اب میں ان میں سے ایک ایک گروہ کے طریقہ پر الگ الگ تنقید کر کے بتائوں گا کہ ان طریقوں میں غلطی کیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک نے اسلام کی راہِ راست سے انحراف کس طرح کیا ہے‘ اور ان پھیر کے راستوں سے اصلی اسلامی نصب العین تک پہنچنا ابداً غیر ممکن الوقوع کیوں ہے۔
’’آزادیِ ہند‘‘ کو مقدم رکھنے والے
پہلا گروہ زیادہ تر علما اور مذہبی خیالات کے لوگوں پر مشتمل ہے‘ اور بالعموم اس گروہ کے لوگ دوسرے گروہ کی نسبت زیادہ مذہبی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے انحراف پر مجھ کو سب سے زیادہ افسوس ہے۔ ان حضرات نے مذکورہ بالا مشکلات سے خوف زدہ ہوکر یہ خیال قائم کر لیا کہ موجودہ حالات میں اصل اسلامی نصب العین کی طرف براہِ راست پیش قدمی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے انہوں نے اپنی کوششوں کا مقصود یہ ٹھیرایا کہ ’’ہندستان انگریزی اقتدار سے آزاد ہوجائے۔‘‘مقصود بدل جانے سے لامحالہ راستہ بھی بدل گیا۔ اسلام کی راہِ راست کے تین اجزا جو میں نے بیان کیے ہیں‘ ان کا راستہ ہر جُزو میں اس سے مختلف ہے:۔
(۱)دعوت کے باب میں اسلام کا طریقہ یہ ہے‘ کہ لوگوں کو اﷲ کی حاکمیت واقتدار اعلیٰ تسلیم کرنے کی طرف بلایا جائے۔ مگر یہ ہندستان کے باشندوں کو اس طرف بلاتے ہیں‘ کہ تم خود مالک الملک بنو۔ یہ غیر الٰہی اقتدار اعلیٰ کی نفی نہیں کرتے بلکہ صرف انگریزی اقتدار اعلیٰ کی نفی کرتے ہیں۔ اور یہ الٰہی اقتدار اعلیٰ کا اثبات بھی نہیں کرتے بلکہ اس کی جگہ باشندگان ملک کی خود اختیاری اور جمہوری اقتدار اعلیٰ کا اثبات اعلیٰ کا اثبات کرتے ہیں۔ ظاہر ہے‘ کہ شرک ہونے کی حیثیت سے انگریزی اقتدار اعلیٰ اور جمہوری اقتدار اعلیٰ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کی دعوت سراسر غیراسلامی بلکہ مخالف اسلام دعوت ہے۔
ان کے نزدیک انگریز ی اقتدار کے مقابلہ میں جمہور اہلِ ہند کا اختیار‘ اور انگریزی شریعت کے مقابلہ میں ہندستانیوں کی قانون سازی قابلِ ترجیح ہے‘ حالانکہ اسلامی نقطۂ نظر سے دونوں یکساں بغاوت‘ یکساں کُفر اور یکساں طغیان ومعصیت ہیں۔
پھر یہ انگریز اور ہندستانی کے درمیان‘ قومی ووطنی عداوت وتعصّب کی آگ بھڑکانے میں حصّہ لیتے ہیں‘ حالانکہ اسلام کی دعوتِ عام کے راستہ میں یہ رکاوٹ ہے۔ اسلام کی نگاہ میں انگریز اور ہندستانی دونوں انسان ہیں۔ وہ دونوں کو یکساں اپنی دعوت کا مخاطب بناتا ہے۔اس کا جھگڑا انگریز سے اس بات پر نہیں ہے‘ کہ وہ ایک ملک کا باشندہ ہوکر دوسرے ملک پر حکومت کیوں کرتا ہے؟بلکہ اس بات پر ہے‘ کہ وہ خدا کی حاکمیت اور اس کے قانون کی اطاعت کیوں نہیں تسلیم کرتا؟بعینہٖ اسی بات پر اس کا جھگڑا ہندوستانی سے بھی ہے۔ وہ دونوں کو ایک ہی بات کی طرف بلاتا ہے۔ ایک کا حامی بن کر دوسرے سے لڑنا اس کی حیثیت کے منافی ہے۔{ FR 2518 } کیونکہ اگر وہ ہندستانی اور انگریز کے وطنی وقومی جھگڑے میں ایک کا طرفدار اور دوسرے کا مخالف بن جائے‘ تو انگریز کے دل کا دروازہ اس کی دعوت کے لیے بند ہوجائے گا۔ اب یہ ظاہر ہے‘ کہ جو لوگ ایک طرف اسلام کے داعی بنتے ہیں‘ اور دوسری طرف اس وطنی اور قومی جھگڑے میں فریق بھی بنتے ہیں وہ دراصل اسلام کے مفاد کو ہندوستانیت کے مفاد پر قربان کرتے ہیں۔
ان تمام بنیادی غلطیوں کے ساتھ یہ حضرات کبھی کبھی اسلام کی تبلیغ بھی فرمایا کرتے ہیں۔
مگر ایسی تبلیغ کبھی موثر نہیں ہوسکتی۔ ایک ساز سے دو بالکل مختلف آوازیں سن کر اور ایک زبان سے دو قطعی متضاد باتیں سماعت کر کے آخر کون متاثر ہوسکتا ہے؟
(۲)تشکیل جماعت کے باب میں‘ یہ حضرات اس سے بھی زیادہ مُخْتَلِطْ ہیں۔ اوّل تو دعوت کی نوعیت بدل جانے کی وجہ سے خود ہی جماعت کی ترکیب اور اجزائے ترکیبی کے متعلق ان کا نقطۂ نظر بدل گیا ہے۔ پھر ’’مسلمان قوم‘‘کے تحیل نے پریشان خیالی کے لیے ایک اور وجہ بھی پیدا کر دی ہے۔ ان اسباب سے یہ ہر قسم کے رطب ویا بس آدمی اکٹھے کر لیتے ہیں‘ اور ان آدمیوں کے اقوال وافعال میں بیک وقت بیسیوں قسم کی متضاد باتوں کا ظہور ہوتا ہے۔ایک متحد المزاج نظریہ کی حمایت کے لیے آپ اُٹھیں تو لامحالہ آپ اپنی پارٹی کے لیے انہی آدمیوں کا انتخاب کریں گے‘ جو یکسوئی کے ساتھ اس خاص نظریہ کے متبّع ہوں۔ بخلاف اس کے ایک مخلوط اور غیر معیّن مزاج رکھنے والے نظریہ کو لے کر جب آپ اُٹھیں گے تو آپ کا معیارِ انتخاب اکثر ان قیود سے آزاد ہوجائے گا‘ جو متحد المزاج نظریہ کے لیے ناگزیر ہیں۔ کچھ مدّت ہوئی مجھے ایک مجلس میں شریک ہونے کا موقع ملا تھا جہاں ہندوستان کی ایک بہت بڑی ذمّہ دار جمعیت کی مقامی شاخ کو منظم کرنے پر گفتگو ہورہی تھی۔ کچھ دیر کی بحث وتمیص کے بعد جوبات قرار پائی وہ یہ تھی کہ رکنیت کے فارم طبع کرا لیے جائیں‘ اور پندرہ دن کے اندر زیادہ سے زیادہ ممبر بھرتی کر کے ارکان کا ایک جلسہ عام کر لیا جائے‘ جس میں عہدہ داروں کا انتخاب ہوجائے۔ لیجیے‘ بس جمعیت کی شاخ منظم ہوگئی۔ اس طرح بھانت بھانت کے آدمی محض رکنیت کے فارموں پر دستخط کر کے اور چار آنہ سالانہ فیس ادا کر کے ان جماعتوں میں داخل ہوجاتے ہیں‘ پھر انہی آدمیوں کے ووٹوں سے منتخب ہوکر وہ لوگ بر سر کار آتے ہیں‘ جن کا کام رہنمائی وسربراہ کاری ہوتا ہے‘ اور ایسے ہی لوگوں کی متفقہ خواہشات سے پالیسیاں بنتی اور بگڑتی ہیں کیا کوئی شخص توقع کر سکتا ہے‘ کہ جماعتی تشکیل کے اس طریقہ سے کبھی اسلامی نصب العین کی طرف بھی کوئی پیش قدمی کی جا سکتی ہے؟
(۳)اسی طرح تیسرے جُزو میں بھی ان کا طریقہ اسلام کی راہِ راست سے ہٹا ہوا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرص کیا اسلام براہِ راست غیراسلامی نظامِ اطاعت پر حملہ کرتا ہے‘ اور اس کا تقاضا یہ ہے‘ کہ تمام مساعی کو حاکمیت رب العالمین کے قیام واثبات پر مرکوز کر دیا جائے لیکن اس کے برعکس یہ لوگ اپنی سعی وجہد کا رخ برطانوی نظامِ اطاعت کی تخریب اور حاکمیت عوام کے قیام کی طرف پھیر دیتے ہیں۔ یہ صریح انحراف ہے صراط مستقیم سے‘ اس احراف پر جب اعتراض کیا جاتا ہے‘ تو یہ لوگ کہتے ہیں‘ کہ برطانوی نظامِ اطاعت اسلامی نصب العین کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ہم تنہا اس رکاوٹ کو دور نہیں کر سکتے‘ اس لیے پہلے دوسروں کی مدد سے اس کو دور کر لیں پھر اصل منزل مقصود کی طرف بڑھنے کے لیے راستہ آسان ہوجائے گا۔ مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ راستہ آسان کیسے ہوجائے گا؟ظاہر بات ہے‘ کہ ایک نظامِ اطاعت یادین کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرا نظامِ اطاعت یا دین کبھی قائم نہیں کیا جا سکتا‘ جب تک کہ نفوس انسانی میں پہلے نظام کی تخریب اور دوسرے نظام کی تعمیر کا خیال اور ارادہ کمال درجہ قوّت کے ساتھ مستحکم نہ کر دیا جائے۔اگر ہندوستان کے موجودہ انگریزی نظامِ اطاعت کی جگہ آپ جمہوری نظامِ اطاعت قائم کرنا چاہیں‘ تو یہ انقلاب صرف اسی طرح ممکن ہے‘ کہ آپ باشندگانِ ہند کے دلوں میں حاکمیت انگریز کے بجائے خود اپنی حاکمیت کے برحق ہونے کا تخیل اورعملاً مالک الملک بن جانے کا عزم پوری شدت کے ساتھ پیدا کر دیں۔ برعکس اس کے اگر آپ ہندوستان میں الٰہی نظامِ اطاعت قائم کرنا چاہیں‘ تو یہ انقلاب بغیر اس کے ممکن نہیں ہے‘ کہ عوام النّاس کو خود اپنی حاکمیت سے دست بردار ہونے اور غیر اﷲ کی حاکمیت کا انکار کرنے پر آمادہ کریں‘ اور اﷲ کے مالک الملک ہونے کا عقیدہ ان کے دلوں میں اتنی قوّت کے ساتھ بٹھائیں کہ وہ اس کی حاکمیت کے آگے برضا ورغبت سر جھکا دیں۔اب سوال یہ ہے‘ کہ جن لوگوں کا آخری مقصد الٰہی نظامِ اطاعت کا قیام ہے وہ کس طرح بحالتِ ہوش وحواس اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے ذریعہ کے طور پر یہ تدبیر اختیار کر سکتے ہیں‘ کہ عوام النّاس کے دل میں خود اپنی حاکمیت کا عقیدہ اور ارادہ اتنی قوّت کے ساتھ بٹھا دیں کہ اس کے زور سے‘ دین انگریز کی مضبوط جمی ہوئی جڑیں اکھڑ جائیں‘ اور دینِ جمہور کی جڑیں زمین میں جگہ پکڑ لیں؟ جہاں عامہ خلائق کے دلوں میں اپنی حاکمیت کا عقیدہ اور عزم اتنی قوّت کے ساتھ جم گیا ہوکیا وہاں لوگوں کو خدا وندِعالم کے آگے اپنی حاکمیت سے دست بردار ہوجانے پر آمادہ کرنا موجودہ انگریزی حاکمیت کی جڑیں اُکھاڑنے سے کچھ کم مشکل ہے؟کیا امریکہ‘ جاپان‘ جرمنی اور انگلستان جیسے اصطلاحاً ’’آزاد‘‘ممالک میں حکومت الٰہی کا قیام اس سے کچھ کم دشوار ہے جتنا ہندستان جیسے اصطلاحاً ’’غلام‘‘ ملک میں دشوار نظر آتا ہے؟اگر اس کا جواب نفی میں ہے‘ اور یقینا نفی ہی میں دیا جا سکتا ہے‘ تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ برطانوی اقتدار کی جگہ ہندستانی اقتدار کا قیام آخر کس معنی میں حکومت الٰہی کے قیام کی طرف ایک گونہ پیش قدمی ہے؟
تا ہم اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ تدبیر عملاً کارگر ہوسکتی ہے تب بھی میں اس کے صحیح ہونے سے انکار کرتا ہوں لازم نہیں کہ ہر تدبیرجو کارگر ہووہ صحیح بھی ہو‘ دراصل یہ سخت ناپاک تدبیر ہے‘ جسے اختیار کرنے کا خیال بھی ایک مسلمان دل میں نہیں لاسکتا۔ جو شخص درحققت پوری سچائی کے ساتھ اﷲ کے مالک الملک ہونے پر ایمان رکھتا ہو‘ وہ آخر کس دل سے یہ گوارا کر سکتا ہے‘ کہ اپنے ایمان کے خلاف عوام النّاس میں اس عقیدے کی تبلیغ کرے کہ تم خود مالک الملک ہو؟جس شخص کا اعتقاد یہ ہوکہ انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی صرف حدود اﷲ کی پابندی ہونی چاہئے‘ اور حکومت وہ ہونی چاہئے‘ جو اﷲ کے سامنے جوابدہ ہو‘ وہ کیونکر اپنی کوششوں کا مقصود یہ قرار دے سکتا ہے‘ کہ انفرادی واجتماعی زندگی پر جمہورکا تسلّط قائم ہو‘ اور حکومت جمہور کے سامنے جواب دہ ہو؟کس طرح ایک سچے آدمی کی زبان ایسے عقیدے کی اشاعت یا حمایت میں کُھل سکتی ہے جس کو وہ فی الواقع باطل سمجھتا ہے؟اور کس طرح وہ اس چیز کے قیام کی راہ میں جان ومال سے جہاد کر سکتا ہے‘ جو اس کے اعتقاد میں حق نہیں‘ بلکہ طاغوت ہے؟
یہ جو کچھ میں نے عرض کیا‘یہ تو محض اس امر کا ثبوت ہے‘ کہ ان لوگوں کا راستہ اسلام کی راہِ راست سے منحرف ہے۔ رہی یہ بات کہ اس پھیر کے راستے سے یہ لوگ کبھی اسلام کے نصب العین تک نہیں پہنچ سکتے‘ تو اس دعوے پر میرے پاس یہ دلیل ہے‘ کہ جن مشکلات سے خوفزدہ ہوکر انہوں نے یہ پھیر کی راہ اختیار کی ہے‘ وہ ہندستان کے انگریزی اقتدار سے آزاد ہونے کے بعد بھی جوں کی توں قائم رہیں گی۔ اوپر میں نے مشکلات کی جو تشریح کی ہے ان پر ایک مرتّبہ پھر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ کیا ان میں سے کوئی مشکل بھی آزاد ہندستان کے دور میں دُور ہوجائے گی؟اگر نہیں‘ تو جو لوگ آج ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کی حکمت اور ہمت نہ رکھنے کی وجہ سے راستہ کَترا کر نکل رہے ہیں‘ وہ کل بھی اسی وجہ سے اصل مقصد اسلامی کی طرف براہِ راست پیش قدمی کرنے سے جی چرائیں گے۔ خوب جان لیجیے کہ اس مقصد کی طرف جب بھی آپ اقدام کرنا چاہیں گے بہرحال آپ کو ان مشکلات سے سابقہ پیش آئے گا۔ جو لوگ ان کا مقابلہ کرنے کی تدبیر اور عزم نہیں رکھتے‘ وہ موجودہ حالات ہی میں نہیں‘ بلکہ کسی حال میں بھی اس طرف اقدام نہیں کر سکتے۔ اور جن کے پاس تدبیر اور عزم دونوں موجود ہیں‘ ان کے لیے کسی پھیر کے راستے پر چلنا تضیع وقت اور حماقت ہے۔ وہ تو اس پہاڑ کو کاٹ کر براہِ راست ہی اپنے مقصد کی طرف قدم بڑھائیں گے۔