اعتراض: ایک سوال یہ بھی سامنے آیا تھا کہ سُنّت قرآنی احکام واصول کی تشریح ہے یا وہ قرآنی احکام کی فہرست میں اضافہ بھی کرتی ہے؟ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن نے جن باتوں کا اصولی طور پر حکم دیا، سُنّت نے ان کی جزئیات متعین کر دیں۔ یہ نہیں کہ کچھ احکام قرآن نے دئیے اور اس فہرست میں سُنّت نے مزید احکام کا اضافہ کر دیا۔ اگر ایسی صورت ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ قرآنی احکام نے جو فہرست دی وہ ناتمام تھی، سُنّت نے مزید اضافے سے اس فہرست کی تکمیل کردی۔ لیکن آپ نے جہاں ایک جگہ پہلی صورت بیان کی ہے دوسرے مقام پر دوسری شکل بھی بیان کر دی ہے حالانکہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔
آپ تھوڑی سی سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان سے بھی پوچھیے کہ (بقول آپ کے) رسول اللّٰہﷺ کا یہ ارشاد کہ پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کو جمع کرنا بھی حرام ہے، قرآن کے حکم (یعنی دو بہنوں کو جمع کرنا حرام ہے) کی توضیح وتشریح ہے یا محرمات کی قرآنی فہرست میں اضافہ ہے۔ ہر سمجھ دار شخص (بشرطیکہ وہ آپ کی طرح ضدی نہ ہو، یا تجاہل عارفانہ نہ کرتا ہو) یہ کہہ دے گا کہ یہ فہرست میں اضافہ ہے۔ اس سے یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جہاں قرآنی فہرست میں پھوپھیوں، خالائوں، بھانجیوں، رضاعی مائوں اور بہنوں، بیویوں کی مائوں اور بیٹوں کی بیویوں حتّٰی کہ پالی ہوئی لڑکیوں تک کا ذکر کر دیا ہے، اور یہ بھی کہہ دیا کہ دو بہنوں کو اکٹھا نہیں کرنا چاہیے، وہاں کیا اللّٰہ تعالیٰ کو (معاذ اللّٰہ) یہ کہنا نہیں آتا تھا کہ پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی کو بھی اکٹھا نہیں کیا جا سکتا۔
جواب: اس ساری تقریر کا جواب یہ ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ شارح قرآن بھی تھے اور خدا کے مقرر کردہ شارع بھی۔ ان کا منصب یہ بھی تھا کہلِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ النحل 44:16 لوگوں کے لیے خدا کے نازل کردہ احکام کی تشریح کریں‘‘ اور یہ بھی کہ يُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ الاعراف 157:7 ’’پاک چیزیں لوگوں کے لیے حلال کریں اور ناپاک چیزوں کو ان پرحرام کر دیں‘‘ اس لیے حضور ﷺ جس طرح قرآن کے قانون کی تشریح کرنے کے مجاز تھے اور آپ کی تشریح سند وحجت تھی، اسی طرح آپ تشریع کے بھی مجاز تھے اور آپ کی تشریع سند وحجت تھی۔ ان دونوں باتوں میں قطعًا کوئی تضاد نہیں ہے۔
رہا پھوپھی اور خالہ کا معاملہ، تو منکرین حدیث اگر کج بحثی کی بیماری میں مبتلا نہ ہوتے تو ان کی سمجھ میں یہ بات آسانی سے آ سکتی تھی کہ قرآن نے جب ایک عورت کو اس کی بہن کے ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا تو اس سے مقصود مَحبّت کے اس تعلق کی حفاظت کرنا تھا جو بہن اور بہن کے درمیان فطرتاً ہوتا ہے اور عملًا ہونا چاہیے۔ نبی ﷺ نے بتایا کہ یہی علّت باپ کی بہن اور ماں کی بہن کے معاملے میں بھی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا پھوپھی اور بھتیجی کو، اور خالہ اور بھانجی کو بھی نکاح میں جمع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ خواہ تشریح تعبیر ہو، یا استنباط یا تشریع۔ بہرحال خدا کے رسولﷺ کا حکم ہے اور آغاز اِسلام سے آج تک تمام امت نے بالاتفاق اسے قانون تسلیم کیا ہے۔ خوارج کے ایک فرقے کے سوا کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا اور اس فرقے کا استدلال بعینہٖ وہی تھا جو منکرین حدیث کا ہے کہ یہ حکم چوں کہ قرآن میں نہیں ہے، لہٰذا ہم اسے نہیں مانتے۔
دوسری بحثیں جو ڈاکٹر صاحب نے اس سلسلے میں اُٹھائی ہیں، وہ سب قلتِ علم اور قلتِ فہم کا نتیجہ ہیں۔ شریعت کے اہم اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک معاملے میں جو چیز علت حکم ہو رہی ہو وہی اگر کسی دوسرے معاملے میں پائی جائے تو اس پر بھی وہی حکم جاری ہو گا مثلاً: قرآن میں صرف شراب (خمر) کو حرام کیا گیا تھا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس میں علت حکم اس کا نشہ آور ہونا ہے، اس لیے ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ اب صرف ایک کم علم اورنادان آدمی ہی یہ سوال اُٹھا سکتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا منشا اگر یہ تھا تو کیا قرآن میں بھنگ، چرس، تاڑی وغیرہ تمام مسکرات کی فہرست نہیں دی جا سکتی تھی؟