اعتراض: ساری بحث کا مدار اس سوال پر ہے کہ کیا رسول اللّٰہ ﷺ پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ ساری کی ساری قرآن کریم میں درج ہو گئی ہے، یا قرآن میں صرف وحی کا ایک حصہ داخل ہوا ہے اور دوسرا حصہ درج نہیں ہوا۔ آپ کا جواب یہ ہے کہ وحی کی دو (بلکہ کئی) قسمیں تھیں۔ ان میں سے صرف ایک قسم کی وحی قرآن میں درج ہوئی ہے۔ باقی اقسام کی وحییں قرآن میں درج نہیں ہوئی ہیں۔ میں آپ کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ نے تفہیمات جلد اوّل میں یہ لکھا ہے:
اس میں شک نہیں کہ اصولی قانون قرآن ہی ہے مگر یہ قانون ہمارے پاس بلاواسطہ نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ رسول خدا کے واسطے سے بھیجا گیا ہے اور رسول کو درمیانی واسطہ اس لیے بنایا گیا ہے کہ وہ اصولی قانون کو اپنی اور اپنی امت کی عملی زندگی میں نافذ کرکے ایک نمونہ پیش کر دیں اور اپنی خداداد بصیرت سے ہمارے لیے وہ طریقے متعین کر دیں جن کے مطابق ہمیں اس اصولی قانون کو اپنی اجتماعی زندگی اور انفرادی برتائو میں نافذ کرنا چاہیے۔({ FR 6823 }) (ص ۲۳۷)
وحی کی خصوصیت یہ ہے اور اسی خصوصیت کی بِنا پر وہ منزّل من اللّٰہ کہلاتی ہے کہ اس میں اس فرد کی بصیرت کو کوئی دخل نہیں ہوتا جس پر وہ وحی بھیجی جاتی ہے۔ جس ’’وحی‘‘ کی رو سے رسول اللّٰہ ﷺ نے قرآن کے اصولی قانون کے عملی طریقے متعین فرمائے تھے، اگر وہ واقعی وحی منزّل من اللّٰہ تھی تو اس میں حضورﷺ کی بصیرت کو کوئی دخل نہیں ہو سکتا تھا اور اگر حضورﷺ نے اپنی بصیرت سے تجویز فرمایا تھا تو وہ وحی نہیں تھی۔ رسول کی اپنی بصیرت کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو وہ خدا کی وحی نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے آپ یہ کہہ دیں کہ میں نے ’’خدا داد بصیرت‘‘ کہا ہے اور انسانی بصیرت اور خداداد بصیرت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اگر آپ کا یہ جواب ہے تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو جو بصیرت ملی ہے، وہ خداداد ہے، یا کسی اور کی عطا کردہ؟ ہر انسانی بصیرت خداداد ہی ہوتی ہے۔
جواب: یہاں ڈاکٹر صاحب نے لفظ وحی کے معنی سمجھنے میں پھر وہی غلطی کی ہے جس پر میں نے اپنے آخری خط میں ان کو متنبہ کر دیا تھا۔ (ملاحظہ ہو کتاب ہذا میں عنوان: وحی سے مراد کیا چیز ہے؟)
یہ منکرین حدیث کے بے نظیر اوصاف میں سے ایک نمایاں وصف ہے کہ آپ ان کی ایک غلطی کو دس مرتبہ بھی مدلل طریقے سے غلط ثابت کر دیں، پھر بھی وہ اپنی بات دہراتے چلے جائیں گے اور آپ کی بات کا قطعًا کوئی نوٹس نہ لیں گے۔
’’خداداد بصیرت‘‘ سے میری مراد کوئی پیدائشی وصف نہیں ہے جس طرح ہر شخص کو کوئی نہ کوئی پیدائشی وصف ملا کرتا ہے بلکہ اس سے مراد وہی وہبی بصیرت ہے جو نبوت کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ نے فرائض نبوت ادا کرنے کے لیے حضور ﷺ کو عطا فرمائی تھی، جس کی بِنا پر حضورﷺ قرآن کے مقاصد کی ان گہرائیوں تک پہنچتے تھے جن تک کوئی غیر نبی نہیں پہنچ سکتا، جس کی روشنی میں آپ اِسلام کی راہ راست پر خود چلتے تھے اور دوسروں کے لیے نشانات راہ واضح کر دیتے تھے۔ یہ بصیرت لازمۂ نبوت تھی جو کتاب کے ساتھ ساتھ حضورﷺ کو عطا کی گئی تھی تاکہ آپ کتاب کا اصل منشا بھی بتائیں اور معاملات زندگی میں لوگوں کی راہ نُمائی بھی کریں۔ اس بصیرت سے غیر انبیا کی بصیرت کو آخر کیا نسبت ہے؟غیر نبی کو جو بصیرت بھی اللّٰہ سے ملتی ہے، خواہ وہ قانونی بصیرت ہو یا طبی بصیرت یا کاریگری وصَنَّاعی اور دوسرے علوم وفنون کی بصیرت، وہ اپنی نوعیت میں اس نور علم وحکمت اور اس کمال فہم وادراک سے بالکل مختلف ہے جو نبی کو کار نبوت انجام دینے کے لیے عطا کیا جاتا ہے۔ پہلی چیز خواہ کتنی ہی اونچے درجے کی ہو، بہرحال کوئی یقینی ذریعہ علم نہیں ہے کیوں کہ اس بصیرت کے ذریعے سے ایک غیر نبی جن نتائج پر بھی پہنچتا ہے ان کے متعلق وہ قطعًا نہیں جانتا کہ یہ نتائج وہ خدا کی راہ نُمائی سے اخذ کر رہا ہے یا اپنی ذاتی فکر سے۔ اس کے برعکس دوسری چیز اسی طرح یقینی ذریعۂ علم ہے جس طرح نبی پر نازل ہونے والی کتاب یقینی ذریعۂ علم ہے۔ اس لیے کہ نبی کو پورے شعور کے ساتھ یہ علم ہوتا ہے کہ یہ راہ نُمائی خدا کی طرف سے ہو رہی ہے لیکن منکرین حدیث کو نبی کی ذات سے جو سخت عناد ہے، اس کی وجہ سے نبی کے ہر فضل وشرف کا ذکر انھیں سیخ پا کر دیتا ہے اور وہ یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ نبی میں اور عام دانش مند انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسے اگر کوئی امتیاز حاصل ہے تو وہ صرف یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی ڈاک بندوں تک پہنچانے کے لیے اس کو نامہ بر مقرر کر دیا تھا۔