Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے قرآن
(۱) ترجمان القرآن کی تنقید
(۲) مصنّف کا جواب
(۳) ’’ترجمان القرآن‘‘ کا جواب الجواب
(۴) ایک دوسرے اہلِ قلم کی طرف سے مصنّف کے نظریہ کی تائید
(۵) ترجمان القرآن کا آخری جواب{ FR 5521 }
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے حدیث
مزارعت کا مسئلہ
اِصلاح کے حدود اور طریقے

مسئلہ ملکیتِ زمین

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

(۳) ’’ترجمان القرآن‘‘ کا جواب الجواب

آپ نے اس مسئلہ میں خلطِ مبحث کر دیا اور میرے اعتراض کا کوئی جواب نہ دیا۔ آپ نے وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ سے یہ مسئلہ نکالا تھا کہ اس آیت کی رُو سے زمین کی شخصی ملکیت جائز نہیں ہے۔ اس پر میرا اعتراض دو پہلوئوں سے تھا۔
ایک یہ کہ نظامِ تمدن میں ایسی انقلاب انگیز بنیادی تبدیلی کہ زمین کو اشخاص و افراد کی مِلک سے نکال کر اجتماعی ملک بنا دیا جائے۔ اگر فی الحقیقت قرآن کے پیش نظر ہوتی اور یہی اس کا منشا ہوتا تو وہ اسے محض اُس طرح کے اشاروں میں بیان نہ کرتا جن سے آپ یہ مضمون نکال رہے ہیں بلکہ وہ صاف صاف الفاظ میں پرانے دستور کو بند کرنے کا حکم دیتا اور آیندہ کے لیے واضح طور پر تھا تاکہ زمین سے انتفاع کی کیا صورت وہ رائج کرنا چاہتا ہے۔
دوسرے یہ کہ اگر قرآنِ مجید کا منشا یہی تھا تو آں حضرتa نے اس کے مطابق عمل کیوں نہیں کیا؟ آں حضرتa کی بعثت کا تو اصل مقصد ہی یہ تھا کہ عقائد، اَخلاق، معاشرت، تمدن ، معیشت، سیاست، غرض انسانی زندگی کے ہرشعبے کو قرآنی احکام کے مطابق ڈھال کر دنیا کو اسلامی نظام کا نمونہ عملاً دکھاد یں۔ ظاہر ہے کہ آں حضورaحالات کی بندگی کرنے کے لیے نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ خدا کی بندگی کے لیے بھیجے گئے تھے۔ آپؐ کا کا دنیا کی روش پر چلنا نہ تھا، بلکہ دنیا کی روش کو بدل کر قرآن کی بتائی ہوئی روش پر چلانا تھا۔ اب اگر ایک طرف آپؐ کے قول کے مطابق یہ مان لیا جائے کہ قرآن کا مقصد زمین کی شخصی ملکیت کو مٹانا تھا ، اور دوسری طرف اس ناقابلِ انکار حقیقت کی طرف نظر کی جائے کہ رسول اللہa نے ملکیت ِ شخصی کے پُرانے نظام کو مٹایا نہیں بلکہ اسی کو برقرار رکھا، تو لامحالہ دو باتوں میں سے ایک بات ماننا پڑے گی۔ یا یہ کہ قرآن کے اس مقصد سے آں حضرتa خود بے خبر تھے ۔ یا یہ کہ حضوؐر کو اس کا علم تھا مگر آپؐ نے قرآنِ مجید کے اس حکم پر عمل نہ کیا اور قرآنِ مجید کے بتائے ہوئے دستور پر اس دستور کو ترجیح دی جورضائے الٰہی کے خلاف دنیا میں رائج چلا آرہا تھا۔ فرمایئے، ان دونوں پہلوئوں میں سے کون سا پہلو آپ اختیار کرتے ہیں؟
یہ تھے میرے اعتراضات، مگر آپ نے ان کی طرف سرے سے کوئی توجہ ہی نہ فرمائی اور قرآن کے متعلق اپنے زاویۂ نگاہ کی تشریح شروع کر دی۔ اس پر بھی صبر کیا جاسکتا تھا اگر آپ کی اس تشریح سے معاملہ کچھ سلجھ جاتا۔ لیکن افسوس ہے کہ اس نے معاملہ کو اور زیادہ اُلجھا دیا۔
آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہم قرآن کو ایک مکمل کتاب سمجھتے ہیں‘‘۔ بڑی خوشی کی بات ہے مگر ایسی مکمل کتاب تصنیف کرنے کی یہ سزا تو اللہ تعالیٰ کو نہ دیجیے کہ اس کی آیتوں، اور آیتوں کے بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے انھیں وہ معنی پہنانا شروع کردیں جو نہ صرف اُس سلسلۂ کلام سے، بلکہ پورے قرآن کی تعلیم ہی سے کوئی مناسبت نہ رکھتے ہوں۔ یہ طریقۂ تعبیروتاویل دنیا کی کسی تقریر و تحریر اور کسی عبارت کے معاملہ میں بھی صحیح نہیں ہے، کجا کہ خدا کی کتاب کو اس کا تختۂ مشق بنایا جائے۔ اگر میں آپ ہی کے مضمون میں سے کسی فقرے کو الگ نکال کر اس سے معنی نکالنے کا وہ طریقہ برتوں جو آپ نے قرآن سے معنی نکالنے کے لیے اختیار فرمایا ہے، تو آپ خود پکار اُٹھیں گے کہ یہ مجھ پر اور میری تحریر پر ظلم ہے۔ کلامِ الٰہی تو بے شک کلامِ فطرت ہے، مگر اس کی تفسیر کا جو طریقہ آپ نے اختیار فرمایا ہے وہ تو یقینا خلافِ فطرت ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ انسانی معاشرت کے مسائل میں قبضۂ زمین کے مسئلے کو خاص اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ اس کی بدولت انسانی برادری میں دولت کی تقسیم نہایت غیرمساویانہ طریقہ پر ہوئی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کا حل قرآن نے کیا ہو۔ بالکل بجا ہے۔ واقعہ یہ مسئلہ زندگی کے مسائل میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بڑی معقول بات ہے کہ اس کا حل معلوم کرنے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کیا جائے۔ مگر اس کے لیے معقول طریق کار یہ ہے کہ آپ خود قرآن ہی سے پوچھیں کہ تقسیم دولت کے متعلق اس کا نظریہ کیا ہے۔ وہ مساویانہ تقسیم کرنا چاہتا ہے یا منصفانہ؟ وہ غیرمساویانہ تقسیم کو مٹانا چاہتا ہے یا غیرمنصفانہ تقسیم کو؟ پھر جو بھی اس کا نظریہ ہے اس کے لحاظ سے وہ زمین کے بارے میں شخصی ملکیت کے پرانے دستور کو بالکل بدل ڈالنا چاہتا ہے یا اسے برقراررکھ کر اس کے اندر کوئی اصلاح تجویز کرتا ہے؟ ان مسائل کا کوئی جواب اپنی طرف سے قرآن کے منہ میں ڈالنے کے بجائے آپ کو یہ تحقیق کرنا چاہیے کہ اس کا اپنا جواب کیا ہے۔ اس کے جواب پر آپ کا اطمینان ہو تو اسے قبول کیجیے۔ نہ اطمینان ہو تو اسے ردّ کر دیجیے جو دوسرا حل آپ کے نزدیک صحیح ہو اس کی تبلیغ کیجیے اور صاف صاف کہیے کہ قرآن کا حل میرے نزدیک غلط ہے اور اس کے مقابلہ میں یہ حل میرے نزدیک صحیح ہے۔ لیکن اس معقول طریقہ کی بجائے آپ دولت کی تقسیم کا نظریہ اور طریقہ تو لیتے ہیں مارکس اور لینن سے، اور پھر زبرستی اسے لاکر ڈالتے ہیں قرآن میں، اور اس طرح دُنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ اشتراکیت کا نظریہ نہیں بلکہ قرآن کا نظریہ ہے۔ اس صریح زیادتی پر کوئی آپ کو ٹوکتا ہے تو آپ اسے یہ لیکچر دیتے ہیں کہ باوا آدم کے زمانہ میں پانی کا استعمال کسی اور طرح ہوتا تھا اور اب کسی اور طرح ہوتا ہے؟ اس وجہ سے قرآن کا طریق استعمال بھی اب بدل کر کچھ سے کچھ ہوگیا ہے!
آپ کا ارشاد ہے کہ بے شک سورئہ رحمٰن میں تو وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ کا فقرہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اظہار ہی کے لیے فرمایاہے، مگرہمارے نزدیک اس قدرتِ الٰہی کا شکریہ یہ ہے کہ ہم اس کے مطابق عمل کریں، ’’یعنی ساری زمین کو سب ’انام‘ (مخلوقات) کی مشترک ملکیت بنا دیں‘‘۔{ FR 5519 } بڑے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ اگر آیاتِ قرآنی میں تصرف کا یہ تکلف دولت کی غیرمساویانہ تقسیم ہی کو مٹانے کے لیے فرمایا گیا ہے تو اس مقصد کے لیے سورئہ رحمٰن کی اس آیت کے بجائے سورئہ بقرہ کی وہ آیت اچھی تختہ مشق ثابت ہوسکتی تھی جس میں اللہ تعالیٰ یہ کہہ گزرے ہیں کہ:
خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا
’’پیدا کیا تمھارے لیے وہ سب کچھ جو زمین میں ہے‘‘۔
اس آیت پر اگر آپ اپنا طریقِ تفسیر استعمال فرماتے تو اس سے یہ حکم نکل سکتا تھا کہ نہ صرف زمین بلکہ روپیہ، پیسہ (جس میں آپ نے بھولے سے قانونِ میراث کے اجرا کو تسلیم کرلیا ہے)، روٹی، کپڑا، برتن، جانور (جن پر شخصی ملکیت کا حق تسلیم کرنے کی غلطی بھی آپ سے سرزد ہوگئی ہے) مکان، سواری، غرض سب ہی کچھ شخصی ملکیت سے نکال کر اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے۔ اس تدبیر سے ایک ہی دَہلا میں دولت کی غیرمساوی تقسیم کا قصہ بھی پاک ہوجاتا اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی اَدھورا نہ رہ جاتا۔
آپ کا یہ نظریہ بھی بڑا ہی عجیب و غریب ہے کہ قرآن کا منشا متعین کرنے کے لیے نبیa کے عمل کو فیصلہ کُن نہ مانا جائے۔ مَیں نے جو عرض کیا تھا کہ ہمیں کسی آیت سے کوئی قانون اخذ کرتے ہوئےیہ بھی دیکھنا چاہیے کہ نبیa کے زمانہ میںاس پر عمل درآمد ہوا ہے یا نہیں، اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’کسی عہد کی تاریخ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا‘‘۔ یہ جواب ارشاد فرماتے وقت شاید آپ نے غور نہیں کیا کہ اس کے منطقی نتائج کیا ہیں۔ اگر ہم ایک طرف یہ بات مان لیں کہ قرآن کا اصل منشا زمین کو شخصی ملکیتوں سے نکال کر اجتماعی ملکیت بنادینا تھا، اور دوسری طرف اس امرِواقعہ کو دیکھیں کہ یہ کام نہ رسول اللہa نے اپنے زمانۂ حکومت میں کیا، نہ خلفائے راشدینؓ نے اپنے دور میں کیا، نہ صحابہؓ، تابعینؒ، اَئمہ مجتہدین اور پچھلے تیرہ سو برس کے فقہائے اُمت میں سے کسی نے اس کا خیال تک ظاہر کیا، تو لامحالہ پھر ہمیں دو باتوں میں سے ایک بات ماننا پڑے گی۔ یا تو یہ کہ قرآن کو اس کے لانے والے پیغمبرؐ سے لے کر پوری اُمت مسلمہ کے علما و فقہا اور اَئمہ تک کسی نے نہ سمجھا، اور اس کے فہم کی سعادت نصیب ہوئی تو مارکس، اینجلز، لینن اور اسٹالین کو ہوئی۔ یا پھر قرآنِ مجید کے منشا کو سمجھ تو گئے رسولؐ اور صحابہؓ بھی، مگر عمل کی توفیق ان کی بجائے روس کے اشتراکی کامریڈوں کو نصیب ہوئی۔ قرآن کے منشا کا مسئلہ عہدرسالتؐ کی تاریخ سے حل نہ ہوگا تو پھر وہ یوں حل ہوگا۔ کیا واقعی آپ اس پر راضی ہیں؟

شیئر کریں