اعتراض: دوسری آیت آپ نے یہ پیش کی ہے :لَـقَدْ صَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۰ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۰ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ۰ۙ لَا تَخَافُوْنَ۰ۭ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًاo الفتح 27:48 اور اس کا ترجمہ کیا ہے ’’اللّٰہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا…‘‘ اوّل تو فرمائیے کہ آپ نے صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا کا ترجمہ ’’اللّٰہ نے سچا خواب دکھایا‘‘ کس قاعدے کی رو سے کیا ہے؟ صَدَقَ الرُّؤْیَا کے معنی ’’اس نے سچا خواب دکھایا‘‘ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے معنی ہیں ’’خواب کو سچا کر دکھایا۔‘‘ جیسے لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ وَعْدَہ ’’اللّٰہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔‘‘ آپ نے خود اس کا ترجمہ ’’پورا کر دیا‘‘ کیے ہیں۔ یہ نہیں کیے کہ اللّٰہ نے تم سے سچا وعدہ کیا۔
جواب: صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّوْیَا کے معنی ’’اللّٰہ نے رسول کا خواب سچا کر دکھایا۔‘‘ کسی طرح بھی نہیں ہو سکتے۔ یہ بات کہنی ہوتی تو صَدَقَ اللّٰہُ رُؤْیَا الرَّسُوْلِ کہا جاتا نہ کہ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّوْیَا۔اس فقرے میں صدق کے دو مفعول ہیں۔ ایک: رسولﷺ جسے خوا ب دکھایا گیا۔ دوسرا خواب جو سچا تھا، یا جس میں سچی بات بتائی گئی تھی۔ اس لیے لامحالہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللّٰہ نے اپنے رسولﷺ کو سچا خواب دکھایا، یا اس کو خواب میں سچی بات بتائی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے عربی میں کوئی کہے صَدَقَنِیَ الْحَدِیْثَ۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس نے مجھ سے سچی بات کہی، نہ یہ کہ اس نے جو بات مجھ سے کہی اسے سچا کر دکھایا۔
مزید برآں اگر اس فقرے کے وہ معنی لے بھی لیے جائیں جو ڈاکٹر صاحب لینا چاہتے ہیں تو اس کے بعد والا فقرہ قطعًا بے معنی ہو جاتا ہے۔ جس میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے لَتَدْخُلَنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ’’تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے۔‘‘ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ خواب میں جوبات دکھائی گئی تھی وہ ابھی پوری نہیں ہوئی ہے، اس کی سچائی ثابت ہونے سے پہلے جن لوگوں کو رسول کے خواب کی صداقت میں شبہ پیدا ہوا ہے ان کو اللّٰہ تعالیٰ یقین دلا رہا ہے کہ ہم نے سچا خواب دکھایا ہے، یہ خواب پورا ہو کر رہے گا۔ اگر ان آیات کے نزول سے پہلے وہ خواب سچا کر دکھایا گیا ہوتا تو اللّٰہ تعالیٰ لَتَدْخُلَنَّ ’’تم ضرور داخل ہو گے‘‘ کہنے کے بجائے قَدْ دَخَلْتُمْ ’’تم داخل ہو چکے ہو‘‘ فرماتااور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، پوری سورۂ فتح جس کی ایک آیت پر یہاں کلام کیا جا رہا ہے، اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی ہے جب کہ مسلمان عمرہ سے روک دئیے گئے تھے اور مسجد حرام میں داخل ہونے کا واقعہ ابھی پیش نہیں آیا تھا۔ لہٰذا اس سیاق وسباق میں اس آیت کا یہ مطلب لیا ہی نہیں جا سکتا کہ اس وقت خواب پور اہو چکا تھا۔