اعتراض: آگے چل کر آپ فرماتے ہیں ’’پھر قرآن ایک تیسری چیز کی بھی خبر دیتا ہے جو کتاب کے علاوہ نازل کی گئی تھی۔‘‘ اس کے لیے آپ نے حسب ذیل تین آیات درج فرمائی ہیں:
۱۔ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا۰ۭ التغابن64:8
پس ایمان لائو اللّٰہ اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے۔
۲۔ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الاعراف157:7
پس جو لوگ ایمان لائیں اس رسول(ﷺ) پر اور اس کی تعظیم وتکریم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کے پیچھے چلیں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ وہی فلاح پانے والے ہیں۔
۳۔ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌo يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ المائدہ 15-16:5
تمھارے پاس آ گیا ہے نور اور کتاب مبین، جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ہر اس شخص کو جو اس کی مرضی کی پیروی کرنے والا ہے، سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے۔
پہلی آیت میں اللّٰہ اور رسول اور النور پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ کیا آپ کے خیال کے مطابق اللّٰہ اور رسول کے علاوہ ایمان لانے کا حکم نہ کتاب پر ہے نہ حکمت پر، نہ میزان پر بلکہ صرف چوتھی چیز پر ہے جسے آپ کتاب وحکمت ومیزان سے الگ قرار دیتے ہیں۔ دوسری آیت میں رسول اللّٰہ پر ایمان لانے کا ذکر ہے اور النور کے اتباع کا حکم یعنی اس میں کتاب اور حکمت کے اتباع کا حکم نہیں۔ یعنی آپ کے اس استدلال کے مطابق اگر کوئی شخص قرآن پر ایمان نہیں لاتا، صرف النور پر ایمان لاتا ہے اوروہ قرآن کا اتباع بھی نہیں کرتا صرف النور کا اتباع کرتا ہے وہ مومنین اور مفلحین کے زمرے میں داخل ہو گا۔ یہ النور کیا ہے؟ اس کی وضاحت میں آپ فرماتے ہیں: ’’اس سے مراد وہ علم ودانش اور وہ بصیرت وفراست ہی ہو سکتی ہے جو اللّٰہ نے حضورﷺ کو عطا فرمائی تھی۔‘‘ چلو قرآن پر ایمان لانے اوراس کا اتباع کرنے سے تو چھٹی پائی، بلکہ حضورﷺ کے اقوال وافعال کی اطاعت سے بھی، کیوں کہ ان آیات میں صرف النور کا ذکر ہے۔
جواب: یہ کج بحثی کی ایک اور دل چسپ مثال ہے۔ منکرین حدیث نے کبھی سوچ سمجھ کر قرآن پڑھا ہوتا تو انھیں اس کتاب کے اندازِ بیان کا پتہ لگا ہوتا۔ قرآن مختلف مقامات پر موقع ومحل کی مناسبت سے اپنی تعلیم کے مختلف اجزا کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ مثلاً کہیں وہ صرف ایمان باللّٰہ کے نتیجے میں جنت کی بشارت دیتا ہے۔ کہیں صرف آخرت کے اقرار وانکار کو مدارِ فلاح وخسران بتاتا ہے۔ کہیں خدا اور یوم آخر پر ایمان کا ثمرہ یہ بتاتا ہے کہ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔کہیں صرف رسول پر ایمان لانے کو موجب فلاح ٹھیراتا ہے۔ اسی طرح اعمال میں کبھی کسی چیز کو نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہے اور کبھی کسی دوسری چیز کو۔ اب کیا یہ ساری آیات ایک دوسرے سے اسی طرح ٹکرائی جائیں گی اور ان سے یہ نتیجہ برآمد کیا جائے گا کہ ان میں تضاد ہے؟ حالانکہ ذرا سی عقل بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ان تمام مقامات پر قرآن نے ایک بڑی حقیقت کے مختلف پہلوئوں کو حسب موقع الگ الگ نمایاں کرکے پیش کیا ہے اور ان پہلوئوں میں سے کوئی کسی دوسرے پہلو کی نفی نہیں کرتا۔ جو شخص بھی رسول اللّٰہ ﷺ پر ایمان لائے گا اور اس روشنی کے پیچھے چلنا قبول کر لے گا جسے رسول پاکﷺ لائے ہیں وہ آپ سے آپ قرآن کو بھی مانے گا اور حضورﷺ کی سکھائی ہوئی حکمت ودانش سے بھی بہرہ مند ہونے کی کوشش کرے گا۔ قرآن کا انکار کرنے والے کے متعلق یہ تصور ہی کیسے کیا جا سکتا ہے کہ وہ نور رسالت کا متبع ہے۔