آپ کا چوتھا نکتہ آپ کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ:
ان تمام اعمال میں جو حضور ﷺ نے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کیے وہ اسی مَااَنْزَلَ اللّٰہُ کا، جو کتاب اللّٰہ میں موجود ہے، اتباع کرتے تھے اور امت کو بھی یہی حکم ملا کہ اسی کا ابتاع کرے۔ جہاں اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْالاعراف 3:7 کہہ کر امت کے افراد کو تلقین کی وہاں یہ بھی اعلان ہوا کہ حضور ﷺ بھی اسی کا اتباع کرتے ہیں۔ قُلْ اِتَّبِعْ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ۔
اس عبارت میں آپ نے دو آیتیں نقل کی ہیں اور دونوں نہ صرف یہ کہ غلط نقل کی ہیں، بلکہ نقل میں بھی ایسی غلطیاں کی ہیں جو عربی زبان کی شدبد کا علم رکھنے والا بھی نہیں کر سکتا۔
پہلی آیت دراصل یہ ہے:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ الاعراف 3:7
یعنی پیروی کرو اس کی جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔
آپ کے نقل کردہ الفاظ کا ترجمہ یہ ہو گا کہ:
پیروی کرو اس کی جو اللّٰہ نے تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا ہے۔
دوسری آیت کے اصل الفاظ قرآن مجید میں یہ ہیں :
قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ۰ۚ الاعراف 203:7
کہو کہ میں تو اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف میرے رب کی جانب سے بھیجی جاتی ہے۔
آپ نے جو الفاظ نقل کیے ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے:
کہو کہ پیروی کر اس وحی کی جو میری طرف میرے رب کی جانب سے بھیجی جاتی ہے۔
مَیں نے ان غلطیوں پر آپ کو صرف اس لیے متنبہ کیا ہے کہ آپ کسی وقت ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ ایک طرف قرآن سے آپ کی واقفیت کا یہ حال ہے اور دوسری طرف آپ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ساری امت کے اہل علم وتحقیق قرآن کو غلط سمجھے ہیں اور آپ نے اس کو صحیح سمجھا ہے۔
اب رہا اصل مسئلہ، تو اس میں آپ نے دو باتیں کہی ہیں اور دونوں غلط ہیں۔ ایک بات آپ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ پر صرف وہی وحی آتی تھی جو قرآن میں موجود ہے اور حضورﷺ کو صرف اسی کی پیروی کا حکم تھا حالانکہ خود قرآن سے یہ ثابت ہے کہ حضور ﷺپر قرآن کے علاوہ بھی وحی کے ذریعے سے احکام نازل ہوتے تھے اور آپﷺ ان دونوں قسم کی وحیوں کا اتباع کرنے پر مامور تھے۔({ FR 6807 })دوسری بات آپ یہ فرماتے ہیں کہ امت کو صرف قرآن کی پیروی کا حکم ہے حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ امت کو رسول پاکﷺ کی پیروی کا حکم بھی ہے:
۱۔ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ آل عمران 31:3
اے نبی(ﷺ) کہہ دو کہ اگر تم اللّٰہ سے مَحبّت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللّٰہ تم سے مَحبّت فرمائے گا۔
۲۔ وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ فَسَاَكْتُبُہَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَo اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ الاعراف 156-157:7
میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور اس رحمت کو میں ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقوٰی اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں، جو پیروی کرتے ہیں اس رسول نبی اُمّی(ﷺ) کی جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔
۳۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْہِ۰ۭ البقرہ 143:2
اور ہم نے وہ قبلہ جس پر اب تک تم تھے اسی لیے مقرر کیا تھا تاکہ یہ دیکھیں کہ کون رسول(ﷺ) کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پائوں پھر جاتا ہے۔
ان آیات میں رسول(ﷺ) کی پیروی کرنے کے حکم کو تاویل کے خراد پر چڑھا کر یہ معنی نہیں پہنائے جا سکتے کہ اس سے مراد دراصل قرآن کی پیروی ہے جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، اگر واقعی مقصود یہی ہوتا کہ لوگ رسول کی نہیں، بلکہ قرآن کی پیروی کریں تو آخر کیا وجہ ہے کہ آیت نمبر ۱ میں اللّٰہ تعالیٰ نے فَاتَّبِعُوْاکِتَابَ اللّٰہِ کہنے کی بجائے فَاتَّبِعُوْنِیْ کے الفاظ استعمال فرمائے؟ کیا آپ کی رائے میں یہاں اللّٰہ تعالیٰ سے چوک ہو گئی ہے؟
پھر آیت نمبر۲ میں تو اس تاویل کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کیوں کہ اس میں آیاتِ خداوندی پر ایمان لانے کا ذکر الگ ہے اور نبی اُمّی ﷺ کے اتباع کا ذکر الگ۔
ان سب سے زیادہ کھلی ہوئی آیت نمبر ۳ ہے جو ایسی ہر تاویل کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور ساتھ ساتھ آپ کے اس مفروضے کا بھی قلع قمع کر دیتی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ پر قرآن کے سوا اور کسی صورت میں وحی نہیں آتی تھی۔ مسجد حرام کو قبلہ قرار دینے سے پہلے مسلمانوں کا جو قبلہ تھا، اسے قبلہ بنانے کا کوئی حکم قرآن میں نہیں آیا ہے۔ اگر آیا ہو تو آپ اس کا حوالہ دے دیں۔ یہ واقعہ ناقابل انکار ہے کہ وہ قبلہ آغاز اِسلام میں نبی ﷺ نے مقرر کیا تھا اور تقریباً ۱۴ سال تک اسی کی طرف حضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ نماز ادا کرتے رہے۔ ۱۴ سال کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی اس آیت میں حضورﷺ کے اس فعل کی توثیق فرمائی، اور یہ اعلان فرمایا کہ یہ قبلہ ہمارا مقرر کیا ہوا تھا اور اسے ہم نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سے اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اس سے منہ موڑتا ہے۔ یہ ایک طرف اس امر کا صریح ثبوت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی کے ذریعے سے احکام نازل ہوتے تھے اور دوسری طرف یہی آیت پوری صراحت کے ساتھ یہ بتاتی ہے کہ مسلمان رسول اللّٰہ ﷺ کے ان احکام کا اتباع کرنے پر بھی مامور ہیں جو قرآن میں مذکور نہ ہوں، حتّٰی کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کے ایمان بالرسالت کی آزمائش ہی اس طریقے سے ہوتی ہے کہ رسولﷺ کے ذریعے سے جو حکم دیا جائے، اسے وہ مانتے ہیں یا نہیں؟ اب آپ اور آپ کے ہم خیال حضرات خود سوچ لیں کہ اپنے آپ کو کس خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اگر آپ کے دل میں واقعی خدا کا اتنا خوف ہے کہ اس کی ہدایت کے خلاف طرز عمل کا تصور کرنے سے بھی آپ کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے تو میری گزارش ہے کہ بحث ومناظرے کے جذبے سے اپنے ذہن کو پاک کرکے اوپر کی چند سطروں کو مکرر پڑھیں۔ خدا کرے کہ آپ کے جسم پر کپکپی طاری ہو، اور آپ اس گم راہی سے بچ نکلیں جس میں محض اپنے ناقص مطالعے کی وجہ سے پڑ گئے ہیں۔