ینزل عیسیٰ ابن مریم حکماای حاکمابھذہ الشریعۃ ولاینزل برسالۃ مستقلۃ وشریعۃ ناسخۃ بل ہوحاکم بن حکام ھذا الامتہ۔
(شرح مسلم جلد۲‘ص۱۸۹)
عیسیٰ ابن مریم حکم بن کرنازل ہوںگے‘یعنی اس شریعت کے مطابق حکم کرنے والے ۔وہ کسی مستقل رسالت اورکسی ایسی شریعت کے ساتھ نازل نہ ہوں گے جوموجودہ شریعت کو منسوخ کرنے والی ہو‘بلکہ وہ اس اُمت کے حاکموں میںسے ایک حاکم ہوںگے۔‘‘
اسی کتاب میںایک دوسری جگہ امام نووی لکھتے ہیں:
وانکرذٰلک بعض المعتزلۃ الجھمیۃ ومن وافقھم وزعمواان ھذہ الاحادیث مردودۃ بقولہ تعالی وخاتم النبیین وبقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لانبی بعدی وباجماع المسلمین انہ لا نبی بعدنبیناوان شریعتہ موبدۃ الی یوم القیامتہ لاتنسخ ۔وھذااستدلال فاسدلانہ لیس المرادبنزول عیسیٰ انہ ینزل نبیابشرع ینسخ شرعنا‘ولافی ھذہ الاحادیث ولافی غیرھاشیء من ھذابل صحت ھذہ الاحادیث ھناوماسبق فی کتاب الایمان وغیرہاانہ ینزل حکمامقسطابحکم شرعناویحیی من امورشرعناماھجرہ الناس۔ (شرح مسلم جلد۱۸،ص ۷۵)
بعض معتزلہ اورجہمیہ اوران کے ہم خیال لوگوںنے اس کا(یعنی نزول عیسیٰ کا) انکارکیاہے اوریہ خیال ظاہرکیاہے کہ یہ حدیثیںناقابل قبول ہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ کے قول خاتم النبیین اوررسول خداﷺکے قول’’لانبی بعدی‘‘ اور مسلمانوںکے اس اجماع کے خلاف پڑتی ہیںکہ ہمارے نبی کے بعدکوئی نبی نہیںاورآپﷺ کی شریعت قیامت تک رہنے والی ہے، منسوخ ہونے والی نہیں ہے۔مگریہ استدلال غلط ہے‘کیونکہ عیسیٰ ؑ کے نزول سے یہ مرادنہیںہے کہ وہ نبی کی حیثیت سے ایک ایسی شریعت لے کرنازل ہوںگے جوہماری شریعت کومنسوخ کردے۔یہ بات نہ اس باب کی احادیث میںکہیں ہے اور نہ دوسری احادیث میں۔بلکہ ان احادیث اورکتاب الایمان وغیرہ میںگزری ہوئی دوسری احادیث سے یہ ثابت ہوتاہے کہ وہ ہماری شریعت کے مطابق حکم کرنے والے حاکم منصف بن کراتریںگے اورہماری شریعت کے ایسے امور کوزندہ وتازہ کریںگے جن کولوگوںنے چھوڑدیا۔