اعتراض: آپ نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں صرف وہی وحی درج ہے جو حضرت جبریل کی وساطت سے حضورﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ پہلے تو یہ فرمائیے کہ آپ کو یہ کہاں سے معلوم ہو گیا کہ رسول اللّٰہ کی طرف کوئی وحی حضرت جبریل کی وساطت کے بغیر بھی آتی تھی؟ دوسرے غالباً آپ کو اس کا علم نہیں کہ جس وحی کو آپ جبریل کی وساطت کے بغیر وحی کہتے ہیں (یعنی حدیث) اس کے متعلق حدیث کو وحی ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اسے بھی جبریل لے کر اسی طرح نازل ہوتے تھے جس طرح قرآن کو لے کر ہوتے تھے (ملاحظہ فرمائیے جامع بیان العلم) اس لیے آپ کا یہ بیان خود آپ کے گروہ کے نزدیک بھی قابل قبول نہیں۔
جواب: یہ عجیب مرض ہے کہ جس بات کا ماخذ بار بار بتایا جا چکا ہے اسی کے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ اس کا مآخذ کیا ہے۔ سورۂ شورٰی کی آیت ۵۱ جس پر ابھی ڈاکٹر صاحب خود بحث کر آئے ہیں اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ انبیا پر وحی جبریل کی وساطت کے بغیر بھی نازل ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جامع بیان العلم کی شکل بھی نہیں دیکھی ہے اور یوں ہی کہیں سے اس کا حوالہ نقل کر دیا ہے۔ اس کتاب میں تو حسان بن عطیہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ کَانَ الْوَحْیُ یَنْزِلُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَحْضُرُہ‘ جِبْرِیْلُ بالسنۃ الَّتِیْ تُفْسِرُ ذَالِکَ۔ یعنی رسول اللّٰہ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی اور جبریل آ کر اس کی توضیح کرتے اور اس پر عمل کا طریقہ بتاتے تھے‘‘۔ اس سے یہ مطلب کہاں نکلا کہ ہر وحی جبریل ہی لاتے تھے؟ اس سے تو صرف یہ بات نکلتی ہے کہ جبریل قرآن کے سوا دوسری وحیاں بھی لاتے تھے۔ جبریل بھی لاتے‘ اور جبریل ہی لاتے کا فرق سمجھنا کوئی بڑا مشکل کام نہیں ہے۔