قرآن اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت کے ایک پہلو کی حیثیت سے پیش کرتا ہے کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح انسانوں کے درمیان رزق اور وسائلِ زندگی میں بھی مساوات نہیں ہے۔ مختلف تمدنی نظاموں کی مصنوعی بے اعتدالیوں سے قطع نظر، جہاں تک بجائے خود اس فطری عدم مساوات کا تعلق ہے، اسے قرآن اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا اور اس کی تقسیم و تقدیر (dispensation) کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور اس کی پوری اسکیم میں کہیں اس تخیل کا نشان نہیں ملتا کہ اس عدم مساوات کو مٹا کر کوئی ایسا نظام قائم کرنا مطلوب ہے جس میں سب انسانوں کو ذرائع معاش برابر ملیں:
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۰ۭ الانعام165:6
اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تم کو زمین کے خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر بلند درجے دیے تا کہ جو کچھ بھی تم لوگوں کو اس نے دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔
اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰي بَعْضٍ۰ۭ وَلَلْاٰخِرَۃُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًاo بنی اسرائیل21:17
دیکھو، کس طرح ہم نے بعض لوگوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے فرق اور تفضیل میں اور بھی زیادہ ہے۔
اَہُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ۰ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَہُمْ مَّعِيْشَتَہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا۰ۭ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَo الزخرف32:43
کیا تیرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے دنیا کی زندگی میں ان کے درمیان کی معیشت تقسیم کی ہے اور ان میں سے بعض کو بعض پر بلند درجے دیئے ہیں تا کہ ان میں سے کچھ لوگ کچھ دوسرے لوگوں سے کا م لیں۔ اور تیرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) تو اس مال و دولت سے بھی بہتر ہے جو یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔(۱)
اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًاo
بنی اسرائیل 30:17
درحقیقت تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور ان پر نظر رکھتا ہے۔
لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ۰ۭ اِنَّہٗ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌo الشوریٰ 12:42
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے قبضے میں ہیں، جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَيَقْدِرُ لَہٗ۰ۭ سبا39:34
اے نبی، کہو کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے نپا تلا کر دیتا ہے۔
قرآن ہدایت کرتا ہے کہ لوگوں کو یہ فطری عدمِ مساوات ٹھنڈے دل سے قبول کرنی چاہیے اور دوسروں کو جو فضیلت خدا نے بخشی ہو اس پر رشک و حسد نہ کرنا چاہیے:
وَلَاتَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ۰ۭ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبُوْا۰ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبْنَ۰ۭ وَسْـــَٔـلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہٖ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِـــيْمًاo النساء32:4
اور تمنا نہ کرو اس فضیلت کی جو اللہ نے تم میں سے کسی کو کسی پر عطا کی ہو۔ مردوں کے لیے حصہ ہے ان کی کمائی میں سے اور عورتوں کے لیے حصہ ہے ان کی کمائی میں سے۔ البتہ اللہ سے اس کا فضل مانگو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
دو آیتیں جن سے آج کل کچھ لوگ یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن لوگوں کے درمیان رزق میں مساوات چاہتا ہے، حسب ذیل ہیں:
وَاللہُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ۰ۚ فَمَا الَّذِيْنَ فُضِّلُوْا بِرَاۗدِّيْ رِزْقِہِمْ عَلٰي مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَہُمْ فِيْہِ سَوَاۗءٌ۰ۭ اَفَبِنِعْمَۃِ اللہِ يَجْحَدُوْنَo النحل71:16
اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، تو جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دینے والے نہیں ہیں کہ وہ اور ان کے غلام اس میں برابر ہو جائیں۔ پھر کیا اللہ ہی کے احسان کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں؟
ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ۰ۭ ہَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْہِ سَوَاۗءٌ تَخَافُوْنَہُمْ كَخِيْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ۰ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَo الروم28:30
اللہ تمہیں خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے۔ کیا تمہارے غلاموں میں سے کچھ غلام اس رزق میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے تمہارے ایسے شریک ہیں کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں اور تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو؟ اسی طریقہ سے ہم نشانیاں کھول کر پیش کرتے ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔
لیکن ان دونوں آیتوں کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں، اور جس سیاق و سباق میں یہ آئی ہیں اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں دراصل اصل معاشی عدمِ مساوات کو مذموم قرار دینے اور اس کو مٹا کر مساوات قائم کرنے کی کوئی تلقین نہیں کی گئی ہے، بلکہ اس امر واقع کو، جو انسانوں میں پایا جاتا ہے، شرک کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ یعنی استدلال یہ ہے کہ جب تم اللہ کے دیے ہوئے رزق میں اپنے غلاموں کو اپنے ساتھ برابر کا شریک بنانے کے لیے تیار نہیں ہو تو اللہ کے متعلق تم نے یہ کیسا تصور قائم کیا ہے کہ اس کی مخلوقات میں سے کوئی خدائی میں اس کا شریک ہے۔(قرآن کے تجویز کردہ سیاسی نظام کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کا پہلا باب)