے عارضی منافع کو قربان کرنے، اور آخرت کی ابدی نامرادی سے بچنے کے لیے دنیا کے چند روزہ نقصانات کو برداشت کرنے کی یہ تعلیم نہایت پُرزور اور مؤثر انداز سے اسلام میں دی گئی ہے، اور اس کا منشا یہ ہے کہ جو شخص قرآن اور محمدؐ پر ایمان لایا ہے وہ کسی زور اور زبردستی سے نہیں بلکہ اپنی دلی رغبت سے ہر وہ کام کرے جس کو کتاب اور رسولؐ نے آخرت کی کام یابی کا ذریعہ بتایا ہے، اور ہر اس چیز سے اجتناب کرے جس کو ان دونوں نے آخرت کے نقصانات کا سبب قرار دیا ہے، خواہ دنیا میں وہ اس کے لیے کتنا ہی مفید یا مُضِر ہو۔
نامۂ اعمال اور عدالت
دوسری بات جس کو قرآن مجید نے انسان کے دل میں بٹھانے کی کوشش کی ہے، یہ ہے کہ انسان اپنی دُنیوی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے، خواہ کتنا ہی چھپا کر کرے، اس کا ٹھیک ٹھیک ریکارڈ محفوظ رہتا ہے، قیامت کے روز یہی ریکارڈ خدا کی عدالت میں پیش ہو گا۔ ہر ہر ذرّہ جس کو انسان کے افعال سے کسی نوع کا تعلق رہا ہے، اس کے ان افعال پر گواہی دے گا، حتیٰ کہ خود اس کے اپنے اعضا بھی اس کے خلاف گواہوں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ پھر اس کے نامۂ اعمال کا نہایت صحیح وزن کیا جائے گا۔ میزانِ عدل کے ایک پلڑے میں اس کے نیک اعمال ہوں گے اوردوسرے میں بُرے اعمال۔ اگر نیکی کا پلڑا جھک گیا تو آخرت کی کام یابیاں اس کا خیر مقدم کریں گی اورجنت اس کے لیے جائے قیام ہو گی، اور بدی کا پلڑا بھاری رہا تو خسرانِ مُبین اس کا نتیجہ ہو گا اور وہ بدترین مقام اس کے لیے تجویز کیا جائے گا جس کا نام دوزخ ہے۔ اس عدالت میں ہر شخص تنہا اپنے نامۂ اعمال کے ساتھ حاضر ہو گا اور دُنیوی اسباب میں سے کوئی چیز اس کے کام نہ آئے گی۔ نہ نسبی اعزاز، نہ سعی و سفارش، نہ مال و دولت، اورنہ قوت و طاقت۔
اس مضمون کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ اور بڑے موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند آیات یہاں پیش کی جاتی ہیں:
سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَمُسْتَخْفٍؚبِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِo لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ يَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللہِ۝۰ۭ
الرعد 10-11:13
تم میں سے جو شخص چھپا کر بات کرتا ہے اور جو زور سے بولتا ہے اور جو شخص رات کی تاریکی میں چھپا ہوا ہے اور جو دن کی روشنی میں چل رہا ہے، دونوں یکساں ہیں۔ بہرحال ہر ایک کے آگے اورپیچھے نگرانی کرنے والے لگے ہوئے ہیں اور وہ خدا کے حکم سے اس کی ہر بات ثبت کر رہے ہیں۔
وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْہِ وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَۃً وَّلَا كَبِيْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ الکہف 49:18
نامۂ اعمال پیش ہو گا تو اس میں جو کچھ لکھا ہو گا، تم دیکھو گے کہ مجرم اس سے ڈریں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس! اس کتاب کا کیا حال ہے کہ کوئی چھوٹی یا بڑی بات نہیں چھوڑتی، سب اس میں موجود ہے۔ جو کچھ انھوں نے عمل کیے تھے ان سب کو وہ حاضر پائیں گے۔
يَّوْمَ تَشْہَدُ عَلَيْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo
النور 24:24
وہ دن جب کہ ان پر خود ان کی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پائوں ان اعمال کی گواہی دیں گے جوانھوں نے کیے تھے۔
حَتّٰٓي اِذَا مَا جَاۗءُوْہَا شَہِدَ عَلَيْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَيْنَا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللہُ الَّذِيْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ ………وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْہَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللہَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَo
حٰمٓ سجدہ 20-22:41
یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو ان پر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان اعمال کی گواہی دیں گی جو وہ کرتے تھے۔ وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟ وہ جواب دیں گی کہ ہم کو اس خدا نے گویائی بخشی ہے جس نے ہر شے کو گویا کر دیا ہے… تم چھپا کر کام کرتے تھے اور نہ جانتے تھے کہ تمھارے اعمال پر خود تمھارے کان اور آنکھیں اور کھالیں گواہی دیں گی۔ بلکہ تم سمجھتے تھے کہ تمھارے بہت سے اعمال سے اللّٰہ بھی ناواقف ہے۔
وَشَہِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَo الانعام 130:6
وہ خود اپنے خلاف شہادت دیںگے کہ وہ ناشکر گزار بندے تھے۔
اس نامۂ اعمال اور ان شاہدوں کے ساتھ انسان خدا کی عدالت میں پیش ہو گا۔ پھر اس پیشی کی کیا کیفیت ہو گی؟ وہ اکیلا بے یار و مددگار کھڑا ہو گا۔
وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِكُمْ۝۰ۚ الانعام 94:6
اب تم ہمارے پاس ویسے ہی یکہ و تنہا آئے ہو جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ تم ان سب چیزوں کو چھوڑ آئے ہوجو ہم نے تم کو دی تھیں۔
وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰۗىِٕرَہٗ فِيْ عُنُقِہٖ۝۰ۭ وَنُخْرِجُ لَہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ كِتٰبًا يَّلْقٰىہُ مَنْشُوْرًاo اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۝۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًاo
بنی اسرائیل 13-14:17
ہر شخص کی برائی اور بھلائی کا نوشتہ ہم نے اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور ہم اس کے لیے قیامت کے روز ایک کتاب نکالیں گے جس کو وہ اپنے سامنے کھلا ہوا پائے گا۔ اس سے کہا جائے گا کہ اپنا نامۂ اعمال پڑھ، آج خود تو ہی اپنا حساب کرنے کے لیے کافی ہے۔
لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ۝۰ۚۛ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚۛ الممتحنہ60:3
قیامت کے روز نہ تمھارے نسبی رشتے کسی کام آئیں گے اور نہ اولاد۔
سفارش سے کام نہ چلے گا:
مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ حَمِيْمٍ وَّلَا شَفِيْعٍ يُّطَاعُo المومن 18:40
ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہو گا نہ کسی سفارشی کی بات مانی جائے گی۔
رشوت نہ چلے گی:
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَo الشعرائ 88:26
وہ دن جب کہ نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد۔
اعمال تولے جائیں گے اور ذرّے ذرّے کا حساب ہوگا:
وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَابِہَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَo الانبیائ 47:21
ہم قیامت کے روز ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے۔ کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ اور اگر ایک رائی کے دانہ بھر بھی عمل ہو گا تو ہم اس کو لے آئیں گے، اور ہم حساب کرنے کے لیے کافی ہیں۔
جزا اور سزا جو کچھ بھی ہو گی عمل کے مطابق ہو گی:
اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo الجاثیہ 28:45
ہر ایک کے لیے ویسے ہی درجے ہوں گے جیسے انھوں نے عمل کیے۔
وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا۝۰ۭ الانعام 132:6
آج تم کو ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے تھے۔
یہ وہ پولیس اور عدالت ہے جس کا خوف انسان کے نفس میں بٹھا دیا گیا ہے۔ یہ دنیا کی پولیس نہیں ہے، جس کی نگاہ سے انسان بچ سکتا ہے، نہ یہ دنیا کی عدالت ہے، جس کی گرفت سے انسان شہادتوں کے فراہم نہ ہونے یا جھوٹی شہادتیں فراہم ہوجانے یا ناجائز اثرات پڑ جانے کی بدولت رہائی پا سکتا ہے، بلکہ یہ ایسی پولیس ہے جو ہر حال میں اس کی نگرانی کر رہی ہے، اور یہ ایسی عدالت ہے جس کے گواہوں کی نظر سے وہ کسی طرح بچ ہی نہیں سکتا، جس کے پاس اس کے ہر خیال اور ہر عمل کی روداد موجود ہے، اور جس کے فیصلے اتنے منصفانہ ہیں کہ کوئی گناہ سزا سے اور کوئی صواب جزا سے چھوٹ ہی نہیں سکتا۔
اعتقادِ یومِ آخر کا فائدہ
اس طرح اسلام نے یوم آخر کے عقیدے کو اپنے ضابطۂ اخلاقی اورنظامِ شرعی کے لیے ایک زبردست پُشت پناہ بنا دیا ہے، جس میں ایک طرف خیر وصلاح پر عمل کرنے اور شر و فساد سے بچنے کے لیے عقلی ترغیب بھی موجود ہے، اور دوسری طرف نیکی پر یقینی جزا اور بدی پر یقینی سزا کا خوف بھی۔ اس کا ضابطہ اور نظام اپنے بقا و استحکام کے لیے مادی طاقت اور حاکمانہ اقتدار کا محتاج نہیں ہے، بلکہ وہ ایمان بالیوم الآخر کے ذریعے سے انسان کے نفس میں ایک ایسے طاقت ور ضمیر کی تشکیل کرتا ہے جو کسی بیرونی لالچ اور خوف کے بغیر انسان کو آپ سے آپ ان نیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے جن کو اسلام نے آخری نتائج کے اعتبار سے نیکی قرار دیا ہے، اور ان گناہوں سے بچنے کی تاکید کرتا ہے جن کو اس نے آخری نتائج کا لحاظ کرتے ہوئے گناہ ٹھیرایا ہے۔
قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ جگہ جگہ اس عقیدے کو مکارمِ اخلاق کی تعلیم کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ تقویٰ اور پرہیز گاری کا حکم دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْہُ۝۰ۭ البقرہ 223:2
اللّٰہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ تم کو اس کے پاس حاضر ہونا ہے۔
راہِ خدا میں سرفروشی کے لیے ابھارا جاتا ہے تو ساتھ یہ بھی یقین دلایا جاتا ہے کہ اگر تم مارے جائو گے تو درحقیقت مر نہ جائو گے بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائو گے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:
وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَo
البقرہ 154:2
اور نہ کہو ان لوگوں کو مُردے جو اللّٰہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور لیکن تم نہیں سمجھتے۔
مصائب پر صبر کی تلقین کی جاتی ہے تو ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ صابرین کے لیے خدا کی طرف سے عنایت اور رحمت ہے۔ اس حقیقت کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:
اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ۝۰ۣ البقرہ 157:2
وہ لوگ اوپر ان کے درود ہیں پروردگار کی طرف سے اور رحمت۔
بے خوفی اور بہادری کا جذبہ اس طرح پیدا کیا جاتا ہے:
قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہِ۝۰ۙ كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ البقرہ 249:2
جو لوگ سمجھتے تھے کہ انھیں اللّٰہ کے پاس حاضر ہونا ہے انھوں نے کہا کہ اللّٰہ کے حکم سے چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آ جاتی ہے۔
سخت سے سخت مشکلات کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی قوت یہ کہہ کر پیدا کی جاتی ہے کہ:
نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا۝۰ۭ التوبہ 81:9
جہنم کی آگ دنیا کی گرمیوں سے زیادہ سخت ہے۔
نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کے لیے یہ کہہ کر ابھارا جاتا ہے کہ
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَo البقرہ 272:2
جو کچھ خیرات تم کرو گے اس کا پورا اجر تم کو ملے گا اور تمھارے ساتھ ظلم نہ ہو گا۔
بخل سے روکنے کے لیے فرمایا جاتا ہے کہ:
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۝۰ۭ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ آل عمران 180:3
جن لوگوں کو اللّٰہ نے اپنے فضل سے مال دار کیا ہے اور پھر وہ اس میں بخل کرتے ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے، بلکہ درحقیقت یہ ان کے حق میں برا ہے۔ جس مال میں وہ بخل کرتے ہیں، وہی قیامت کے روز ان کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔
سود خواری کے فائدوں سے دست بردار ہونے کے لیے یہ کہہ کر آمادہ کیا جاتا ہے کہ
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْہِ اِلَى اللہِ۝۰ۣۤ البقرہ 281:2
اس دن سے ڈرو جس میں تم اللّٰہ کے پاس لوٹائے جائو گے۔
متاعِ دنیا سے بے نیازی اور بدکاروں کی خوش حالی پر رشک نہ کرنے کی تعلیم اس طرح دی جاتی ہے کہ:
لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي الْبِلَادِo مَتَاعٌ قَلِيْلٌ۝۰ۣ ثُمَّ مَاْوٰىھُمْ جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمِھَادُo لٰكِنِ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ وَمَا عِنْدَ اللہِ خَيْرٌ لِّلْاَبْرَارِo
آل عمران 196-198:3
اے نبیؐ! دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمھیں کسی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا لطف ہے، پھر سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔ برعکس اس کے جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللّٰہ کی طرف سے یہ سامانِ ضیافت ہے ان کے لیے، اور جو کچھ اللّٰہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہی سب سے بہتر ہے۔

شیئر کریں