اعتراض: جو وحی انبیائے کرام کو ملتی تھی اس کی مختلف قسموں کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں آیا۔ نہ ہی قرآن میں کہیں یہ ذکر آیا ہے کہ قرآن صرف ایک قسم کی وحی کا مجموعہ ہے اور باقی اقسام کی وحییں جو رسول اللّٰہ کو دی گئی تھیں وہ کہیں اور درج ہیں۔ اس کے برعکس رسول اللّٰہﷺ کی زبان مبارک سے خود قرآن کریم میں یہ کہلوایا گیا ہے کہ وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ الانعام 19:6 ’’میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا۔‘‘ کیا قرآن میں کسی ایک جگہ بھی درج ہے کہ میری طرف قرآن وحی کیا گیا اور اس کے علاوہ اور وحی بھی ملی ہے جو اس میں درج نہیں۔ اصل یہ ہے کہ آپ وحی کی اہمیت کو سمجھے ہی نہیں۔ وحی پرایمان لانے سے ایک شخص مومن ہو سکتا ہے اور یہ ایمان تمام وکمال وحی پر ایمان لانا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وحی کے ایک حصے پر ایمان لایا جائے اور دوسرے حصے پر ایمان نہ لایا جائے۔
جواب: اس بات کا ثبوت اس سے پہلے اسی مراسلت کے سلسلے میں دیا جا چکا ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی حضورﷺ پر وحی کے ذریعے سے احکام نازل ہوتے تھے (ملاحظہ ہو، کتاب ہذا میں عنوان: کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟)۔ رہا یہ سوال کہ اس دوسری قسم کی وحی پر ایمان لانے کا حکم کہاں دیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا دراصل ایمان بالرسالت کا ایک لازمی جزو ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے علاوہ اپنے رسول پر ایمان لانے کا جو حکم دیا ہے وہ خود اس بات کا مقتضی ہے کہ رسول جو ہدایت وتعلیم بھی دیں اس پر ایمان لایا جائے، کیوں کہ وہ من جانب اللّٰہ ہے۔مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۰ۚ النساء80:4 ’’جس نے رسولﷺ کی اطاعت کی اس نے اللّٰہ کی اطاعت کی۔‘‘ وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْاالنور54:24 ’’اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پائو گے۔‘‘اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ۰ۭ الانعام90:6 ’’یہ انبیا وہ لوگ ہیں جن کو اللّٰہ نے ہدایت دی ہے، پس تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو‘‘۔
شاید ڈاکٹر صاحب کو معلوم نہیں ہے کہ متعدد انبیا ایسے گزرے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں کی گئی۔ کتاب تو کبھی نبی کے بغیر نہیں آئی، لیکن نبی کتاب کے بغیر بھی آئے ہیں اور لوگ ان کی تعلیم وہدایت پر ایمان لانے اور اس کا اتباع کرنے پر اسی طرح مامور تھے جس طرح کتاب اللّٰہ پر ایمان لانے اور اس کا اتباع کرنے کا انھیں حکم دیا گیا تھا۔ خود کتاب لانے والے انبیا(علیھم السلام) پر بھی اول روز ہی سے وحی متلو نازل ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات کا نزول اس وقت شروع ہوا جب وہ فرعون کے غرق ہو جانے کے بعد بنی اسرائیل کو لے کر طور کے دامن میں پہنچے۔ (ملاحظہ ہو: سورۂ اعراف رکوع ۱۶۔۱۷، آیات ۱۴۲۔۱۵۱، سورۂ قصص آیات ۴۰۔ ۴۳)
زمانۂ قیام مصر میں ان پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی، لیکن اس کے باوجود فرعون اور مصر کا ہر باشندہ ان باتوں پر ایمان لانے کے لیے مامور تھا جنھیں وہ اللّٰہ کی طرف سے پیش کرتے تھے، حتّٰی کہ انھی پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے وہ اپنے لشکروں سمیت مستحق عذاب ہوا۔
منکرین حدیث کو اگر اس چیز کے ماننے سے انکار ہے تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ قرآن کی موجودہ ترتیب کے من جانب اللّٰہ ہونے پر آپ ایمان رکھتے ہیں یا نہیں؟ قرآن میں خود اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ یہ کتاب پاک بیک وقت ایک مرتب کتاب کی شکل میں نازل نہیں ہوئی ہے، بلکہ اسے مختلف اوقات میں بتدریج تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا ہے (بنی اسرائیل۱۷: ۱۰۶، الفرقان۲۵:۳۲)۔ دوسری طرف قرآن ہی میں یہ صراحت بھی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اسے مرتب کرکے پڑھوا دینے کا ذمہ خود لیا تھا۔ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗo فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗo القیامہ 17-18:75 اس سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب براہ راست اللّٰہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت ہوئی ہے، نبیﷺ نے اسے اپنی مرضی سے خود مرتب نہیں کر لیا ہے۔ اب کیا کسی شخص کو قرآن میں کہیں یہ حکم ملتا ہے کہ اس کی سورتوں کو اس ترتیب کے ساتھ پڑھا جائے اور اس کی متفرق آیتوں کو کہاں کس سیاق وسباق میں رکھا جائے؟ اگر قرآن میں اس طرح کی کوئی ہدایت نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو لامحالہ کچھ خارج از قرآن ہدایات ہی حضورﷺ کو اللّٰہ تعالیٰ سے ملی ہوں گی جن کے تحت آپ نے یہ کتاب پاک اس ترتیب سے خود پڑھی اور صحابہ کرامؓ کو پڑھوائی۔ مزید برآں اسی سورۂ قیامہ میں اللّٰہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗo القیامہ 19:75 ’’پھر اس کا مطلب سمجھانا بھی ہمارے ذمے ہے۔‘‘ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے احکام وتعلیمات کی جو تشریح وتعبیر حضورﷺ اپنے قول وعمل سے کرتے تھے وہ آپ کے اپنے ذہن کی پیداوار نہ تھی، بلکہ جو ذات پاک آپ پر قرآن نازل کرتی تھی وہی آپ کو اس کا مطلب بھی سمجھاتی تھی اور اس کے وضاحت طلب امور کی وضاحت بھی کرتی تھی۔ اسے ماننے سے کوئی ایسا شخص انکار کیسے کر سکتا ہے جو قرآن پر ایمان رکھتا ہو۔