اعتراض: سورۂ تحریم کی آیت آپ نے یوں پیش کی ہے:
نبی ﷺ اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو راز میں ایک بات بتاتے ہیں۔ وہ اس کا ذکر دُوسروں سے کر دیتی ہیں۔ حضورﷺ اس پر باز پُرس کرتے ہیں تو وہ پوچھتی ہیں کہ آپﷺ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ مَیں نے یہ بات دُوسروں سے کہہ دی ہے۔ حضورﷺ جواب دیتے ہیں کہ : نَبَّأنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْر ’’مجھے علیم وخبیر نے خبر دی ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ پوچھتے ہیں:
’’فرمائیے کہ قرآن میں وہ آیت کہاں ہے جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو یہ اطلاع دی تھی کہ تمھاری بیوی نے تمھاری راز کی بات دوسروں سے کہہ دی ہے؟ اگر نہیں ہے تو ثابت ہوا یا نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ قرآن کے علاوہ بھی نبیﷺ کے پاس پیغامات بھیجتا تھا۔‘‘
پہلے تو یہ فرمائیے کہ حضورﷺنے جب کہا کہ مجھے ’’علیم وخبیر‘‘ نے خبر دی ہے تو اس سے کیسے ثابت ہو گیا کہ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے خدا نے خبر دی ہے۔ کیا اس سے یہ مفہوم نہیں کہ حضورﷺ کو اس نے خبر دی جسے اس راز کی علم وآگہی ہو گئی تھی۔ تاہم میں تسلیم کیے لیتا ہوں کہ العلیم الخبیر سے مراد اللّٰہ تعالیٰ ہی ہیں لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ خدا نے یہ اطلاع بذریعۂ وحی دی تھی؟ جس شخص نے قرآن کریم کو ذرا بھی بہ نگاہِ تَعَمُّق پڑھا ہے، اس سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ جب کسی کے علم کو خدا اپنی طرف منسوب کرتا ہے اس سے مراد (بالضرور) وحی کے ذریعے علم دینا نہیں ہوتا۔ مثلاً سورہ مائدہ میں ہے:’’وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَھُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ 4:5 اور جو تم شکاری جانوروں کو سکھاتے ہو تو انھیں اس علم کے ذریعے سکھاتے ہو، جو اللّٰہ نے تمھیں سکھایا ہے۔‘‘ فرمائیے کیا یہاں ’’عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ‘‘ سے یہ مراد ہے کہ اللّٰہ شکاری جانوروں کو سدھانے والوں کو بذریعہ وحی سکھاتا ہے کہ تم ان جانوروں کو اس طرح سدھائو؟ یا، عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ عَلَّمَ بِالْقَلْمْ القدر 4-5:97 کے یہ معنی ہیں کہ اللّٰہ ہر انسان کو بذریعہ وحی یہ کچھ سکھاتا ہے جسے وہ نہیں جانتا اور خود قلم ہاتھ میں لے کر سکھاتا ہے۔
جس طرح ان آیات میں اللّٰہ کے علم یا حکم دینے سے مراد علم وحکم بذریعہ وحی نہیں، اسی طرح ’’نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ‘‘ میں بذریعہ وحی اطلاع دینا مراد نہیں۔ حضورﷺ نے اس بات کا علم اس طرح حاصل کیا تھا جس طرح ایسے حالات میں علم حاصل کیا جاتا ہے۔
جواب: اس کتاب ( میں عنوان: کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی) نکال کر دیکھیے۔ سورۂ تحریم کی جس آیت پر یہ تقریر فرمائی جا رہی ہے، وہاں وہ پوری نقل کر دی گئی ہے۔ اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ اَظْھَرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ ’’اللّٰہ نے نبی کو اس پر مطلع کر دیا‘‘ اس لیے نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ’’مجھے علیم وخبیر نے بتایا‘‘ سے مراد لامحالہ اللّٰہ تعالیٰ ہی ہو سکتا ہے، کوئی دوسرا مخبر نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں العلیم الخبیر کے الفاظ اللّٰہ کے سوا کسی کے لیے استعمال بھی نہیں ہو سکتے۔ اگر اللّٰہ کے سوا خبر دینے والا کوئی اور ہوتا تو حضور ﷺ ’’نَبَّانِیْ خَبِیْرٌ‘‘ (ایک باخبر نے مجھے بتایا) ، فرماتے۔
اگر نبی ﷺ کو عام انسانی ذرائع سے اس بات کی اطلاع ہوئی ہوتی تو محض اتنا سا واقعہ کہ بیوی نے آپ کا راز کسی اور سے کہہ دیا اور کسی مخبر نے آپ کو اس کی اطلاع دے دی۔ سرے سے قرآن میں قابل ذکر ہی نہ ہوتا، نہ اس بات کو اس طرح بیان کیا جاتا کہ ’’اللّٰہ نے نبی کو اس پر مطلع کر دیا‘‘ اور ’’مجھے العلیم الخبیر نے بتایا۔‘‘ قرآن مجید میں اس واقعے کو اس شان سے بیان کرنے کا تو مقصد ہی لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ تمھارا معاملہ کسی عام انسان سے نہیں، بلکہ اس رسولﷺ سے ہے جس کی پشت پر اللّٰہ تعالیٰ کی طاقت ہے۔