یہی تین مشکلات ہیں‘ جن کو اس راہ میں حائل دیکھ کر لوگ دائیں اور بائیں رخ پر راستہ کَترا کر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جزئیات کے اعتبار سے مختلف لوگوں کے نظریات اور عملی طریقوں میں جو اختلافات ہیں ان کو نظر انداز کر کے بڑی اور اصولی تقسیم اگر کی جائے‘ تو یہ صرف تین گروہوں میں منقسم ہوجاتے ہیں:۔
ایک وہ گروہ جو کہتا ہے‘ کہ پہلے ہمیں ہندستان کی غیر مسلم آبادی کے ساتھ موافقت کر کے اس ملک کو انگریزی اقتدار سے آزاد کر ا لینا چاہئے‘ تاکہ یہاں ایک مشترک جمہوری اسٹیٹ قائم ہوجائے۔ یہ مرحلہ طے ہوجانے کے بعد ہم بتدریج اس اسٹیٹ کو اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کر نے کے لیے کوشش کریں گے۔
دوسرا وہ گروہ جس کا خیال ہے‘ کہ پہلے انگریزی اقتدار کی موجودگی سے فائدہ اُٹھا کر ہمیں مستقل ہندو اکثریت کے تسلّط کا سدّ باب کرنا چاہئے‘ اور ایسی تدبیر کرنی چاہئے کہ اس ملک میں ایک جمہوری اسٹیٹ کے بجائے دو اسٹیٹ قائم ہوں۔‘ ایک وہ اسٹیٹ جس میں مسلم اکثریت کی وجہ سے اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے اور دوسرا وہ اسٹیٹ جس میں ہندو اکثریت کی وجہ سے اقتدار ہندوئوں کے ہاتھ میں جائے مگر زیادہ سے زیادہ جو آئینی تحفظات ممکن ہیں ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کی پوزیشن محفوظ ہوجائے۔ یہ مرحلہ طے ہوجانے کے بعد ہم مسلم اکثریت والے اسٹیٹ کو بتدریج اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کر لیں گے‘ اور پھر ہندو اکثریت والے اسٹیٹ میں تغیّرو اصلاح کی کوشش کریں گے۔
تیسرا گروہ جو موجودہ حالات میں دعوتِ عام اور ایک انقلابی پارٹی کی تشکیل کو آسان بنانے کے لیے اسلام کو ایک دوسرے سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے‘ تاکہ وہ ان لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہوجائے‘ جو اسلامی عقائد اور عبادات اور نظامِ شریعت کی بندشوں سے گھبراتے ہیں۔ اس گروہ نے اگرچہ کوئی مستقل جماعتی صورت اختیار نہیں کی ہے‘ مگر مجھے معلوم ہے‘ کہ اس طرز خیال کے لوگ ایک اچھی خاصی تعداد میں پیدا ہوگئے ہیں‘ اور ان کی تجویزیں اس وقت حالت جَنِینی سے گزر رہی ہیں۔