فَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْــتَہٰى فَلَہٗ مَا سَلَـفَ۰ۭ وَاَمْرُہٗٓ اِلَى اللہِ۰ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَo يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍo البقرہ 275,276:2
لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آجائے تو وہ جو کچھ پہلے کھا چکا سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور جو اس کے حکم کے بعد پھر اس حرکت کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے، اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ سود خور نے پہلے کھالیا اسے اللہ معاف کر دے گا بلکہ ارشاد یہ فرمایا کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’جو کھا چکا سو کھا چکا‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھا چکا اسے معاف کر دیا گیا، بلکہ اس سے مخصوص قانونی رعایت مراد ہے۔ جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے اس کو واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا، کیوں کہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے جو کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی شخص نے سودی کاروبار سے سمیٹا ہو۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہوگا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطۂ نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہو چکا ہوگا تو وہ خود اپنی اس دولت کو جو حرام ذرائع سے آئی تھی اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حقداروں کا پتہ چلایا جاسکتا ہے جن کا مال اس کے پاس ہے اس حد تک ان کا مال انہیں واپس کر دے اور جس حصۂ مال کے مستحقین کی تحقیق نہ ہوسکے اسے اجتماعی فلاح و بہبود پر صرف کرے۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لطف اٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے۔
اس آیت میں ایک ایسی صداقت بیان کی گئی ہے جو اخلاقی اور روحانی حیثیت سے بھی سراسر حق ہے اور معاشی اور تمدنی حیثیت سے بھی۔ اگرچہ بظاہر سود سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ سود اخلاقی و روحانی اور معاشی و تمدنی ترقی میں نہ صرف مانع ہوتا ہے بلکہ تنزل کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے برعکس صدقات سے (جن میں قرضِ حسن بھی شامل ہے) اخلاق و روحانیت اور تمدن و معیشت ہر چیز کو نشوونما نصیب ہوتا ہے۔
اخلاقی و روحانی حیثیت سے دیکھیے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سود دراصل خود غرضی، بخل، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کا نتیجہ ہے اور وہ انھی صفات کو انسان میں نشوونما بھی دیتا ہے۔ اس کے برعکس صدقات نتیجہ ہیں فیاضی، ہمدردی، فراخ دلی اور عالی ظرفی جیسی صفات کا، اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں۔ کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموعے کو بدترین اور دوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو؟
تمدنی حیثیت سے دیکھیے تو بادنیٰ تامل یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجائے گی کہ جس سوسائٹی میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں، کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے، ایک آدمی کی حاجتمندی کو دوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اٹھائے، اور مالدار طبقوں کا مفاد عامۃ الناس کے مفاد کی ضد ہو جائے، ایسی سوسائٹی کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی۔ اس کے افراد میں آپس کی محبت کے بجائے باہمی بغض و حسد اور بے دردی و بے تعلقی نشوونما پائے گی۔ اس کے اجزاء ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے۔ اور اگر دوسرے اسباب بھی اس صورت حال کے لیے مددگار ہو جائیں تو ایسی سوسائٹی کے اجزاء کا باہم متصادم ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس سوسائٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو، جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں، جس میں ہر شخص دوسرے کی حاجت کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے، اور جس میں باوسیلہ لوگ بے وسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں، ایسی سوسائٹی میں آپس کی محبت، خیر خواہی اور دلچسپی نشوونما پائے گی، اس کے اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ اور ایک دوسرے کے پشتیبان ہوں گے، اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا، اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی سوسائٹی کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی۔
اب معاشی حیثیت سے دیکھیے۔ معاشیات کے نقطۂ نظر سے سودی قرض کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ قرض جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے مجبور اور حاجت مند لوگ لیتے ہیں ۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت و صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے لیے کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں ۔ ان میں سے پہلی قسم کے قرض کو تو ایک دنیا جانتی ہے کہ اس پر سود وصول کرنے کا طریقہ نہایت تباہ کن ہے۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں مہاجن افراد اور مہاجنی ادارے اس ذریعے سے غریب مزدوروں، کاشتکاروں اور قلیل المعاش عوام کا خون نہ چوس رہے ہوں۔ سود کی وجہ سے اس قسم کا قرض ادا کرنا ان لوگوں کے لیے سخت مشکل بلکہ بسا اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔ پھر ایک قرض کو ادا کرنے کے لیے دوسرا اور تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں۔ اصل رقم سے کئی گنا سود دے چکنے پر بھی اصل رقم جوں کی توں موجود رہتی ہے۔ محنت پیشہ آدمی کی محنت کا بیشتر حصہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بھی کافی روپیہ نہیں بچتا۔ یہ چیزیں رفتہ رفتہ اپنے کام سے کارکنوں کی دلچسپی ختم کر دیتی ہے، کیوں کہ جب ان کی محنت کا پھل دوسرا لے اڑے تو وہ کبھی دل لگا کر کام نہیں کرسکتے۔ پھر سودی قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر اور پریشانی اس قدر گھلا دیتی ہے اور تنگدستی کی وجہ سے ان کے لیے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہو جاتا ہے کہ ان کی صحتیں کبھی درست نہیں رہ سکتیں۔ اسی سودی قرض کا حاصل یہ بھی ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں آدمیوں کا خون چوس چوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کی پیدائش دولت اپنے امکانی معیار کی نسبت بہت گھٹ جاتی ہے اور مآلِ کار میں خود وہ خون چوسنے والے افراد بھی اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے۔ کیوں کہ ان کی اس خود غرضی سے غریب عوام کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ان کی بدولت مال دار لوگوں کے خلاف غصے اور نفرت کا ایک طوفان دلوں میں اٹھتا اور گھٹتا رہتا ہے اور کسی انقلابی ہیجان کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو تک سے ہاتھ دھونے پڑ جاتے ہیں۔
رہا دوسری قسم کا قرض جو کاروبار میں لگانے کے لیے لیا جاتا ہے تو اس پر ایک مقررہ شرح سود کے عائد ہونے سے بے شمار نقصانات پہنچتے ہیں۔ ان میں سے چند نمایاں ترین یہ ہیں:
۱۔ جو کام رائج الوقت شرح سود کے برابر نفع نہ لاسکتے ہوں، چاہے وہ ملک اور قوم کے لیے کتنے ہی ضروری اور مفید ہوں، ان پر لگانے کے لیے روپیہ نہیں ملتا، اور ملک کے تمام مالی وسائل کا بہائو ایسے کاموں کی طرف ہو جاتا ہے جو بازار کی شرح سود کے برابر یا اس سے زیادہ نفع لاسکتے ہوں، چاہے اجتماعی حیثیت سے ان کی ضرورت اور ان کا فائدہ بہت کم ہو یا کچھ بھی نہ ہو۔
۲۔ جن کاموں کے لیے سود پر سرمایہ ملتا ہے خواہ وہ تجارتی کام ہوں یا صنعتی یا زراعتی، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس میں اس امر کی ضمانت موجود ہو کہ ہمیشہ تمام حالات میں اس کا منافع ایک مقررہ معیار، مثلاً پانچ چھ یا دس فیصدی تک یا اس سے اوپر اوپر ہی رہے گا اور کبھی اس سے نیچے نہیں گرے گا۔ اس کی ضمانت ہونا تو درکنار کسی کاروبار میں سرے سے اسی بات کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے کہ اس میں ضرور منافع ہی ہوگا، نقصان کبھی نہیں ہوگا۔ لہٰذا کسی کاروبار میں ایسے سرمائے کا لگنا جس میں سرمایہ دار کو ایک مقرر شرح کے مطابق منافع دینے کی ضمانت دی گئی ہو نقصان اور خطرے کے پہلوئوں سے کبھی خالی نہیں ہوسکتا۔
۳۔ چونکہ سرمایہ دینے والا نفع و نقصان میں شامل نہیں ہوتا، بلکہ صرف منافع اور وہ بھی ایک مقرر شرح منافع کی ضمانت پر روپیہ دیتا ہے، اس وجہ سے کاروبار کی بھلائی اور برائی سے اس کو کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ انتہائی خود غرضی کے ساتھ صرف اپنے منافع پر نگاہ رکھتا ہے، اور جب کبھی اسے ذرا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ منڈی پر کساد بازاری کا حملہ ہونے والا ہے، تو وہ سب سے پہلے اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرتا ہے۔ اس طرح کبھی تو محض اس کے خود غرضانہ اندیشوں کی بدولت دنیا پر کساد بازاری کا واقعی حملہ ہو جاتا ہے اور کبھی اگر دوسرے اسباب سے کساد بازاری آگئی ہو تو سرمایہ دار کی خود غرضی اس کو بڑھا کر انتہائی تباہ کن حد تک پہنچا دیتی ہے۔
سود کے یہ تین نقصانات تو ایسے صریح ہیں کہ کوئی شخص جو علمِ معیشت سے تھوڑا سا مس بھی رکھتا ہو ان کا انکار نہیں کرسکتا۔اس کے بعد یہ مانے بغیر کیا چارہ ہے کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے قانونِ فطرت کی رُو سے سود معاشی دولت کو بڑھاتا نہیں گھٹاتا ہے۔
اب ایک نظر صدقات کے معاشی اثرات و نتائج کو بھی دیکھ لیجئے۔ اگر سوسائٹی کے خوش حال افراد کا طریق کار یہ ہو کہ اپنی حیثیت کے مطابق پوری فراخ دلی کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات خریدیں، پھر جو روپیہ ان کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ بچے اسے غریبوں میں بانٹ دیں تا کہ وہ بھی اپنی ضروریات خرید سکیں، پھر اس پر بھی جو روپیہ بچ جائے اسے یا تو کاروباری لوگوں کو بلاسود قرض دیں، یا شرکت کے اصول پر ان کے ساتھ نفع و نقصان میں حصے دار بن جائیں، یا حکومت کے پاس جمع کرا دیں کہ اجتماعی خدمات کے لیے ان کو استعمال کرے، تو ہر شخص تھوڑ ے سے غور و فکر ہی سے اندازہ کرسکتا ہے کہ ایسی سوسائٹی میں تجارت اور صنعت اور زراعت ہر چیز کو بے انتہا فروغ حاصل ہوگا ۔ اس کے علاوہ افراد کی خوش حالی کا معیار بلند ہوتا چلا جائے گا اور اس میں بحیثیت مجموعی دولت کی پیداوار اس سوسائٹی کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہوگی جس کے اندر سود کا رواج ہو۔
پھر ایک پہلو اور بھی سامنے رہے۔ ظاہر ہے سود پر روپیہ وہی شخص چلا سکتا ہے جس کو دولت کی تقسیم میں اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ حصہ ملا ہو۔ یہ ضرورت سے زیادہ حصہ جو ایک شخص کو ملتا ہے قرآن کے نقطۂ نظر سے دراصل اللہ کا فضل ہے اور اللہ کے فضل کا صحیح شکریہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے بندے پر فضل فرمایا ہے اسی طرح بندہ بھی اللہ کے دوسرے بندوں پر فضل کرے۔( تفہیم القرآن، جلد اول، ص 213-216)