اعتراض: پانچویں آیت آپ نے یہ پیش کی ہے کہ حضورﷺ نے جب بنی نضیر کے خلاف فوج کشی کی تو اس وقت گرد وپیش کے بہت سے درخت کاٹ ڈالے، تاکہ حملہ کرنے کے لیے راستہ صاف ہو۔ اس پر اللّٰہ نے کہا کہ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْتَرَکْتُمُوْھَا قَآئِمَۃً عَلٰی اُصُوْلِھَا فَبِاِذْنِ اللّٰہِ 5:59 ’’کھجوروں کے درخت جو تم نے کاٹے اور جو کھڑے رہنے دیے یہ دونوں کام اللّٰہ کی اجازت سے تھے۔
اس پر آپ پوچھتے ہیں کہ:
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ اجازت قرآن کریم کی کس آیت میں نازل ہوئی تھی؟
سورۂ حج کی اس آیت میں جس میں کہا گیا ہے کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا 39:22 ’’ان لوگوں کو جن کے خلاف اعلان جنگ کیا جاتا ہے، جنگ کی اجازت دی جاتی ہے، کیوں کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے۔‘‘ اس آیت میں جماعت مومنین کو ظالمین کے خلاف جنگ کی اجازت دی گئی اور یہ ظاہر ہے کہ جنگ کی اس اصولی اجازت میں ہر اُس بات کی اجازت شامل ہے جو (قاعدے اور قانون کی رُو سے) جنگ کے لیے ضروری ہو۔ جو بات خدا کے مقرر کردہ قاعدے کی رو سے اور قانون کے مطابق ہو، قرآن اُسے باذن اللّٰہ سے تعبیر کرتا ہے۔ مثلاً : وَمَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰہِ آل عمران 166:3 ’’اور جو کچھ تمھیں اس دن مصیبت پہنچی جب دو گروہ آمنے سامنے ہوئے تھے تو وہ باذن اللّٰہ تھا۔‘‘ خواہ وہ قانون خارجی کائنات میں ہی کیوں نہ کار فرما ہو۔
جواب: یہ ساری بحث یہاں میرے استدلال کا مرکزی نکتہ چھوڑ کر کی گئی ہے۔ میں نے یہ لکھا تھا کہ جب مسلمانوں نے یہ کام کیا تو مخالفین نے شور مچا دیا کہ باغوں کو اجاڑ کر اور ہرے بھرے ثمردار درختوں کو کاٹ کر ان لوگوں نے فساد فی الارض برپا کیا ہے (ملاحظہ ہو عنوان: کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟ کے تحت ذیلی عنوان نمبر۵)۔ یہ میرے استدلال کی اصل بنیاد تھی جسے ڈاکٹر صاحب نے قصدًادرمیان سے ہٹا کراپنی بحث کا راستہ صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرا استدلال یہ تھا کہ یہود اور منافقین نے مسلمانوں پر ایک متعین الزام لگایا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ مصلح بن کر اٹھے ہیں اور اس بات کا دعوٰی کرتے ہیں کہ ہم فساد فی الارض کو مٹانے والے ہیں، مگر لو دیکھ لو کہ یہ کیسا فساد فی الارض برپا کر رہے ہیں۔ اس کا جواب جب اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے یہ دیا گیا کہ مسلمانوں نے یہ کام ہماری اجازت سے کیا ہے، تو لامحالہ یہ ان کے اعتراض کا جواب اسی صورت میں قرار پا سکتا ہے جب کہ خاص طور پر اسی کام کی اجازت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہو۔ جنگ کے عام قاعدے جو دُنیا میں رائج تھے، وہ بنائے جواب نہیں ہو سکتے تھے، کیوں کہ دُنیا کے جنگی رواجات تو اس زمانے میں زیادہ تر وحشیانہ وظالمانہ تھے اور مسلمان خود ان کو فساد فی الارض قرار دیتے تھے۔ معترضین کے جواب میں ان کا سہارا کیسے لیا جا سکتا تھا۔ رہے قوانینِ فطرت، تو ان کا حوالہ تو یہاں صر یحًامضحکہ انگیز ہی ہوتا۔ کسی شخص کی عقل ٹھکانے ہو تو وہ کبھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ اس موقع پر جب مخالفین نے مسلمانوں کو فساد فی الارض کا مجرم ٹھہرایا ہو گا تو اللّٰہ تعالیٰ نے جواب میں یہ فرمایا ہو گا کہ میاں! قوانینِ فطرت یہی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید سے جو چند مثالیں یہاں پیش کی ہیں، ان سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ منکرینِ سُنّت قرآن کے فہم سے بالکل کورے ہیں۔ آیاتِ قرآنی کے موقع ومحل اورسیاق وسباق اور پس منظر سے آنکھیں بند کرکے، بے تکلف ایک موقع کی آیات کے معنی بالکل مختلف مواقع کی آیات سے متعین کر ڈالتے ہیں