وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللہُ لَكُمْ قِيٰـمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِيْھَا وَاكْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰٓي اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ۰ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ۰ۚ وَلَا تَاْكُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ يَّكْبَرُوْا۰ۭ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ۰ۚ وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْف۰ۭ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْہِدُوْا عَلَيْھِمْ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ حَسِـيْبًاo النساء 5,6:4
اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو۔ اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں۔ پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پائو تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو۔ ایسا کبھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اس خوف سے ان کے مال جلدی جلدی کھا جائو کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے۔ یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے، اور جو غریب ہو وہ معروف طریقے سے کھائے۔ پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بنالو اور حساب کے لیے اللہ کافی ہے۔
یہ آیت وسیع معنی کی حامل ہیں۔ان میں امت کو یہ جامع ہدایت فرمائی گئی ہے کہ وہ مال جو ذریعۂ قیامِ زندگی ہے، بہرحال ایسے نادان لوگوں کے اختیار و تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے نظامِ تمدن و معیشت اور بالآخر نظامِ اخلاق کو خراب کر دیں۔ حقوقِ ملکیت جو کسی شخص کو اپنی املاک پر حاصل ہیں اس قدر غیر محدود نہیں ہیں کہ وہ اگر ان حقوق کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو اور ان کے استعمال سے اجتماعی فساد برپا کر دے تب بھی اس کے وہ حقوق سلب نہ کیے جاسکیں۔ جہاں تک آدمی کی ضروریات زندگی کا تعلق ہے وہ تو ضرور پوری ہونی چاہئیں، لیکن جہاں تک حقوقِ مالکانہ کے آزادانہ استعمال کا تعلق ہے اس پر پابندی عائد ہونی چاہیے کہ یہ استعمال اخلاق و تمدن اور اجتماعی معیشت کے لیے صریحاً مضر نہ ہو۔ اس ہدایت کے مطابق چھوٹے پیمانہ پر ہر صاحبِ مال کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا مال جس کے حوالے کر رہا ہے وہ اس کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ۔ اور بڑے پیمانے پر حکومت اسلامی کو اس امر کا انتظام کرنا چاہیے کہ جو لوگ اپنے اموال پر خود مالکانہ تصرف کے اہل نہ ہوں یا جو لوگ اپنی دولت کو بُرے طریقوں سے استعمال کر رہے ہوں، ان کی املاک کو وہ اپنے انتظام میں لے لے اور ان کی ضروریات زندگی کا بندوبست کر دے۔
ان آیات میں یہ تلقین بھی کی گئی ہے کہ جن نابالغوں کا مال ولی کی نگرانی میں دیا گیا ہو ان کے بارے میں اس امر پر نگاہ رکھی جائے کہ جب وہ سن بلوغ کے قریب پہنچ رہے ہوں تو ان کا عقلی نشوونما کیسا ہے اور ان میں اپنے معاملات کو خود اپنی ذمہ داری پر چلانے کی صلاحیت کس حد تک پیدا ہو رہی ہے۔ مال ان کے حوالے کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں۔ ایک بلوغ اور دوسرے رُشد، یعنی مال کے صحیح استعمال کی صلاحیت۔ پہلی شرط کے متعلق تو فقہاء امت میں اتفاق ہے۔ دوسری شرط کے بارے میں امام ابوحنیفہ ؒ کی یہ رائے ہے اگر سن بلوغ کو پہنچنے پر یتیم میں رُشد نہ پایا جائے تو ولی کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور انتظار کرنا چاہیے۔ پھر خواہ رُشد پایا جائے یا نہ پایا جائے اس کا مال اس کے حوالے کر دینا چاہیے۔ اور امام ابو یوسف، امام محمد اور امام شافعی رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ مال حوالے کیے جانے کے لیے بہرحال رشد کا پایا جانا ناگزیر ہے۔ غالباً مؤخر الذکر حضرات کی رائے کے مطابق یہ بات زیادہ قرین صواب ہوگی کہ اس معاملے میں قاضی شرع سے رجوع کیا جائے اور اگر قاضی پر یہ بات ثابت ہو جائے کہ اس میں رُشد نہیں پایا جاتا تو وہ اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے خود کوئی مناسب انتظام کر دے۔( تفہیم القرآن، جلد اول، صفحات ۳۲۲۔ ۳۲۳۔)