Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے قرآن
(۱) ترجمان القرآن کی تنقید
(۲) مصنّف کا جواب
(۳) ’’ترجمان القرآن‘‘ کا جواب الجواب
(۴) ایک دوسرے اہلِ قلم کی طرف سے مصنّف کے نظریہ کی تائید
(۵) ترجمان القرآن کا آخری جواب{ FR 5521 }
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے حدیث
مزارعت کا مسئلہ
اِصلاح کے حدود اور طریقے

مسئلہ ملکیتِ زمین

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

(۴) ایک دوسرے اہلِ قلم کی طرف سے مصنّف کے نظریہ کی تائید

اس میں تو شک نہیں کہ صاحب ِ تعلیمات نے جس آیت سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے وہ اساسی قانون کی بظاہر حامل نظر نہیں آتی لیکن اس کے خلاف ملکیت ِ زمین کی تائید میں بھی تو کوئی آیت آپ نے نقل نہیں فرمائی۔ اب اس بارے میں رسول اللہa کا اُسوئہ حسنہ ہی قولِ فصیل ہوگا۔ میری محدود نظر نے جہاں تک کام کیا ہے، میں تو دیکھتا ہوں کہ احادیث ِ مقدسہ سے بھی صاحب ِ تعلیمات کی اس تاویل کی تائید ہورہی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں یہ روایات ہیں۔ (کتاب المزارعہ، باکراء الارض)
(۱) عن رافع بن خدیج ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھٰی عن کراء الارض
’’حضرت رافع بن خدیج سے مروی ہے کہ نبی کریم a نے زمین کا لگان لینے سے منع فرمایا‘‘۔
(۲) عن جابرٍ قال کانوا یزرعونھا بالثلث والربع والنصف فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من کانت لہ ارض فلیزرعھا او لیمنحھا
’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ہم زمین کو تہائی، چوتھائی اور نصف کی بٹائی پر دے دیا کرتے تھے۔ سو نبی اکرمa نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو وہ یا تو خود جوتے یا دوسرے کو دے دے‘‘۔
(۳) عن ابی ھریرۃ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من کانت لہ ارض فلیزرعھا او یمنحھا اَخاہٗ
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آں حضرتa نے فرمایا کہ جس کے پاس کوئی زمین ہو وہ خود اسے جوتے یا اسے اپنے بھائی کو دے دے‘‘۔
اس کے علاوہ رافعؓبن خدیج ہی سے ایک اور روایت ہے جس میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ ان کے چچازمین کو پیداوار کی چوتھائی اور چند وسق کھجور، اور جَو کے عوض دے دیا کرتے تھے، سو نبی اکرمa نے انھیں اس سے منع فرمایا اور فرمایا:’’خود کاشت کرو یا دوسرے کو کاشت کے لیے دے دو یا روکے رکھو‘‘۔
اس کے ساتھ ہی حضرت ابن عمرؓ کا یہ واقعہ بھی بخاری میں درج ہے کہ وہ نبی اکرمa کے زمانہ سے لے کر حضرت معاویہؓ کے ابتدائی زمانے تک زمین کو کرایہ پر دیا کرتے تھے۔ اس وقت انھیں رافعؓ خدیج کی وایت کردہ حدیث پہنچی۔ انھوں نے رافعؓ بن خدیج سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ واقعی نبی اکرمa نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے؟ چنانچہ انھوں نے اس کے بعد اپنی زمینیں کرایہ پر دینا موقوف کر دیں۔
ممکن ہے مَیں ان احادیث ِ مقدسہ کا صحیح مفہوم نہ سمجھ سکا ہوں اس لیے اس کے متعلق بھی وضاحت فرما دیجیے لیکن اگر ان کا یہی مفہوم ہے جو بظاہر معلوم ہوتا ہے توان تصریحات کی روشنی میں صاحب ِ تعلیمات عدمِ ملکیت ِ اراضی کے نتیجہ پر پہنچ جائیں تو میرا خیال ہے کہ انھیں محض اشتراکیت کے خیال سے مرعوب تصور کرلینا درست نہ ہوگا۔ اشتراکیت کے ثبوت میں تو بخاری شریف کی اس حدیث کو اور بھی قوی دلیل سے پیش کرسکتے ہیں جس میں حضورa نے فرمایا:
نحن لا نورث ما ترکنا صدقۃٌ
’’ہم (انبیاءؑ) سے وراثت نہیں ملتی ہے۔ ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں صدقہ ہے‘‘۔
اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام حضرات انبیائے کرام ؑ اس حد تک فطرتاً کمیونسٹ تھے۔{ FR 5520 }

شیئر کریں