اعتراض: آپ نے وحی خداوندی کی مختلف اقسام کے ثبوت میں سورۃ الشورٰی کی آیت ۵۱ پیش فرمائی ہے اس کا ترجمہ آپ نے یہ کیا ہے:
کسی بشر کے لیے یہ نہیں ہے کہ اللّٰہ اس سے گفتگو کرے مگر وحی کے طریقے پر یا پردے کے پیچھے سے، یا اس طرح کہ ایک پیغام بر بھیجے اور وہ اللّٰہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ اللّٰہ چاہتا ہو، وہ برتر اور حکیم ہے۔
اول تو آپ نے (میری قرآنی بصیرت کے مطابق) اس آیت کے آخری حصے کے معنی ہی نہیں سمجھے۔ میں اس آیت سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں اللّٰہ تعالیٰ صرف انبیائے کرام سے ہم کلام ہونے کے طریقوں کے متعلق بیان نہیں کر رہا بلکہ اس میں بتایا یہ گیا ہے کہ اس کا ہر بشر کے ساتھ بات کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حضرات انبیائے کرام اور دوسرے غیر نبی انسان۔ اس آیت کے پہلے دو حصوں میں حضرات انبیائے کرام سے کلام کرنے کے دو طریقوں کا ذکر ہے۔ ایک طریقے کو وحی سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے مطلب ہے قلبِ نبویﷺ پر وحی کا نزول جو حضرت جبریل کی وساطت سے ہوتا تھا اور دوسرا طریقہ تھا براہ راست خدا کی آواز جو پردے کے پیچھے سے سنائی دیتی تھی اور اس کا خصوصی ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تذکرے میں ملتا ہے۔ اس کے متعلق قرآن کریم میں وضاحت سے ہے کہ وَكَلَّمَ اللہُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًاo النسائ 164:4 اور دوسرے مقام پر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی خواہش ظاہر کی کہ جو ذات مجھ سے یوں پس پردہ کلام کرتی ہے میں اسے بے نقاب دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس حصے کا یہ مفہوم لینا کہ انبیائے کرام کو خوابوں کے ذریعے وحی ملا کرتی تھی، کسی طرح بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ آیت کے تیسرے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ عام انسانوں سے خدا کا بات کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان کی طرف رسول بھیجتا ہے۔ اس رسول کی طرف خدا وحی کرتا ہے اور رسول اس وحی کو عام انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر ہم جب قرآن کریم پڑھتے ہیں تو خدا ہم سے باتیں کر رہا ہوتا ہے۔
جواب: قرآنی بصیرت کا جو نمونہ یہاں پیش فرمایا گیا ہے اس کا طول وعرض معلوم کرنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید میں سورۂ شورٰی کا پانچواں رکوع نکال کر دیکھ لیجیے۔ جس آیت کے یہ معنی ڈاکٹر صاحب بیان فرما رہے ہیں، ٹھیک اس کے بعد والی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِيْ بِہٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا۰ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَہْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo الشوری 52:42
اور اسی طرح (اے نبیؐ) ہم نے وحی کی تمھاری طرف اپنے فرمان کی روح، تم کو پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے، مگر ہم نے اس کو ایک نور بنا دیا جس کے ذریعے سے ہم راہ نُمائی کرتے ہیں جس کی چاہتے ہیں اپنے بندوں میں سے، اور یقینا تم راہ نُمائی کرتے ہو راہ راست کی طرف۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ آیت کا کوئی حصہ بھی عام انسانوں تک خدا کی باتیں پہنچنے کی صورت بیان نہیں کر رہا ہے، بلکہ اس میں صرف وہ طریقے بتائے گئے ہیں جن سے اللّٰہ تعالیٰ اپنے نبی تک اپنی بات پہنچاتا ہے۔ فرمان خداوندی پہنچنے کے جن تین طریقوں کا اس میں ذکر کیا گیا ہے انھی کی طرف اس آیت میں وَکَذٰلِکَ (اور اسی طرح) کا لفظ اشارہ کر رہا ہے یعنی اللّٰہ تعالیٰ رسول اللّٰہ ﷺ سے فرما رہا ہے کہ انھی تین طریقوں سے ہم نے اپنے فرمان کی روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاسے مراد جبریل امین نہیں لیے جا سکتے، کیوں کہ اگر وہ مراد ہوتے تو اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کہنے کے بجائے اَرْسَلْنَا اِلَیْک فرمایا جاتا۔ اس لیے ’’فرمان کی روح‘‘ سے مراد وہ تمام ہدایات ہیں جو مذکورہ تین طریقوں سے حضورﷺ پر وحی کی گئیں۔ پھر آخری دو فقروں میں واقعات کی ترتیب یہ بتائی گئی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کی راہ نُمائی اس نور سے کر دی جو ’’روح فرمان‘‘ کی شکل میں اس کے پاس بھیجا گیا، اور اب وہ بندہ صراط مستقیم کی طرف لوگوں کی راہ نُمائی کر رہا ہے۔
تاہم اگر سیاق وسباق کو نظر انداز کرکے صرف اسی ایک آیت پر نگاہ مرکوز کر لی جائے جس کی تفسیر ڈاکٹر صاحب فرما رہے ہیں تب بھی اس کا وہ مطلب نہیں نکلتا جو انھوں نے اس سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ وہ آیت کے تیسرے حصے کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ عام انسانوں کی طرف رسول بھیجتا ہے، رسول کی طرف خدا وحی کرتا ہے اور رسول اس وحی کو عام انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں: اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِـاِذْنِہٖ مَا يَشَاۗءُ۰ۭ الشوریٰ 51:42 (یا بھیجے ایک پیغام بر پھر وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو وہ چاہے)۔ اس فقرے میں اگر ’’رسول‘‘ سے مراد فرشتے کے بجائے بشر رسول لیا جائے تو اس کے معنی یہ بن جائیں گے کہ رسول عام انسانوں پر وحی کرتا ہے۔ کیا واقعی عام انسانوں پر انبیا علیہم السلام وحی کیا کرتے تھے؟ وحی کے تو معنی ہی اشارۂ لطیف اور کلام خفی کے ہیں۔ یہ لفظ نہ تو ازروئے لغت اس تبلیغ کے لیے استعمال ہوسکتا ہے جو انبیا علیہم السلام خلقِ خدا کے درمیان علانیہ کرتے تھے اور نہ قرآن ہی میں کہیں اسے اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں تو رسول کا لفظ صاف طور پر اس فرشتے کے لیے استعمال ہوا ہے جوانبیا کے پاس وحی لاتا تھا۔ اسی کی پیغام بری کو وحی کرنے کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور کیا جا سکتا ہے۔