اعتراض: قرآن ہی کے حکمت ہونے کے تمام دلائل سے بڑھ کر وہ دلیل ہے جو سورۂ احزاب کی اس آیت میں موجود ہے جسے آپ نے خود درج کیا ہے اور جس کے متعلق آپ نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ وہ آیت ہے وَاذْکُرْنَ مَایُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیَاتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ 33:34 آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وحی کو جو قرآن میں درج ہے آپ وحی متلو اور خارج از قرآن وحی کو وحی غیر متلو قرار دیا کرتے ہیں۔ اس آیت میں حکمت کو بھی ’’ما یُتْلٰی‘‘کہا گیا ہے۔ لہٰذا حکمت سے مراد وحی متلو ہے،وحی غیر متلو نہیں۔ دوسرے مقامات میں قرآن کو متلو کہا گیا ہے۔ مثلاً سورہ کہف میں ہے وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ 27:18 دوسری جگہ ہے وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ… اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْآنَ 92:27 علاوہ ازیں قرآن کے متعدد مقامات میں یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِہٖ کے الفاظ آئے ہیں۔ احادیث کی تلاوت کا ذکر کہیں نہیں آیا۔ اس لیے سورۂ احزاب میں جس حکمت کی تلاوت کا ذکر ہے اس سے مراد قرآن ہی ہے۔
جواب: یہ استدلال بھی بے علمی اور کم فہمی پر مبنی ہے۔ لفظ تلاوت کو ایک اصطلاح کے طور پر صرف ’’تلاوت کتاب اللّٰہ‘‘ کے معنی میں مخصوص کرنا، بعد کے اہل علم کا فعل ہے جس کی بِنا پروحی متلو اور وحی غیر متلو کی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔ قرآن میں تلاوت کا لفظ مجرد پڑھنے کے معنی میں آیا ہے، اصطلاح کے طور اسے صرف آیات کتاب کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ اگر اس میں کچھ شک ہو تو سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۲ ملاحظہ فرما لیں:
وَاتَّبَعُوْا مَاتَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ
اور انھوں نے پیروی کی اس چیز کی جسے شیاطین تلاوت کیا کرتے تھے سلیمان کی بادشاہی کے دور میں۔