آخر میں اُس ذریعۂ علم کو لیجیے جسے ہم پچھلے انسانی تجربات کا تاریخی ریکارڈ یا انسانیت کا نامۂ اعمال کہتے ہیں۔ اس کی اہمیت اور اس کے فائدوں سے مجھے انکار نہیں ہے۔ مگر میں کہتا ہوں، اور غور کریں گے تو آپ بھی مان لیں گے کہ ’’الدین‘‘ وضع کرنے کا عظیم الشان کام انجام دینے کے لیے یہ بھی ناکافی ہے۔ میں یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ ریکارڈ ماضی سے حال کے لوگوں تک صحت اور جامعیت کے ساتھ پہنچا بھی ہے یا نہیں؟ میں یہ بھی نہیں پوچھتا کہ اس ریکارڈ کی مدد سے ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے انسانیت کا نمایندہ کس ذہن کو بنایا جائے گا؟ ہیکل کے ذہن کو؟ مارکس کے ذہن کو؟ ارنسٹ ہیکل کے ذہن کو؟ یا کسی اور ذہن کو؟ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ماضی، حال، یا مستقبل میں کس تاریخ تک کا ریکارڈ ایک ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے کافی مواد فراہم کر سکے گا؟ اُس تاریخ کے بعد پیدا ہونے والے خوش قسمت ہیں۔ باقی رہے اس سے پہلے گزر جانے والے تو ان کا بس اللہ ہی حافظ ہے۔