قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ حق دار بیا ن کیے گئے ہیں جن کی تفصیل سورئہ توبہ آیت 60 میں اس طرح بیان کی گئی ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌo التوبہ 60:9
یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور ان کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔
اس آیت میں زکوٰۃ کے مصارف کا بیان ہے۔ اس مد سے معاشرے کے جن لوگوں کی مدد مطلوب ہے یہاں ان کی صراحت کر دی گئی ہے۔ نیز جو دوسرے کام اس سے لیے جانے ہیں ان کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے۔ اس طرح یہ آیت دراصل اسلامی ریاست کی معاشی اصلاح کی پالیسی کے مقاصد پر روشنی ڈالتی ہے۔ جن مدات کا اس میں ذکر ہے ان کی مختصر تشریح یہ ہے:
۱۔ فقیر سے مراد وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسرے کی مدد کا محتاج ہو۔ یہ لفظ تمام حاجت مندوں کے لیے عام ہے ، خواہ وہ جسمانی نقص یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاجِ اعانت ہوگئے ہوں، یا کسی عارضی سبب سے سرِدست مدد کے محتاج ہوں اور اگر انہیں سہارا مل جائے تو آگے چل کر خود اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکتے ہوں ۔ مثلاً یتیم بچے، بیوہ عورتیں، بیروزگار لوگ اور وہ لوگ جو وقتی حوادث کے شکار ہوگئے ہوں۔
۲۔ مسکین وہ سب لوگ ہیں جن میں مسکنت کا وصف پایا جاتا ہو۔ مسکنت کے لفظ میں عاجزی، درماندگی، بے چارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں۔ اس اعتبار سے مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو مستحق امداد ٹھیرایا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پا رہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں، مگر نہ تو ان کی خود داری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ان کی ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انہیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ چنانچہ حدیث میں اس کی تشریح یوں آتی ہے کہ اَلمِسْکِیْنُ الَّذِیْ لَا یَجِدُ غِنٌی یُغْنِیْہِ وَلَا یُفْطَنُ لَہٗ فَیُتَصَدَّقُ عَلَیْہِ وَلَا یَقُوْمُ فَـیَسْئَالُ النَّاسَ ’’مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہیں پاتا، اور نہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے ، اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے۔‘‘ گویا وہ ایک شریف آدمی ہے جو غریب ہو۔ یہ معاشرے کے نیک انسانوں کا کام ہے کہ وہ خود اپنے گردو پیش کے ایسے افراد کی خبر گیری کریں۔
۳۔ عاملین یعنی وہ لوگ جو صدقات وصول کرنے اور وصول شدہ مال کی حفاظت کرنے اور ان کا حساب کتاب لکھنے اور انہیں تقسیم کرنے میں حکومت کی طرف سے استعمال کیے جائیں۔ ایسے لوگ خواہ خود فقیر و مسکین نہ ہوں، ان کی تنخواہیں بہرحال صدقات ہی کی مد سے دی جائیں گی۔ یہ الفاظ اور سورئہ توبہ کی آیت ۱۰۳ کے الفاظ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ زکوٰۃ کی جمع اور تقسیم کرنا اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان پر زکوٰۃ کا مال حرام کر دیا تھا۔ چنانچہ آپؐ نے خود بھی صدقات کی تحصیل و تقسیم کا کام ہمیشہ بلامعاوضہ کیا اور دوسرے بنی ہاشم کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ اگر وہ اس خدمت کو بلامعاوضہ انجام دیں تو جائز ہے، لیکن معاوضہ لے کر اس شعبہ کی خدمت کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے۔ آپؐ کے خاندان کے لوگ اگر صاحبِ نصاب ہوں تو زکوٰۃ دینا ان پر فرض ہے۔ لیکن اگر وہ غریب و محتاج یا قرض دار یا مسافر ہوں تو زکوٰۃ لینا ان کے لیے حرام ہے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ خود بنی ہاشم کی زکوٰۃ بھی بنی ہاشم لے سکتے ہیں یا نہیں۔ امام ابو یوسفؒ کی رائے یہ ہے کہ لے سکتے ہیں۔ لیکن اکثر فقہاء اس کو بھی جائز نہیں رکھتے۔
۴۔ مؤلفہ القلوب وہ لوگ ہیں جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔ تالیفِ قلب کے معنی ہیں دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوش عداوت کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہو، یا جو لوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انہیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مددگار بن سکتے ہوں، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے ان کی استمالت نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار یا مطیع و فرماںبردار، یا کم از کم بے ضرر دشمن بنالیا جائے۔ اس مد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال خرچ کیا جاسکتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو زکوٰۃ کی مد سے بھی۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر اور مسکین یا مسافر ہوں تب ہی ان کی مدد زکوٰۃ سے کی جاسکتی ہے ، بلکہ وہ مالدار اور رئیس ہونے پر بھی زکوٰۃ دیے جانے کے مستحق ہیں۔
یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہت سے لوگوں کو تالیفِ قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیے جاتے تھے ۔ لیکن اس امر میں اختلاف ہوگیا ہے کہ آیا آپؐ کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں۔ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے سے یہ مد ساقط ہو گئی ہے اور اب مولفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے ۔ امام شافعیؒ کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیفِ قلب کے لیے زکوٰۃ کی مد سے دیا جاسکتا ہے مگر کفار کو نہیں۔ اور بعض دوسرے فقہاء کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کا حصہ اب بھی باقی ہے اگر اس کی ضرورت ہو۔
حنفیہ کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس رضی اللہ عنہما حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا۔ انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیان صحابہؓ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کر دیں۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہو گئیں۔ مگر جب یہ لوگ حضرت عمرؓ کے پاس گواہی لینے گئے تو انہوں نے فرمان کو پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کرتے تھے، مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس پر وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس شکایت لے کر گئے اور ان کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمرؓ؟ لیکن نہ تو حضرت ابوبکرؓ ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہؓ میں سے ہی کسی نے حضرت عمرؓ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہو گئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی کہ اپنے بل بوتے پر کھڑے ہوسکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتدا میں مولقہ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا، اس لیے باجماعِ صحابہؓ یہ حصہ ساقط ہوگیا۔
اما م شافعیؒ کا استدلال یہ ہے کہ تالیفِ قلب کے لیے کفار کو مالِ زکوٰۃ دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے ۔ جتنے واقعات حدیث میں ہمیں ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐنے کفار کو تالیفِ قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مالِ غنیمت سے دیا نہ کہ مالِ زکوٰۃ سے۔
ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مولفۃ القلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلاشبہ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ اگر اسلامی حکومت تالیفِ قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ اور صحابہ کرامؓ کا اجماع جس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانے میں جو حالات تھے ا ن میں تالیفِ قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہؓ کے اجماع نے اس مد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔
رہی امام شافعیؒ کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مدات آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیفِ قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صرف نہ کرنا چاہیے۔ لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسق پر اسے صرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیفِ قلب مطلوب ہے، اور وہ اس قسم کے لوگ ہیں کہ ان کی تالیفِ قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی پائی جائے وہاں امام مسلمین بشرطِ ضرورت زکوٰۃ کا مال صرف کرنے کا ازروئے قرآن مجاز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس مد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپؐ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا۔ ورنہ اگر آپؐ کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرما دیتے۔
۵۔ فی الرقاب ، یعنی گردنیں چھڑانے میں زکوٰۃ صرف کرنا۔ گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ غلاموں کی آزادی میں زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ جس غلام نے اپنے مالک سے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اگر میں اتنی رقم تمہیں ادا کر دوں تو تم مجھے آزاد کر دو، اسے آزادی کی قیمت ادا کرنے میں مدد دی جائے۔ دوسرے یہ کہ خود زکوٰۃ کی مد سے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں۔ ان میں سے پہلی صورت پر تو سب فقہاء متفق ہیں۔ لیکن دوسری صورت کو حضرت علیؓ، سعیدؒ بن جبیر، لیث، ثوری ، ابراہیم نخعی، شعبی، محمد بن سیرین، حنفیہ اور شافعیہ ناجائز کہتے ہیں۔ اور ابن عباسؓ ، حسن بصری، مالک، احمد اور ابو ثور جائز قرار دیتے ہیں۔
۶۔ قرض دار، یعنی ایسے قرضدار جو اگر اپنے مال سے اپنا پورا قرض چکا دیں تو ان کے پاس قدرِ نصاب سے کم مال بچ سکتا ہو ۔ وہ خواہ کمانے والے ہوں یا بے روزگار، اور خواہ عرفِ عام میں فقیر سمجھے جاتے ہوں یا غنی، دونوں صورتوں میں ان کی اعانت زکوٰۃ کی مد سے کی جاسکتی ہے۔ مگر متعدد فقہاء کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے بداعمالیوں اور فضول خرچیوں میں اپنا مال اڑا کر اپنے آپ کو قرض داری میں مبتلا کیا ہو اس کی مدد نہ کی جائے جب تک وہ توبہ نہ کرے۔
۷۔ فی سبیل اللہ، یعنی راہِ خدا میں زکوٰۃ صرف کرنا۔راہِ خدا کا لفظ عام ہے۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو، اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی رو سے زکوٰۃ کا مال ہر قسم کے نیک کاموں میں صرف کیا جاسکتا ہے لیکن حق یہ ہے اور ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظامِ کفر کو مٹانا اور اس کی جگہ نظامِ اسلامی کو قائم کرنا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفر خرچ کے لیے، سواری کے لیے، آلات و اسلحہ اور سرو سامان کی فراہمی کے لیے زکوۃ سے مدد دی جاسکتی ہے، خواہ وہ بجائے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو۔اسی طرح جو لوگ رضاکارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دے دیں، ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی زکوٰۃ سے وقتی یا استمراری اعانتیں دی جاسکتی ہیں۔
یہاںیہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں بالعموم اس موقع پر غزو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قتال کا ہم معنی ہے۔ اس لیے لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی جو مدد رکھی گئی ہے، وہ صرف قتال کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمۂ کفر کو پست اور کلمۂ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں، خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں یا قتال کے آخری مرحلے میں۔
۸۔ مسافر خواہ اپنے گھر میں غنی ہو، لیکن حالتِ سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہو جائے تو اس کی مدد بھی زکوٰۃ کی مد سے کی جائے گی۔ یہاں بعض فقہاء نے یہ شرط لگائی ہے کہ جس شخص کا سفر معصیت کے لیے نہ ہو صرف وہی اس آیت کی رو سے مدد کا مستحق ہے ۔ مگر قرآن و حدیث میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے۔ اور دین کی اصولی تعلیمات سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مدد کا محتاج ہو اس کی دست گیری کرنے میں اس کی گناہ گاری مانع نہ ہونی چاہیے۔ بلکہ فی الواقع گناہ گاروں اور اخلاقی پستی میں گرے ہوئے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ان کو سہارا دیا جائے اور حسن سلوک سے ان کے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے۔
اب(۱) یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ یہ آٹھ گروہ جو بیان ہوئے ہیں ان میں سے کس شخص کو کس حال میں زکوٰۃ دینی چاہیے اور کس حال میں نہ دینی چاہیے۔ اس کی بھی تھوڑی سی تفصیل یہاں درج کی جاتی ہے:
(۱) کوئی شخص اپنے باپ یا اپنے بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔ اس میں فقہاء کا اتفاق ہے۔ بعض فقہاء یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایسے قریبی عزیزوں کو زکوٰۃ نہیں دینی چاہیے جن کا نفقہ تم پر واجب ہو یا جو تمہارے شرعی وارث ہوں، البتہ دور کے عزیز زکوٰۃ کے حقدار ہیں، بلکہ دوسروں سے زیادہ حقدار ہیں۔ مگر امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ نکال کر اپنے ہی عزیزوں کو نہ ڈھونڈتے پھرو۔
(۲) زکوٰۃ صرف مسلمان کا حق ہے ، غیر مسلم کا حق نہیں ہے۔ حدیث میں زکوٰۃ کی تعریف یہ آئی ہے کہ تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَاءِ کُمْ وَ تُرَدُّ فِیْ فُقَرَاءِکُمْ ’’یعنی وہ تمہارے مال داروں سے لی جائے گی اور تمہارے ہی فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔‘‘ البتہ غیر مسلم کو عام خیرات میں سے حصہ دیا جاسکتا ہے ، بلکہ عام خیرات میں یہ تمیز کرنا اچھا نہیں ہے کہ مسلمان کو دی جائے اور کوئی غیر مسلم مدد کا محتاج ہو تو اس سے ہاتھ روک لیا جائے۔
(۳) امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ ہر بستی کی زکوٰۃ اسی بستی کے غریبوں میں صرف ہونی چاہیے۔ ایک بستی سے دوسری بستی میں بھیجنا اچھا نہیں ہے، الا یہ کہ وہاں کوئی حقدار نہ ہو یا دوسری جگہ کوئی ایسی مصیبت آگئی ہو کہ دور و نزدیک کی بستیوں سے مدد پہنچنی ضروری ہو، جیسے سیلاب یا قحط وغیرہ۔ قریب قریب یہی رائے امام مالکؒ اور امام سفیان ثوریؒ کی بھی ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ زکوٰۃ بھیجنا ناجائز ہے۔
(۴) بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ جس شخص کے پاس دو وقت کے کھانے کا سامان ہو اسے زکوٰۃ نہ لینی چاہیے۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ جس کے پاس ۱۰ روپے اور بعض فرماتے ہیں کہ جس کے پاس ½۱۲ روپے موجود ہوں اسے زکوٰۃ نہ لینی چاہیے۔ لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور تمام حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ جس کے پاس پچاس روپے سے کم ہوں وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے۔ اس میں مکان اور گھر کا سامان اور گھوڑا اور خادم شامل نہیں ہیں۔ یعنی یہ سب سامان رکھتے ہوئے بھی جو شخص پچاس روپے سے کم مال رکھتا ہو وہ زکوٰۃ لینے کا حق دار ہے۔ اس معاملے میں ایک چیز تو ہے قانون، اور دوسری چیز ہے درجۂ فضیلت۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ درجۂ فضیلت تو یہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جو شخص صبح و شام کی روٹی کا سامان رکھتا ہو وہ اگر سوال کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اپنے حق میں آگ جمع کرتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں اس کو پسند کرتا ہوں کہ ایک شخص لکڑیاں کاٹے اور اپنا پیٹ بھرے بہ نسبت اس کے کہ سوال کے لیے ہاتھ پھیلاتا پھرے۔ تیسری حدیث میں ہے کہ جس کے پاس کھانے کو ہو یا جو کمانے کی طاقت رکھتا ہو اس کا یہ کام نہیں ہے کہ زکوٰۃ لے۔ لیکن یہ اولوا العزمی کی تعلیم ہے۔ رہا قانون تو اس میں ایک آخری حد بتانی ضروری ہے کہ کہاں تک آدمی زکوٰۃ لینے کا حقدار ہوسکتا ہے۔ سو وہ دوسری حدیثوں میں ملتا ہے۔ مثلاً آپؐ نے فرمایا کہ لِلسَّائِلِ حَقٌّ وَاِنْ جَآءَ عَلَی الْفَرَسِ ۔ یعنی سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آیا ہو۔ ایک شخص نے حضورؐ سے عرض کیا کہ میرے پاس دس روپے ہیں، کیا میں مسکین ہوں؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ ایک مرتبہ دو آدمیوں نے آکر حضورؐ سے زکوٰۃ مانگی۔ آپ ؐ نے نظر اٹھا کر انہیں غور سے دیکھا، پھر فرمایا، اگر تم لینا چاہتے ہو تو میں دے دوں گالیکن اس مال میں غنی اور کمانے کے قابل ہٹے کٹے لوگوں کا حصہ نہیں ہے۔ ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بقدرِ نصاب مال سے کم رکھتا ہو وہ فقراء کے ذیل میں آ جاتا ہے اور اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ زکوٰۃ لینے کا حق دراصل اصلی حاجتمندوں ہی کو پہنچتا ہے۔
زکوٰۃ کے ضروری احکام میں نے بیان کر دیے ہیں۔ لیکن ان سب کے ساتھ ایک اہم اور ضروری چیز اور بھی ہے جس کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور مسلمان آج کل اس کو بھول گئے ہیں۔ و ہ یہ ہے کہ اسلام میں تمام کام نظامِ جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انفرادیت کو اسلام پسند نہیں کرتا۔ آپ مسجد سے دور ہوں اور الگ نماز پڑھ لیں تو ہو جائے گی، مگر شریعت تو یہی چاہتی ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ اسی طرح نظامِ جماعت نہ ہو تو الگ الگ زکوٰۃ نکالنا اور خرچ کرنا بھی صحیح ہے، لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ زکوٰۃ کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے تا کہ وہاں سے وہ ایک ضابطے کے ساتھ خرچ ہو۔ اسی چیز کی طرف قرآن مجید میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپؐ ان سے زکوٰۃ وصول کریں، مسلمانوں سے یہ نہیں فرمایا کہ تم زکوٰۃ نکال کر الگ الگ خرچ کردو۔ اسی طرح عاملین زکوٰۃ کا حق مقرر کرنے سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا امام اس کو باقاعدہ وصول کرے اور باقاعدہ خرچ کرے۔ اسی طرح نبیﷺ نے فرمایا: اُمِرْتُ اَنْ اٰخُذَ الصَّدَقَۃَ مِنْ اَغْنِیَاءِ کُمْ وَاَرُدَّھَا فِیْ فُقَرَاءِکُمْ۔ یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کروں اور تمہارے فقراء میں تقسیم کر دوں۔ اسی طریقے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا عمل بھی تھا۔ تمام زکوٰۃ حکومتِ اسلامی کے کارکن جمع کرتے تھے اور مرکز کی طرف سے اس کو تقسیم کیا جاتا تھا۔ آج اگر اسلامی حکومت نہیں ہے اور زکوٰۃ جمع کر کے باضابطہ تقسیم کرنے کا انتظام بھی نہیں ہے تو آپ علیحدہ علیحدہ اپنی زکوٰۃ نکال کر شرعی مصارف میں خرچ کرسکتے ہیں، مگر تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ زکوٰۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے ایک اجتماعی نظام بنانے کی فکر کریں، کیوں کہ اس کے بغیر زکوٰۃ کی فرضیت کے فوائد ادھورے رہ جاتے ہیں۔