اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ ’’احادیث کے موجودہ مجموعوں میں سے جن سُنّتوں کی شہادت ملتی ہے، ان کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک قسم کی سُنّتیں وہ ہیں جن کے سُنّت ہونے پر امت شروع سے آج تک متفق رہی ہے۔ یعنی بالفاظ دیگر وہ متواتر سُنّتیں ہیں اور امت کا ان پر اجماع ہے۔ ان میں سے کسی کو ماننے سے جو شخص بھی انکار کرے گا وہ اسی طرح دائرۂ اِسلام سے خارج ہو جائے گا جس طرح قرآن کی کسی آیت کا انکار کرنے والا خارج از اِسلام ہو گا۔
دوسری قسم کی سنتیں وہ ہیں جن کے ثبوت میں اختلاف ہے یا ہو سکتا ہے ۔ا س قسم کی سنتوں میں سے کسی کے متعلق اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میری تحقیق کے مطابق فلاں سُنّت ثابت نہیں ہے، اس لیے میں اسے قبول نہیں کرتا تو اس قول سے اس کے ایمان پر قطعًا کوئی آنچ نہ آئے گی۔
کیا آپ بتائیں گے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کس مقام پر یہ کہا ہے کہ جو شخص ان متواتر سنتوں کے ماننے سے انکار کرے گا جن پر امت کا اجماع ہے، وہ کافر ہو جائے گا اور جو ایسی سنتوں سے انکار کرے گا جن میں اختلاف ہے، اس کے ایمان پر حرف نہیں آئے گا؟
جواب: اللّٰہ تعالیٰ نے رسول اللّٰہ ﷺ کی پیروی واطاعت کو مدارِ کفر واِسلام قرار دیا ہے، لہٰذا جہاں یقینی طور پر معلوم ہو کہ حضورﷺ نے فلاں چیز کا حکم دیا ہے، یا فلاں چیز سے روکا ہے، یا فلاں معاملے میں یہ ہدایت دی ہے وہاں تو اتباع واطاعت سے انکار لازمًا موجب کفر ہو گا، لیکن جہاں حضورﷺ سے کسی حکم کا یقینی ثبوت نہ ملتا ہو، وہاں کم تر درجے کی شہادتوں کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی شہادت کو کم زور پا کر یہ کہتا ہے کہ اس حکم کا ثبوت حضورﷺ سے نہیں ملتا، اس لیے میں اس کی پیروی نہیں کرتا تو اس کی یہ رائے بجائے خود غلط ہو یا صحیح، بہرحال یہ موجب کفر نہیں ہے۔ بخلاف اس کے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ حکم حضورﷺ ہی کا ہو، تب بھی میرے لیے سند وحجت نہیں، اُس کے کافر ہونے میں قطعًا شک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک سیدھی اور صاف بات ہے جسے سمجھنے میں کسی معقول آدمی کو الجھن پیش نہیں آ سکتی۔
٭…٭…٭…٭…٭