اعتراض: آپ نے یہ دلیل دی ہے کہ خدا نے ’’کتاب وحکمت‘‘ دونوں کو منزّل من اللّٰہ کہا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حکمت سے مراد سُنّت یا حدیث۔ آپ کی اس قرآن دانی پر جس قدر بھی ماتم کیا جائے، کم ہے۔ بندہ نواز، کتاب وحکمت میں واو عطف کی نہیں (جس کے معنی ’’اور‘‘ ہوتے ہیں‘) یہ وائو تفسیری ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت خود قرآن میں موجود ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کو خود حکیم (حکمت والا) کہا ہے۔ يٰسۗo وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِo یٰسین 1-2:36 دوسری جگہ الکتٰب کو الحکیم کہا ہے۔ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ لقمان 2:31
جواب: منکرین حدیث اس غلط فہمی میں ہیں کہ حرف وائو کے معنی لینے میں آدمی کو پوری آزادی ہے، جہاں چاہے اسے عاطفہ قرار دے لے اور جہاں چاہے تفسیری کہہ دے، لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ عربی زبان ہی میں نہیں، کسی زبان کے ادب میں بھی الفاظ کے معنی متعین کرنے کا معاملہ اس طرح الل ٹپ نہیں ہے۔ وائو کو تفسیری صرف اسی صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ دو لفظ جن کے درمیان یہ حرف آیا ہو، باہم مترادف المعنی ہوں، یا قرینے سے یہ معلوم ہو رہا ہو کہ قائل انھیں مترادف قرار دینا چاہتا ہے۔ یہی اردو زبان میں لفظ ’’اور‘‘ کے استعمال کا طریقہ ہے کہ اسے تفسیری صرف اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ وہ دو ہم معنی الفاظ کے درمیان آئے۔ جیسے کوئی شخص کہے ’’یہ جھوٹ اور افترا ہے۔‘‘ لیکن جہاں یہ صورت نہ ہو وہاں وائو کا استعمال یا تو دو الگ الگ چیزوں کو جمع کرنے کے لیے ہو گا، یا عام کو خاص پر، یا خاص کو عام پر عطف کرنے کے لیے ہو گا۔ ایسے مقامات پر وائو کے تفسیری ہونے کا دعوٰی بالکل مہمل ہے۔
اب دیکھیے! جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے اس کی رو سے تو ظاہر ہی ہے کہ کتاب اور حکمت مترادف الفاظ نہیںہیں، بلکہ دونوں دو الگ معنوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ رہا قرآن، تو اس کے استعمالات سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حکمت کو وہ کتاب کا ہم معنی قرار دیتا ہے۔ سورۂ نحل میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ 125:16 ’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دو‘‘ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے ساتھ دعوت دو؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق سورۂ زخرف میں فرمایا: قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَۃِ 63:43 ’’اس نے کہا میں تمھارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں‘‘ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب لے کر آیا ہوں؟ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہےوَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا۰ۭ269:2 ’’جسے حکمت دی گئی اسے بڑی دولت دے دی گئی۔‘‘کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کتاب دی گئی؟ سورۂ لقمان میں حکیم لقمان کے متعلق فرمایا: وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَۃَ 12:31 ’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی‘‘ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ کتاب عطا کی تھی؟
دراصل قرآن میں کہیں بھی کتاب بول کر حکمت مراد نہیں لی گئی ہے اور نہ حکمت بول کر کتاب مراد لی گئی ہے۔ کتاب کا لفظ جہاں بھی آیا ہے، آیات الٰہی کے مجموعے کے لیے آیا ہے اور حکمت کا لفظ جہاں بھی آیا ہے، اس دانائی کے معنی میں آیا ہے جس سے انسان حقائق کے سمجھنے اور فکر وعمل میں صحیح رویہ اختیار کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ چیز کتاب میں بھی ہو سکتی ہے، کتاب کے باہر بھی ہو سکتی ہے، اور کتاب کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔ کتاب کے لیے جہاں ’’حکیم‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس کے معنی یہ تو ضرور ہیں کہ کتاب کے اندر حکمت ہے، مگر یہ معنی نہیں ہیں کہ کتاب خود حکمت ہے یا حکمت صرف کتاب میں ہے اور اس کے باہر کوئی حکمت نہیں ہے۔
لہٰذا رسول اللّٰہ ﷺ پرکتاب اور حکمت نازل ہونے کا یہ مطلب لینا درست نہیں ہو گا کہ حضورﷺ پر صرف کتاب نازل کی گئی، بلکہ اس کے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ آپ پر کتاب کے ساتھ وہ دانائی بھی نازل کی گئی جس سے آپ اس کتاب کا منشا ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور انسانی زندگی میں اس کو بہترین طریقے سے نافذ کرکے دکھا دیں۔ اسی طرح یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آپ صرف کتاب کے الفاظ پڑھوا دیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ لوگوں کو کتاب کا مطلب سمجھائیں اور انھیں اس دانش مندی کی تعلیم وتربیت دیں جس سے لوگ دُنیا کے نظامِ زندگی کو کتاب اللّٰہ کے منشا کے مطابق ڈھالنے کے قابل ہو جائیں۔