اعتراض: ایک طرف آپ تفہیمات میں فرماتے ہیں کہ نماز روزہ وغیرہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق براہِ راست دین اور شریعت سے ہے لیکن تمدنی، معاشی اور سیاسی معاملات کا تعلق براہ راست دین سے نہیں ہے اور دوسری طرف آپ کا دعوٰی یہ ہے کہ ’’اقامت دین سے مراد ہی اِسلام کے مطابق تمدنی، معاشی، سیاسی نظام قائم کرنا ہے۔‘‘ حیرت ہے کہ اگر ان امور کا تعلق براہ راست دین سے نہیں تو پھر اقامت دین سے مراد ان امور سے متعلق نظام قائم کرنا کیسے ہو گا۔ اس کے بعد اس حقیقت پر غور کیجیے کہ آئین مملکت میں جن امور سے بحث ہو گی ان کا تعلق ملک کے تمدنی، معاشی، معاشرتی مسائل سے ہو گا۔ اگر ان امور کا تعلق براہ راست دین سے نہیں تو پھر آئین مملکت کے دینی یا غیر دینی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نیز اگر ان امور میں سُنّت رسول اللّٰہﷺ کا اتباع اس نوعیت کا نہیں جس نوعیت کا اتباع ان امور میں ضروری ہے جو (بقول آپ کے، براہ راست دین سے متعلق ہیں، مثلاً نماز روزہ وغیرہ) تو پھر ان کے متعلق یہ سوال بھی کیا اہمیت رکھے گا کہ یہ سُنّت کے مطابق ہیں یا نہیں۔
جواب: میری کتاب تفہیمات کی عبارت میں بعض امور کے دین سے براہِ راست متعلق ہونے اور بعض کے براہِ راست متعلق نہ ہونے کا جو ذکر آیا ہے اسے پورے مضمون سے الگ نکال کر ڈاکٹر صاحب یہ غلط معنی پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میں سیاسی وتمدنی اور معاشی مسائل کو دین سے قطعًا غیر متعلق قرار دے رہا ہوں۔ حالانکہ وہاں جن امور کو میں نے دین سے ’’براہِ راست‘‘ متعلق قرار دیا ہے ان سے میری مراد وہ عبادات ہیں جنھیں شارع نے ’’ارکان اِسلام‘‘ کی حیثیت دی ہے، یعنی نماز، روزہ اور حج وزکوٰۃ۔ دوسری طرف جن امور کو میں نے کہا ہے کہ وہ دین سے ’’براہ راست‘‘ متعلق نہیں ہیں ان سے مقصود ارکان اِسلام کے ماسوا دوسرے امور ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ دین سے بالکل غیر متعلق ہیں۔ اگر وہ واقعی غیر متعلق ہوتے تو ان کے متعلق قرآن وسُنّت میں شرعی احکام پائے ہی کیوں جاتے۔
ڈاکٹر صاحب میری جس عبارت سے یہ نتائج نکال رہے ہیں، اس کے صرف دو فقروں (دین سے ’’براہِ راست تعلق ہے‘‘ اور ’’براہِ راست تعلق نہیں ہے۔‘‘) کو انھوں نے پکڑ لیا ہے اور انھی پر اپنے تخیلات کی ساری عمارت تعمیر کرنی شروع کر دی ہے۔ حالانکہ خود اس عبارت میں ان کے ان نتائج کی تردید موجود ہے۔ اس میں صاف صاف یہ بتایا گیا ہے کہ دوسری قسم کے معاملات میں مختلف مدارج کی تعلیمات ہم کو حضورﷺ سے ملی ہیں۔ ’’ان میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا حضور ﷺ نے حکم دیا ہے یا جن سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، بعض ایسی ہیں…‘‘ کیا ان فقروں سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ جن کاموں کا حضور ﷺ نے حکم دیا ہے یا جن سے منع فرمایا ہے، ان کے بارے میں حضور ﷺ کے فرمان کی خلاف ورزی کرنا جائز ہے؟ یا حضور ﷺ کی دوسری ہدایات نظر انداز کی جا سکتی ہیں۔
رہے وہ الفاظ جن سے آج ڈاکٹر صاحب ناروا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب سے بہت پہلے میں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ کوئی فتنہ پرداز انھیں غلط معنی پہنا سکتا ہے۔ چنانچہ تفہیمات حصہ اول کے پانچویں اڈیشن (ستمبر ۱۹۴۹ء) کو ملاحظہ فرمائیے۔ اس میں ان کے بجائے یہ الفاظ لکھے گئے ہیں: ’’جو امور فرائض وواجبات اور تقالیدِ شرعیہ کی نوعیت رکھتے ہیں… رہے وہ امور جو اِسلامی زندگی کی عام ہدایات سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ یہ اصلاح میں نے اسی لیے کی تھی کہ تمدنی ومعاشی اور سیاسی معاملات کو دین سے غیر متعلق سمجھنے کا خیال، جو میرے سابق الفاظ سے نکالا جا سکتا تھا، رفع ہو جائے۔ مزید برآں ایک مضمون کا پورا مدعا صرف اس کے دو فقروں سے تو اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس پورے مضمون کو کوئی شخص پڑھے تو اس پر واضح ہو جائے کہ اس کا مدعا اس مطلب کے بالکل خلاف ہے جو ڈاکٹر صاحب اس کے دو فقروں سے نکال رہے ہیں۔ تحقیق کی خاطر جو شخص بحث کرتا ہے وہ آدمی کی پوری بات سن کر اس کے مجموعی مفہوم پر کلام کیا کرتا ہے۔ کہیںسے ایک دو لفظ پکڑ کر ان کو متھنا محض جھگڑالو پن ہے۔