Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت

وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا ۔
بنی اسرائیل17:80
اور دعا کرو کہ پروردگار!مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔
یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر، یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے، تاکہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں‘ فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں‘ اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کرسکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے اور اسی کو ابن جریرؒ اور ابن کثیرؒ جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے اور اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کرتی ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ لَیَزَعُ بِالسُّلْطَانِ مَالَایَزَعُ بِالْقُرْاٰنِ۔ ۳۹؎
یعنی اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدباب کر دیتا ہے جن کا سدباب قرآن سے نہیں کرتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہوسکتی‘ بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔ پھر جب کہ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامت دین اور نفاذ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اِسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو، رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا، تو یہ دنیا پرستی نہیں، بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے۔۴۰؎
یہی چیز ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے اُسوہ میں نظر آتی ہے۔ جس اخلاقی اور اصلاحی انقلاب کے وہ داعی تھے اس کے لیے اقتدار کی قوت ناگزیر تھی۔ جب حالات نے اس کا موقع فراہم کیا تو آپ نے اس سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی حکومت قائم کی۔ قرآن میں اس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:
وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ o قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ ۔ یوسف12:54-55
بادشاہ نے کہا:انھیں میرے پاس لائو تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کرلوں۔ جب یوسفؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا:اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر بھروسہ ہے۔ یوسفؑ نے کہا:ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے‘ میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔
اس سے پہلے اس سورۃ میں جو مضامین گزر چکے ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کوئی نوکری کی درخواست نہیں تھی جو نعوذ باللہ کسی ’طالب جاہ‘ نے وقت کے بادشاہ کا اشارہ پاتے ہی جھٹ سے پیش کر دی ہو۔ درحقیقت یہ اس انقلاب کا دروازہ کھولنے کے لیے آخری ضرب تھی جو حضرت یوسف علیہ السلام کی اخلاقی طاقت سے پچھلے دس بارہ سال کے اندر نشوو نما پاکر ظہور کے لیے تیار ہو چکا تھا اور اب جس کا فتح باب صرف ایک ٹھونکے ہی کا محتاج تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلامآزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے اور یہ آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں‘ بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔ ان آزمائشوں میں انھوں نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ امانت‘ راست بازی‘ حلم‘ ضبطِ نفس‘ عالی ظرفی‘ ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانے کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ ان کی شخصیت کے یہ اوصاف اس طرح کھل چکے تھے کہ کسی کو ان سے انکار کی مجال نہ رہی تھی۔ زبانیں ان کی شہادت دے چکی تھیں۔ دل اُن سے مسخر ہو چکے تھے۔ خود بادشاہ ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا۔ ان کا ’حفیظ‘ اور ’علیم‘ہونا اب محض ایک دعویٰ نہ تھا ‘بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لاچکے تھے۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف علیہ السلام خود حکومت کے ان اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وہ کسر تھی جو انھوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کر دی۔ ان کی زبان سے اس مطالبے کے نکلتے ہی بادشاہ اور اس کی کونسل نے جس طرح اسے بسر و چشم قبول کیا‘ وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پھل اتنا پک چکا تھا کہ اب ٹوٹنے کے لیے ایک اشارے ہی کا منتظر تھا۔ (تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا‘ بلکہ پوری شاہی کونسل نے بالاتفاق اس کے حق میں رائے دی تھی)
یہ اختیارات جو حضرت یوسف علیہ السلام نے مانگے اور ان کو سونپے گئے‘ ان کی نوعیت کیا تھی؟ ناواقف لوگ یہاں ’خزائن ارض‘ کے الفاظ اور آگے چل کر غلے کی تقسیم کا ذکر دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ شاید یہ افسر خزانہ‘ یا افسر مال‘ یا قحط کمشنر یا وزیر مالیات یا وزیر غذائیات قسم کا کوئی عہدہ ہوگا لیکن قرآن‘ بائبل اور تلمود کی متفقہ شہادت ہے کہ درحقیقت حضرت یوسف علیہ السلام سلطنت مصر کے مختار کل (رومی اصطلاح میں ڈکٹیٹر) بنائے گئے تھے اور ملک کا سیاہ و سپید سب کچھ ان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا۔ قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت یعقوب علیہ السلام مصر پہنچے ہیں تو اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام تخت نشین تھے۔ (وَ رَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ ۔یوسف 12:100) حضرت یوسف ؑ کی اپنی زبان سے نکلا ہوا یہ فقرہ قرآن میں منقول ہے کہ:اے میرے رب! تو نے مجھے بادشاہی عطا کی۔ ( رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ ۔ یوسف12:101)پیالے کی چوری کے موقع پر سرکاری ملازم حضرت یوسف علیہ السلام کے پیالے کو بادشاہ کا پیالہ کہتے ہیں (قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ ۔ یوسف12:72)اور اللہ تعالیٰ مصر پر ان کے اقتدار کی کیفیت یہ بیان کرتا ہے کہ ساری سرزمین مصر اُن کی تھی (یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ۔یوسف 12:56)۔ رہی بائیبل تو وہ شہادت دیتی ہے کہ فرعون نے یوسف ؑ سے کہا:
سو‘ تو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا…… دیکھ! میں تجھے سارے ملک ِ مصر کا حاکم بناتا ہوں…… اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پائوں نہ ہلائے گا اور فرعون نے یوسف علیہ السلام کا نام ضغنات فعینح (دنیا کا نجات دہندہ) رکھا۔ (پیدائش ۴۱: ۳۹۔۴۵)
اور تلمود کہتی ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے مصر سے واپس جاکر اپنے والد سے حاکمِ مصر (یوسف علیہ السلام) کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا:
اپنے ملک کے باشندوں پر اس کا اقتدار سب سے بالا ہے۔ اس کے حکم پر وہ نکلتے اور اس کے حکم پر وہ داخل ہوتے ہیں۔ اس کی زبان سارے ملک پر فرماں روائی کرتی ہے، کسی معاملے میں فرعون کے اذن کی ضرورت نہیں ہوتی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے؟ انھوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظامِ تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر ’کشاف‘ میں دیا ہے‘ وہ لکھتے ہیں:
حضرت یوسف علیہ السلام نے اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ یوسف12:55جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کریں جس کے لیے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے جاتے ہیں۔ انھوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا‘ بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے۔
اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہ تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظامِ کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا‘ اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے سوال پر جاکر ٹھیرتا ہے‘ یعنی یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام ایک راست باز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راست باز تھے تو کیا ایک راست باز انسان کا یہی کام ہے کہ قید خانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ’’بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے‘‘ اور بار بار اہل مصر پر بھی واضح کر دے کہ تمھارے ان بہت سے متفرق خود ساختہ خدائوں میں سے ایک یہ شاہ مصر بھی ہے اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ’’فرماں روائی کا اقتدار خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے’مگر جب عملی آزمائش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اس نظام حکومت کا خادم‘ بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ’’فرماں روائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں‘ تھا؟
حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دور انحطاط کے مسلمانوں نے کچھ اسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں‘ ان سب کو وہ نیچے گرا کر اپنے مرتبے پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا۔ انھیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی‘ مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علم برداروں کی بلندی دیکھ کر انھیں شرم آئی‘ لہٰذا اس شرم کو مٹانے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمت کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انھیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کرسکتا ہے اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو، اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو) فوج اور اسلحہ اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کرسکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کرلیتی ہے۔۴۱؎

شیئر کریں