زکوٰۃ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تین جگہ الگ الگ احکام بیان فرمائے ہیں:
(۱) سورئہ بقرہ میں فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۰۠ البقرہ 267:2
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک مال تم نے کمائے ہیں اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہے اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرو۔
(۲) اور سورئہ انعام میں فرمایا کہ ہم نے تمہارے لیے زمین سے باغ اگائے اورکھیتیاں پیدا کی ہیں لہٰذا:
كُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ يَوْمَ حَصَادِہٖ۰ۡۖ الانعام 141:6
اس کی پیداوار جب نکلے تو اس میں سے کھائو اور فصل کٹنے کے دن اللہ کا حق نکال دو۔
یہ دونوں آیتیں زمین کی پیداوار کے متعلق ہیں، اور فقہائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ خودرَو پیداوار، مثلاً لکڑی اور گھاس اور پھونس کے سوا باقی جتنی چیزیں غلہ، ترکاری، پھلوں کی قسم سے نکلیں ان سب میں سے اللہ کا حق نکالنا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو پیداوار آسمانی بارش سے ہو اس میں اللہ کا حق دسواں حصہ ہے اور جو پیداوار انسان کی اپنی کوشش یعنی مصنوعی آبپاشی سے ہو اس میں اللہ کا حق بیسواں حصہ ہے اور یہ حصہ پیداوار کٹنے کے ساتھ ہی واجب ہو جاتا ہے۔
(۳) اس کے بعد سورئہ توبہ میں آتا ہے کہ:
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍo يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْہَا فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُكْوٰي بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ۰ۭ ہٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَo التوبۃ 34,35:9
اور جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور اس میں سے راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے ان کو دردناک عذاب کی خبر دے دو ۔ اس دن کے عذاب کی جب ان کے اس سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوئوں اور پیٹھوں پر داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، اب اپنے ان خزانوں کا مزہ چکھو۔
پھر فرمایا:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌo التوبہ 60:9
صدقات (یعنی زکوٰۃ) تو فقراء کے لیے اور مساکین کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو زکوٰۃ وصول کرنے اور تقسیم کرنے پر مقرر ہوں اور ان کے لیے جن کی تالیفِ قلب منظور ہو اور گردنیں چھڑانے کے لیے اور قرض داروں کے لیے اور راہِ خدا میں اور مسافروں کے لیے ہیں اللہ کی طرف سے فرض کے طور پر اور اللہ بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
اس کے بعد فرمایا:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا التوبہ 103:9
ان کے مالوں میں سے ایک زکوٰۃ وصول کر کے ان کو پاک اور صاف کر دو۔
ان تینوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ جو مال جمع کیا جائے اور بڑھایا جائے اور اس میں سے راہِ خدا میں صرف نہ کیا جائے وہ ناپاک ہوتا ہے۔ اس کے پاک کرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ اس میں سے خدا کا حق نکال کر اس کے بندوں کو دیا جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب سونا اور چاندی جمع کرنے والوں پر عذاب کی دھمکی آئی تو مسلمان سخت پریشان ہوئے۔ کیونکہ اس کے معنی تو یہ ہوتے تھے کہ ایک درہم بھی اپنے پاس نہ رکھو، سب خرچ کر ڈالو۔ آخرکار حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قوم کی پریشانی کا حال عرض کیا۔ آپؐ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو تم پر اسی لیے فرض کیا ہے کہ باقی اموال تمہارے لیے پاک ہو جائیں۔ ایسی ہی روایت حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تو نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دی تو جو حق تجھ پر واجب تھا وہ ادا ہوگیا۔
آیاتِ مذکورہ بالا میں تو صرف زمین کی پیداوار اور سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کا حکم ملتا ہے، لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارتی مال، اونٹ، گائے اور بکریوں میں بھی زکوٰۃ ہے۔
چاندی کا نصاب دو سو درہم یعنی ½ 52تولہ کے قریب ہے۔ سونے کا نصاب 7½ تولہ ۔ اونٹ کا نصاب 5 اونٹ، بکریوں کا نصاب 40 بکریاں۔ گائے کا نصاب 30 گائیں، اور تجارتی مال کا نصاب52½ تولے چاندی کے بقدر مالیت ہے۔
جس شخص کے پاس اتنا مال موجود ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں سے چالیسواں حصہ زکوٰۃ کا نکالنا واجب ہے۔ چاندی اور سونے کے متعلق حنفیہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ دونوں الگ الگ بقدرِ نصاب نہ ہوں لیکن دونوں مل کر کسی ایک کے نصاب کی حد تک اس کی قیمت پہنچ جائے تو ان میں سے بھی زکوٰۃ نکالنی واجب ہے۔
سونا اور چاندی اگر زیور کی صورت میں ہوں تو حضرت عمرؓ اور حضرت ابن مسعودؓ کے نزدیک ان کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قول لیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو عورتوں کے ہاتھ میں سونے کے کنگن دیکھے اور پوچھا کہ کیا تم ان کی زکوٰۃ نکالتی ہو؟ ایک نے عرض کیا کہ نہیں ۔ آپؐ نے فرمایا کیا تو اسے پسند کرے گی کہ قیامت کے روز اس کے بدلے آگ کے کنگن تجھے پہنائے جائیں؟ اسی طرح حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ میرے پاس سونے کی پازیب تھی۔ میں نے حضورؐ سے پوچھا کیا یہ کنز ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اگر اس میں سونے کی مقدار نصاب زکوٰۃ تک پہنچتی ہے اور اس میں سے زکوٰۃ نکال دی گئی ہے تو یہ کنز نہیں ہے۔ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سونا چاندی اگر زیور کی شکل میں ہوں تب بھی اسی طرح زکوٰۃ فرض ہے جس طرح نقد کی صورت میں ہونے پر ہے۔ البتہ جواہر اور نگینوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔