فیصلہ
نقل فیصلہ ازعدالت شیخ محمداکبرصاحب پی سی ایس ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی ‘ مورخہ ۳جون ۱۹۵۵ء دراپیل ہائے دیوانی نمبر۳۳‘۳۴‘۱۹۵۵ء ازمسماۃ امتہ الکریم بنام لیفٹیننٹ نذیرالدین ملک وازلیفٹیننٹ نذیرالدین بنام مسماۃ امتہ الکریم مقدمہ ہائی کورٹ نمبرآر۔ایس ۔اے ۴۰۸،۱۹۵۵ء
مسماۃ امتہ الکریم دخترکرم الٰہی (قوم لوہارازروئے بیان میاںعطاء اللہ وکیل اپیل کنندہ )مورخہ ۲۵/ستمبر۱۹۴۹ء کوبہ تقررمبلغ دوہزارروپیہ بطورمہرایک میٹریکولیٹ مسمی نذیر الدین (قوم بڑھئی مطابق بیان میاںعطاء اللہ)کے ساتھ بیاہی گئی تھی۔یہ نکاح مبینہ طور پر ایک حنفی مولوی سے پڑھوایاگیاتھا۔اپیل کنندہ کے دوسرے وکیل خواجہ احمداقبال کے بیان کی روسے مسمی نذیرالدین نے ایک بڑھئی اورمیٹریکولیٹ ہوتے ہوئے بھی جب اپنی خوش بختی کے باعث افواج پاکستان میںکمیشن حاصل کرلیاتواس نے سوچاکہ آئندہ جب افسر ان اعلیٰ کے ساتھ اس کے مراسم بڑھیںگے‘توایک لوہارکی بیٹی کاشوہرہونے کے باعث اس کی تذلیل ہوگی اورافسران کی نگاہ میںاسے ’’سوشل‘‘نہ سمجھاجائے گا۔چنانچہ اس نے مورخہ ۱۶/جولائی ۱۹۵۱ء کوایک باقاعدہ طلاق نامہ کے ذریعے سے اپنی بیوی کوطلاق دے ڈالی۔اس پرمسماۃ امتہ الکریم نے اپنے سابقہ شوہرلیفٹیننٹ نذیرالدین ملک کے خلاف مبلغ دوہزارروپیہ مہرکی وصولیابی کے لیے مقدمہ دائرکردیا۔اس کے علاوہ اس نے ایک اوردعویٰ مبلغ ۲۴۰۳روپے کی مالیت کے اس سامان جہیزکے بارے میںبھی کیاجوشادی کے موقع پراس کواپنے باپ سے ملاتھااورجواس کے سابقہ شوہرنے اپنے قبضہ میںرکھالیاتھا۔یہ مقدمہ (pauper suit)تھا۔لیفٹیننٹ نذیرالدین ملک نے مسماۃ امتہ الکریم کے عائدکردہ الزامات کوبے بنیادقراردیااورجہیزکے بارے میںبیان کیاکہ اول توسامان مذکورہ اس کے قبضہ ہی میںنہیںہے۔دوسرے مدعیہ نے ا س کی قیمت بھی غلط لگائی ہے۔مدعیہ کے مطالبہ مہرکے جواب میںیہ دلیل پیش کی گئی کہ اس نکاح کی انجام دہی چونکہ دھوکے اور فریب کے ذریعے سے ہوئی‘لہٰذایہ نکاح سرے ہی سے باطل تھا۔اس امرکاسبب یہ بیان کیا گیاکہ شادی کے موقع پرمدعیہ کومسلک حنفی کاپیروظاہرکیاگیاتھاحالانکہ دراصل وہ مرزاغلام احمدصاحب قادیانی کی پیروتھی اوریہ کہ اگرشادی کے طے پانے میںدھوکے اورفریب دہندگی کاثبوت نہ بھی ملے تب بھی یہ شادی ایک مسلمان اورغیرمسلم کے درمیان ہونے کے باعث باطل تھی۔اس طرح عذریہ پیش کیاگیاکہ ان واقعات کی بناپرمدعیہ حق مہرکے حصول کادعویٰ نہیںکرسکتی ۔اس مقدمہ میںیہ ایک متفق علیہ امرتھاکہ فریقین کی شادی واقعی عمل میں آئی اوردونوںکے ملاپ کاثمرہ پانچ سال کے لگ بھگ عمرکی ایک بچی کی صورت میں ظاہر ہے۔مسماۃ امتہ الکریم نے مدعاعلیہ کی طرف سے عائدکردہ الزام فریب دہندگی کی ترویدکی اورعدالت سماعت میںاس نے اپنے حنفی العقیدہ ہونے کااظہارکیا۔اس کے والد کرم الٰہی نے بھی عدالت سماعت میںاپنے حنفی مسلمان ہونے کااظہارکیاتاہم ساتھ ہی یہ بات بھی کہی گئی کہ ایک مسلمان مرداوراحمدی عورت کانکاح بالکل ہی باطل نہیںہوتاالبتہ زیادہ سے زیادہ اس کوناجائزکہاجاسکتاہے اوریہ کہ قانون کی نگاہ میںنکاح باطل کوئی حیثیت نہیں رکھتالیکن بطورخودناجائزشادیوںکی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں خاوندکومہرکی واجبی یامصرح رقم کی ادائیگی کرنی پڑی ہے جب کہ شادی واقع ہوچکی ہو۔
لیفٹیننٹ نذیرالدین نے یہ بھی بیان کیاکہ مدعیہ اپنے مہرکے حق سے دست بردار ہوچکی ہے۔کچھ اورضمنی نکات بھی اٹھائے گئے تھے چنانچہ فریقین کے دلائل سن کرعدالت سماعت نے مندرجہ ذیل اموربرائے بحث واضح کیے:
۱۔آیامدعیہ اورمدعاعلیہ کی شادی فریب اوردھوکہ دہی کے ذریعے سے عمل میںآئی کہ جس کے باعث مدعاعلیہ مدعیہ کومہرکی ادایگی کاذمہ دارنہیںرہا؟
۱۔(الف)کیامبینہ دھوکہ دہی کے عدم ثبوت کی صورت میںنکاح باطل ہی تھا نیز اس کااثردعویٰ مہر پرکیاپڑا؟
۲۔کیامدعیہ اپنے مطالبہ مہر سے دست بردار ہوچکی ہے؟
۳۔کیامدعیہ کے جہیزکاکوئی سامان مدعاعلیہ کے قبضہ میںموجودہے۔اگرہے توکتنی مالیت کا؟
۴۔ایساہونے کی صورت میںمدعیہ کس قسم کی امداداوررعایت کی مستحق ہے؟
مقدمہ کی سماعت اورکارروائی کے اختتام پرمیاںمحمدسلیم صاحب سینئرسول جج راولپنڈی نے اپنے فاضلانہ فیصلے مورخہ ۲۵مارچ ۱۹۵۴ء کے ذریعے سے مقدمہ طے کیا اور علاوہ دیگرباتوںکے حسب ذیل نتائج اخذکیے:
۱۔فریقین کی شادی کسی قسم کے فریب یادھوکہ دہی کے ذریعے سے طے نہیںپائی۔
۲۔مدعیہ اپنے حق مہرسے کبھی دست بردارنہیںہوئی۔
۳۔مدعیہ کاسامان جہیزمالیتی مبلغ ۲۴۰۳روپے مدعاعلیہ کے قبضہ میںہے۔
میںنے مدعیہ مسماۃ امتہ الکریم کی جانب سے میاںعطاء اللہ ایڈووکٹ اور مدعاعلیہ لیفٹنینٹ نذیر الدین ملک کی جانب سے مسٹرظفرمحمودایڈووکیٹ کی بحث اوردلائل سنے ہیں۔ مگران میں سے کسی نے میرے روبرومحولہ بالانتائج کی صحت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیںکہا۔عدالت سماعت کے اخذکردہ دیگرنتائج یہ ہیں:
(الف)قادیانیوںکواہل کتاب تصورنہیںکیاجاسکتا۔
(ب)مدعاعلیہ کے ساتھ شادی کے وقت مدعیہ مسماۃ امتہ الکریم قادیانی ہونے کے سبب غیرمسلم تھی۔
(ج)فریقین کانکاح مطلقاًناجائزاورباطل تھااورازدواجی تعلقات کے بعدبھی اسے جائزنہیںٹھہرایاجاسکتا۔
(د)مہرقانوناًقابل بازیابی ہے۔
اوپردئیے گئے نتائج اورمعلومات کی بناپرمیاںمحمدسلیم صاحب نے مسماۃ امتہ الکریم کے حق میںاس کے سابقہ شوہرسے مبلغ ۲۴۰۳روپے بابت مالیت سامان جہیزکے حصول کی ’جواس کے قبضہ میںتھا‘ڈگری دے دی مگراس کے دعویٰ حق مہرکوخارج کردیا۔اس فیصلہ ڈگری کے خلاف یہ دواپیلیںداخل کی گئی ہیں۔مسماۃ امتہ الکریم نے تواپنے مہر مبلغ۲۰۰۰ روپے کی وصولی کے لیے اپیل کی ہے اورلیفٹیننٹ نذیرالدین ملک کی اپیل سامان جہیزکی مالیت سے متعلق ڈگری سے چھٹکاراپانے کے لیے ہے۔ مختلف شہادتوں اور خصوصاً مسماۃ امتہ الکریم کے خطوط سے یہی ظاہرہوتاہے کہ وہ نکاح کے وقت قادیانی تھی لہٰذامیںعدالت سماعت کے اخذکردہ اس نتیجہ کی توثیق کرتاہوں۔
اپنی بحث کے آغازمیںاپیل کنندہ کے فاضل وکیل میاںعطاء اللہ نے بشمولہ اور باتوںکے درج ذیل امورپیش کیے ہیں:
۱۔مسلمانوںکااس امرپرکوئی اجماع نہیںہے کہ پیغمبراسلام محمدؐاللہ کے آخری نبی تھے اورآپ کے بعدکوئی نبی مبعوث نہیںہوگا۔
۲۔مسلمانوںکااس بات پربھی اجماع نہیںہے کہ جوشخص حضرت محمدؐکی ختم نبوت پرایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں۔
۳۔اورنہ ہی ان کااس بات پراجماع ہے کہ قادیانی احمدی غیرمسلم ہیں۔
عدالت سماعت کے فاضل جج مسئلہ زیربحث نمبر۱(الف)پربحث سننے کے بعداس نتیجہ پرپہنچے تھے کہ یہ مسلمانوںکابنیادی عقیدہ ہے کہ حضرت محمدؐسلسلہ انبیا کے آخری نبی تھے اورآپؐ کے بعدکوئی اورنبی نہیںہوگا۔ان کے اس عقیدے کی خاص بنیاد’’خاتم النبیین‘‘ کے وہ الفاظ ہیںجنھیں قرآن حکیم نے ہمارے نبی اکرم ؐکی ذات اقدس کے لیے استعمال کیاہے۔لیکن قادیانی حضرات ان الفاظ کو’’خاتم النبیین‘‘پڑھ کران کے معافی ’’نبیوںکے مہرکنندہ‘‘کے کرتے ہیں۔ان کے ہاںان الفاظ کی یہ تعبیراپنے اندرنبیوںکے ایک ایسے سلسلے کے جاری رہنے کی گنجائش رکھتی ہے جوآپؐ کے بعدآپؐ کی مہرلگ کرآتے رہیں گے۔ان کے عقیدے کے مطابق مرزاغلام احمدصاحب بھی اسی نوع کے انبیامیںسے تھے اوروہ قرآن حکیم سے علیحدہ کوئی کتاب لے کرمبعوث نہیںہوئے بلکہ ان کے ذمہ یہ فرض تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے مزیدالہامات کی روشنی میںاس کتاب کی تشریح وتوضیح کریں۔قادیانی اس طرح کے نبی کو’’ظلی‘‘یا’’غیرتشریعی‘‘نبی کہتے ہیں جوکہ’’تشریعی نبی‘‘یعنی نئی شریعت کے حامل نبی سے مختلف ہوتاہے۔اس موقع پرعدالت سماعت نے یہ ضروری خیال کیاکہ خود مرزاصاحب ہی کے مصنفہ ایک کتابچہ سے حوالے دے کریہ دکھایا جائے کہ مرزاصاحب کادعویٰ اصل میںکیاتھا؟
’’پہلے میراعقیدہ بھی یہی تھاکہ مجھے عیسیٰ ابن مریم ؑسے کوئی نسبت نہیںہوسکتی، آپ رسول تھے اورآپ مقربین خداوندی میںسے ہیںاورجب کبھی میری فوقیت جتانے کی خاطرمجھ پرکوئی نشانی ظاہرکی گئی تومیںنے اسے محض جزوی فوقیت ہی پرمحمول کیامگرجس وقت میرے اوپروحی الٰہی بارش کی طرح آناشروع ہوئی تومیںاپنے سابقہ عقیدے پرقائم نہ رہ سکاآخرکارمجھے صاف طورپراعزازنبوت بخش دیاگیا۔‘‘(حقیقۃ الوحی ص،۱۴۹،اورص،۱۵۰)
اس باب میںمرزاصاحب کے متبعین کے نظریہ کوواضح کرنے کے لیے دوسرے قادیانی خلیفہ مرزابشیرالدین محمودکے مندرجہ ذیل اقتباس کوپیش کرناضروری سمجھاگیا:
’’ہمارایہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوںکومسلمان نہ سمجھیںاورنہ ہی ان کی اقتدا ئمیں نمازیںپڑھیںکیونکہ ہمارے نزدیک وہ اللہ کے ایک نبی کے منکرہیں۔‘‘
(انوارخلافت ص،۹۰)
عدالت سماعت مزیداس نتیجہ پرپہنچی کہ نبوت کے بارے میںقادیانی نظریہ دوسرے مسلمانوںکے عقیدہ کے سراسرخلاف ہے۔
مدعیہ کے فاضل وکیل نے عدالت سماعت کے سامنے مقدمہ نمبراے۔آئی۔آر ۔ ۱۹۲۳ئ مدراس کی نظیربھی پیش کی ہے جس میںقادیانیوںکومسلمانوںہی کاایک فرقہ قرار دیا گیاہے۔لیکن اس نظریہ کی بنایہ تھی کہ مرزاغلام احمدصاحب کے اعلان نبوت کواتناقلیل عرصہ گزراتھاکہ یہ کہناممکن نہیںتھاکہ مسلمانوںکی رائے عام قادیانیوںکومسلمان کہنے کے خلاف ہے۔عدالت سماعت اس بات پربحث سے اس ہی نتیجہ پرپہنچی تھی کہ یہ بات بلاخوف وتردیدکہی جاسکتی ہے کہ احمدیوںکے علاوہ مسلمانوںکے ہرطبقہ خیال کے علمانے کسی نہ کسی موقع پرقادیانیوںکوغیرمسلم ہی قراردیاہے نہ کہ مسلمانوںمیںہی کاایک فرقہ۔ عدالت کے خیال میںیہ حقیقت ’’تنسیخ نکاح مرزائیاں‘‘نامی اس پمفلٹ سے اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے جو۱۹۲۵ء میں’’اہل حدیث‘‘امرتسرکے دفترسے شائع ہواتھااورجواسلام کے مختلف فرقوںکے جیدعلما کے فتووںپرمشتمل تھا۔اس مسئلہ کی اس سے بھی زیادہ وضاحت ۱۹۳۵ء کے مشہورمقدمہ مسماۃ عائشہ بنام عبدالرزاق میںفاضل ڈسٹرکٹ جج بہاول پورکے فیصلہ سے ہوجاتی ہے۔یہ فیصلہ کتابی شکل میںبھی شائع ہواتھا۔ اس میںقادیانیوں اور مسلمانوں کے متعدداختلافات پرفریقین اورفریقین کی جانب سے پیش کردہ مذہبی رہنمائوںکے بے شماردلائل اورفتوئوںکی روشنی میںسیرحاصل بحث کی گئی تھی۔اسی ضمن میںعدالت سماعت نے اس حقیقت کاعدالتی نوٹس لیناضروری سمجھاکہ قادیانیوںکے خلاف حالیہ ملک گیرایجی ٹیشن کے دوران احمدیوںکے سوامسلمانوںکے ہرمکتب فکرکے علماکی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میںانھوںنے متفقہ طورپراعلان کیاکہ عرف عام(In the accepted sense) میںقادیانی مسلمان نہیںہیں۔کیونکہ وہ ایک بالکل ہی جداگانہ دین کے پیر وہیں۔لہٰذااس موقع پریہ بات بلاتامل کہی جاسکتی ہے کہ مسلمانوںکے کامل اتفاق رائے کی روسے قادیانی غیرمسلم ہیں۔ایک اوربحث جومدعیہ کے فاضل وکیل نے چھیڑی، وہ یہ تھی کہ احمدی کم ازکم قرآن مجیدپرتوایمان رکھتے ہی ہیںلہٰذاانہیںاہل کتاب یامتبعین قرآن پاک کے زمرہ میںشامل کیاجاسکتاہے اور شریعت اسلامیہ میںمسلمان اوراہل کتاب کی شادی ناجائزنہیںہے اورایسی شادی کوازدواجی تعلقات ہوجانے کی صورت میں ’’قانوناً‘‘ تسلیم کیاجاتاہے اورشوہرپرمہرکی ادایگی واجب ہوجاتی ہے۔
یہاںعدالت سماعت نے یہ بات مزیداختیارکی کہ مدعاعلیہ کے فاضل وکیل نے شریعت اسلامیہ کے متذکرہ بالااصول سے توکوئی اختلاف نہیںکیالیکن ان کے نزدیک قادیانیوںکواہل کتاب بھی شمارنہیںکیاجاسکتا۔فریقین کے وکیل اس بات پرمتفق تھے کہ ’’اہل کتاب‘‘کی کوئی معین تعریف(definition)کہیںنہیںملتی۔اس اصطلاح کے لفظی معانی’’کسی الہامی کتاب کو ماننے والے‘‘کے ہیں۔مدعیہ کی جانب سے اس بات پر پورازورِبحث صرف کیاگیاکہ قادیانیوںکاچونکہ قرآن مجیدپرایمان ہے لہٰذاوہ اہل کتاب ہیںمگرایساکہنے سے قادیانیوںکوغیرمسلم قراردینے کے نظریہ کی بنیادہی منہدم ہو جاتی ہے کیونکہ اگرایک مرتبہ یہ تسلیم کرلیاجائے کہ قادیانی قرآن مجیدپرایمان رکھتے ہیں تو پھر انہیں غیرمسلم قراردینے کی کوئی معقول وجہ جوازباقی نہیںرہتی ۔مجھے یہ دلیل پسندنہ آئی۔عدالت سماعت نے مزیدکہاکہ درحقیقت واقعہ یہ ہے کہ قرآن پر قادیانیوں کاایمان مسلمانوںکی متفقہ تاویل وتشریح کے مطابق نہیںہے بلکہ اس کے برعکس وہ اپنی مطلب بر آری کے لیے قرآنی آیات کے مطالب کوتوڑمروڑ کرپیش کرتے ہیں۔اس وجہ سے انہیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھاجاتاہے۔نیزقادیانی قرآن مجیدپراس طرح ایمان نہیںرکھتے ہیںجیساکہ تیرہ سوسال سے اس پرایمان رہاہے اوروہ اس پراس طرح سے ایمان نہیں رکھتے جیساکہ نبی اکرمؐ نے پیش کیابلکہ مرزاغلام احمدکے پیش کردہ مطالب قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔یہ بات بلاشبہ درست ہے کہ عیسائیوںنے بھی اپنی الہامی کتاب یعنی انجیل میںتحریفیںکی ہیںلیکن اس کے باوجودان کواہل کتاب ہی سمجھاگیاہے لیکن اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کواللہ کانبی مانتے ہیںلہٰذااس حقیقت کے باوجودکہ مسلمانوںکی نگاہ میںعیسائیوںنے کتاب الٰہی میںتحریفات کیںانہیںاہل کتاب ہی سمجھاگیا۔عدالت سماعت کی نگاہ میں قادیانیوں کا معاملہ اس سے قطعاًمختلف ہے کیونکہ مسلمان مرزاغلام احمد صاحب کوہرگزخداکانبی تسلیم نہیںکرتے بلکہ نبوت کاجھوٹامدعی سمجھتے ہیں۔ایسے جھوٹے مدعی نبوت کے پیروئوںکوکسی تخیلی کاوش سے اہل کتاب قرار نہیں دیا جاسکتاخصوصاًایسی حالت میںجب کہ وہ قرآن پرانہی معنوںمیںایمان نہیںرکھتے جیسا کہ مسلمانوں کا سوادا عظم رکھتاہے ۔ جیسا کہ خودقرآن مجیدکے پہلے پارے میں ارشاد ہے کہ اس کتاب سے صرف وہی لوگ ہدایت پاسکتے ہیںجواس چیزپرایمان رکھتے ہوںجونبی اکرمؐ پرنازل ہوئی اوراس چیزپرجسے آپ سے پہلے کے انبیاپرنازل کیاگیا۔ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ۔عدالت سماعت کی رائے میںان الفاظ کی روسے یہ کتاب (قرآن)ان لوگوںکے لیے ہدایت کاکوئی سامان نہیںرکھتی جو آنحضرتؐ کی وفات کے بعدبھی کسی وحی کے آنے پراعتقادرکھتے ہوں۔اس کتاب پر قادیانیوںکاایمان چونکہ مرزاغلام احمدصاحب کے مزعومہ الہامات کے مطابق ہے لہٰذا عدالت کی نگاہ میںمدعیہ کے فاضل وکیل کے دلائل میںکوئی وزن نہیںاورقادیانی اہل کتاب بھی نہیںسمجھے جاسکتے۔ مدعیہ علیہ کے ساتھ شادی کے وقت غیرمسلم تھی اس لیے فریقین کی شادی قطعاًباطل تھی اور از دواجی تعلقات کاہونابھی اس کوجوازنہیںبخش سکتا،لہٰذامہر‘قانونی لحاظ سے ناقابل بازیابی ہے۔ یاد رہے کہ احمدیوںکی لاہوری شاخ مرزاصاحب کونبی نہیںمانتی بلکہ صرف مجددمانتی ہے۔
اس مقدمہ میںپیش آمدہ سوالات بڑے دوررس نتائج کے حامل ہیںاورروزمرہ کے واقعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ہماری معززعدالت عالیہ لاہورکی طرف سے ابھی تک کوئی ایسی قانونی سندیانظیرموجودنہیںجس میںاس نکتہ پرمستندفیصلہ کیاگیاہو۔مدعیہ کے فاضل وکیل میاںعطاء اللہ نے فسادات کی جس تحقیقاتی رپورٹ کاحوالہ دیاہے اورجس پر انحصار کیا ہے اس سے ظاہرہوتاہے کہ مرزاغلام احمدصاحب ضلع گورداس پورکے قادیان نامی ایک گائوںکے رہنے والے تھے۔انھوںنے فارسی اورعربی کی تعلیم گھرپرہی حاصل کی اوران کے مغربی تعلیم حاصل کرنے کاکوئی ثبوت نہیں ملتا۔ وہ ۱۸۶۴ء میںسیالکوٹ کی ضلع کچہری میںمحررمقررہوئے جہاںانھوںنے چارسال ملازمت کی۔مارچ ۱۸۸۲ء میںانھوںنے دعویٰ کیاکہ انہیںایک ’’الہام‘‘کے ذریعے بتایاگیاہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ایک خاص مشن پرمقررکیے گئے ہیں۔باالفاظ دیگروہ’’مامورمن اللہ‘‘ہیں۔۱۸۸۸ء میںایک اور الہام کے تحت اپنے وابستگان سے بیعت کامطالبہ کیااور۱۸۹۰ء کے اختتام کے قریب پھر ایک ’’الہام‘‘ہواجس میں بتایا گیاکہ مسیح ناصری یعنی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے نہ تو صلیب پروفات پائی اورنہ ہی انہیںآسمان پراٹھالیاگیاتھابلکہ ان کوان کے حواریوںنے زخمی حالت میںصلیب پرسے اتارلیاتھااورپھران کے زخم اچھے ہوگئے۔اس کے بعدآپ چھپ کرکشمیرچلے گئے جہاںآپ طبعی موت مرے اوریہ عقیدہ کہ وہ قیامت کے قریب اپنی اصل جسمانی حالت میںدوبارہ نزول فرمائیںگے،غلط ہے۔آپ کے ظہورثانی کے وعدہ کامطلب محض یہ ہے کہ ایک شخص عیسیٰ ابن مریم کی صفات کاحامل ہوگا ۔پیغمبراسلام ہی کی امت میںسے ظاہرہوگا،سواب اس وعدہ کی تکمیل خودمرزاصاحب کی بعثت کی صورت میںہوچکی ہے جومثل عیسیٰ ہونے کے سبب مسیح موعودہیں۔اس عقیدہ کی تشہیرسے مسلمان بھڑک اٹھے کیونکہ یہ ان کے اس مسلمہ عقیدے ،کہ عیسیٰ ابن مریم اپنی اصل جسمانی حالت میںآسمان سے دوبارہ ظہورفرمائیںگے ،کے خلاف تھا۔چنانچہ مسلمان علما میں اس نظریہ کے خلاف شدیدمخالفت پیداہوگئی۔پھراس کے بعدمرزاصاحب نے مہدی موعودہونے کادعویٰ بھی کردیا۔وہ مہدی نہیںجوجنگ وقتال کرے گابلکہ ایک ایسامہدی جواپنے دلائل سے مخالفین کوختم کردے گا۔۱۹۰۰ء میںمرزاصاحب نے ایک مزید عقیدہ لوگوںکے سامنے یہ پیش کیاکہ اب جہادبالسیف باقی نہیںبلکہ اب جہادصرف مخالفین کودلائل سے قائل کرنے کی کوششوںتک محدودہوگا۔۱۹۰۱ئ میں مرزاصاحب نے ’’ظلی‘‘ نبوت کادعویٰ کیااور’’ایک غلطی کاازالہ‘‘نامی اشتہارکے ذریعے عقیدہ ختم نبوت کی تشریح یوںکی کہ پیغمبراسلام کے بعدکوئی نبی ایسانہیںہوگاجونئی شریعت لے کرآئے لہٰذا کسی غیرتشریعی نبی کی آمدختم رسالت کے عقیدہ کے منافی نہیںہے۔نومبر۱۹۰۴ء میںسیالکوٹ کے ایک عام جلسے میںمرزا صاحب نے مثیل کرشن ہونے کادعویٰ بھی کیا۔
جماعت احمدیہ کی تاسیس ۱۹۰۱ء میںعمل میںآئی اوراس وقت مرزاصاحب ہی کی درخواست پرمردم شماری کے کاغذات میںاس جماعت کومسلمانوںکے ایک علیحدہ فرقہ کی حیثیت سے ظاہرکیاگیا۔
مرزاغلام احمدصاحب کے متبعین کے محولہ بالاچندمخصوص عقائداورنظریات نے مسلمانوں اور قادیانیوںکے درمیان شدیدمذہبی اختلافات کھڑے کردئیے۔تحقیقاتی عدالت کے معززججوںنے اپنی رپورٹ میںمزیدیہ کہاہے کہ احمدیہ فرقہ کے بانی مرز غلام احمد صاحب کے دعویٰ نبوت نے امت مسلمہ میںایک ہیجان برپاکردیا اور مسلمانوں کی رائے میںان کے اس عقیدے نے انہیںدائرہ اسلام سے قطعی خارج کردیا۔ایک عام طورپرتسلیم شدہ حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت اوررہنمائی کی خاطرجوانبیا مامورفرمائے ان کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزارہے اورمسلمان آنحضورؐ کوانبیاکے اس سلسلے کا آخری نبی مانتے ہیں۔ان انبیامیںسے بعض کے نام خاص طورپرقرآن حکیم اورانجیل میں بیان کیے گئے ہیں۔عقیدہ ختم نبوت کے یہ معانی کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرختم ہوگئی اورآپؐ کے بعدکوئی نبی نہیںہوگا۔قرآن مجیدکی مندرجہ ذیل آیات سے اخذ کیے جاسکتے ہیں۔
لوگو!محمد ؐ تمہارے مردوںمیںسے کسی کے باپ نہیںمگروہ اللہ کے رسول اورخاتم النبیین ہیںاوراللہ ہرچیزکاعلم رکھنے والاہے۔ الاحزاب 40:33
یادکرو!اللہ نے پیغمبروںسے عہدلیاتھاکہ ’’آج ہم نے تمہیںکتاب اورحکمت و دانش سے نوازاہے کل اگرکوئی دوسرارسول تمہارے پاس اس تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جوپہلے سے تمہارے پاس موجودہے توتم کواس پرایمان لاناہوگااوراس کی مددکرنی ہوگی‘‘یہ ارشادفرماکراللہ تعالیٰ نے پوچھا’’کیاتم اس کااقرارکرتے ہواوراس پرمیری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟‘‘انھوںنے کہاہاںہم اقرارکرتے ہیں۔اللہ نے فرمایا ’’اچھاتوگواہ رہواورمیںبھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ آل عمران 81:3
آج کافروںکوتمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے لہٰذاتم ان سے نہ ڈرو‘بلکہ مجھ سے ڈرو‘آج میںنے تمہارے دین کوتمہارے لیے مکمل کردیاہے‘اوراپنی نعمت تم پرتمام کردی ہے اورتمہارے لیے اسلام کوتمہارادین چن لیاہے۔ المائدہ 3:5
اس کے علاوہ متعدداحادیث اورقرون اولیٰ کی جن مستندتفاسیرسے استدلال کیا گیا ہے، وہ سب اس مطلب کی ہیںکہ ہمارے نبی اکرمؐ کے بعدکوئی نیانبی آنے والانہیں۔
لیفٹیننٹ نذیرالدین کے فاضل وکیل شیخ ظفرمحمودنے اپنی بحث میںرسالہ طلوع اسلام جولائی ۱۹۵۴ء پمفلٹ ’’نکاح مرزایاں‘‘رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ نومبر۱۹۵۳ء اور ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ازمولاناابوالاعلیٰ مودودی سے استدلال کیاہے۔
میاںعطاء اللہ نے رسالہ’’طلوع اسلام‘‘جولائی ۱۹۵۴ء ’’ختم نبوت کی حقیقت ‘‘ ازمرزابشیراحمدایم۔اے(برادرخوردمرزابشیرالدین محمودخلیفہ ثانی مرزاغلام احمدصاحب) ’’الحق ‘‘عرف مباحثہ لدھیانہ ’’ازبانی فرقہ احمدیہ‘‘،’’حقیقۃ الوحی‘‘ازبانی سلسلہ احمدیہ‘ فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء پرتحقیقاتی عدالت کی رپورٹ ‘مولاناابوالاعلیٰ مودودی کے قادیانی مسئلہ کاقادیانیوںکی طرف سے جواب’’تحقیقاتی عدالت میں مرزابشیرالدین محمودکابیان‘‘، ’’مقدمہ بہاولپور‘‘ازجلال الدین شمس احمد’’تصدیق احمدیت‘‘ازبشارت احمدوکیل حیدر آباد دکن ’’حقیقۃ الوحی‘‘چوتھاایڈیشن ۱۹۵۰ء تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پرایک نظر‘ازجلال الدین شمس صدرانجمن احمدیہ پاکستان کے مفصل حوالے پیش کیے ہیںانھوںنے میری توجہ خاص طورپرقادیانیوںکے اس نقطہ نظرکی جانب مبذول کرائی ہے جس کااظہاراحمدیہ کمیٹی کے فاضل وکیل مسٹرعبدالرحمن خادم نے تحقیقاتی عدالت کے روبروکیاتھا۔وہاںخادم صاحب نے قرآن مجیدکی حسب ذیل آیات سے استدلال کیاتھا۔
جواللہ اوررسول کی اطاعت کریںگے وہ ان لوگوںکے ساتھ ہوںگے‘جن پراللہ نے انعام فرمایاہے یعنی انبیا (جوتعلیم دیتے ہیں)اورصدیقین (جوصداقت کے شیدائی ہیں)اورشہدا (جوگواہی دیتے ہیں)اورصالحین(جونیک کام کرتے ہیں)کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جوکسی کومیسرآئیں۔ النسائ 89:4
اورجولوگ اللہ پراوراس کے رسولوںپرایمان رکھتے ہیںایسے ہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اورشہیدہیںان کے لیے ان کااجراوران کانورہوگااورجولوگ کافر ہوئے اورہماری آیتوںکوجھٹلایایہی لوگ دوزخی ہیں۔ الحدید 19:57
اے بنی آدم!یادرکھو‘اگرتمہارے پاس خودتم ہی میںسے ایسے رسول آئیںجو تمہیں میری آیات سنائیں‘توجوکوئی نافرمانی سے بچے گااوراپنی اصلاح کرلے گااس کے لیے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیںہے۔ الاعراب 37:7
اے نبیو!تمام پاکیزہ اوراچھی چیزوںسے مستفیدہو۔نیک کام کروکیونکہ جوکچھ تم کرتے ہومیںاس سے پوری طرح باخبرہوں۔ المومنون 91:32
بحث اوردلائل کے عمل سے مندرجہ بالاآیات سے یہ ثابت کرنے کی سعی کی گئی ہے کہ مستقبل میںیعنی آنحضرت ؐکے بعدبھی ایسی ہستیاںپیداہوتی رہیں گی جن پر’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘کے الفاظ کااطلاق ہوسکے گااوران دلائل کومزیدمضبوط بنانے کی خاطرکچھ احادیث‘کچھ تفاسیراورکچھ قابل احترام روحانی مرتبہ کے بزرگوںکے اقوال سے بھی استدلال کیاگیاہے۔اگرچہ اس بات کوتونہیںجھٹلایاگیاکہ مرزاغلام احمدصاحب نے اپنے لیے نبی کالفظ استعمال کیاتھاتاہم یہ بحث کی گئی ہے کہ انھوںنے اس لفظ کوایک مخصوص مفہوم میںاستعمال کیاتھانہ کہ اس کے اصطلاحی مفہوم میںاوروہ کوئی ایسے شخص نہیںتھے جواللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی تازہ پیغام لے کرآئے ہوںجوپہلے سے نازل شدہ کسی حکم کی ترمیم وتنسیخ کرتاہونیزان کادعویٰ ’’ظلی‘‘اور’’بروزی‘‘نبوت کاتھانہ کہ تشریعی نبوت کا۔ فریق مخالف نے اس بات پرزوردیاکہ’’بروزی‘‘اور’’ظلی‘‘جن کاترجمہ’’جسمانی ظہور‘‘ کیا جاسکتاہے اسلامی عقائدکے لیے اجنبی ہیںاورہروہ شخص جوایک ایسی چیزکے حامل ہونے کادعویٰ کرے جس کو’’وحی نبوت‘‘سے تعبیرکیاجاسکے بہرحال ایک نئی امت کی تشکیل کرتاہے اور آپ سے آپ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے۔چنانچہ مرزاغلام احمد صاحب‘ ان کے فرقہ کے موجودہ سربراہ اوراس فرقہ کے نمائندہ مصنفین کی متعددتحریروںکی مدد سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مرزاصاحب نے ایسے الہامات یاوحی پانے کادعویٰ کیاتھا جواللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرات انبیا کرام علیہم السلام کے لیے خاص ہے۔لہٰذااب ساری بحث سمٹ کراس سوال پرآجاتی ہے کہ آیامرزاصاحب نے کبھی ایسی وحی کی یابندگی کادعویٰ کیاجسے وحی نبوت سے موسوم کیاجاسکے؟ماضی میںجب بھی کوئی نبی آیااس نے لوگوںپرکہ جن کے درمیان اس کی بعثت ہوئی ایک ذمہ داری عائدکی(جس طرح ہمارے نبی اکرمﷺ نے ساری انسانیت پرآپ ﷺکے دعوے کوپرکھنے اوراس پرایمان لانے کی ذمہ داری ڈالی) اور اپنی نبوت کاانکارکرنے پرانہیںآخرت کے مواخذہ کامستحق ٹھہرایا۔لہٰذاوہ لوگ اپنے آپ کو مجبورپاتے ہیںکہ یاتواس کے دعوائے نبوت کوتسلیم کریںیاپھرکھلے بندوںاسے رد کردیں۔ ایسے کسی دعوے کوقبول کرنے والوں پرمشتمل ایک نئی مذہبی برادری معرض وجودمیںآجاتی تھی جسے پچھلے عقیدہ کے حامل لوگ اپنے سے خارج سمجھتے تھے اورنئی جماعت ان لوگوںکواپنی برادری سے باہر تصور کرنے لگتی تھی جواس کے نبی پرایمان نہیںلاتے تھے۔ مرزاصاحب نے بھی لوگوںکی طرف اسی ہدایت کے ساتھ اپناہاتھ بڑھایاکہ وہ اسے قبول کریںمگرمسلمانوںنے مرزاغلام احمدکے دعوائے نبوت کومسیلمہ کذاب کی مانندسمجھا۔ اپنی اولین تحریروں میں مرزا صاحب نے صاف صاف الفاظ میںیہ تسلیم کیاتھا کہ مسلمان ہونے کے لیے اسلام کے بنیادی عقائد پرایمان لاناضروری ہے۔اپنی کتاب ’’ایام صلح‘‘ میںاحمدیہ فرقہ کے بانی نے خودیہ تحریرکیاکہ اہل سنت کے بنیادی عقائد جن پرعام مسلمانوںکااجماع ہے‘اسلام ہے جس پرایمان لانے کے مسلمان پابند ہیں۔ ایک دوسری کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں انھوں نے لکھاکہ جوشخص شریعت سے سرموبھی تجاوز کرے اوران اصولوںکواپنانے سے انکار کرے جن پرامت کااجماع ہے تووہ اللہ ‘اس کے فرشتوں اورتمام انسانوںکی لعنت کا مستحق ہے۔اوران کااسی بات پرپختہ عقیدہ تھاپھر کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘کے صفحہ۲۳۰پر لکھتے ہیںکہ تواتر (جو لوگوں کا مسلسل عقیدہ رہاہو) کبھی غلط نہیںہوسکتا۔اس کے تھوڑے عرصہ بعدہی مرزاصاحب نے خوداپنی ہی نبوت کا دعویٰ کھڑاکردیا۔ان کی اس ’’نبوت‘‘کی نوعیت خودان کے اپنے اوران کے جانشینوں اور پیروکاروںکے اعلانات‘ہدایات اور تحریرات کی روشنی میںحسب ذیل ہے۔
۱۔’’حقیقۃ الوحی‘‘کے ایک الہام میںدعویٰ کیاکہ خدانے انہیں’’محمد‘‘اوررسول کے الفاظ سے خطاب فرمایاہے۔
۲۔اللہ تعالیٰ نے انہیںبتایاکہ قرآن وحدیث کی پیشین گوئیاںانہیںکے بارے میںہیںاورآیت’’ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی‘‘انہیںکے متعلق ہے۔
(اعجاز احمدی ،ص۷۱)
۳۔’’ضمیمہ براہین احمدیہ‘‘کے صفحہ۱۳۹پراعلان کیاکہ لفظ ’’نبی‘‘کے معانی پرآج تک کسی نے غورنہیںکیااوریہ کہ اس لفظ سے مرادصرف ایساہی شخص ہے جواپنے ساتھ مکالمہ کرنے والے خداکی بھیجی ہوئی وحی کے ذریعے اس کی خبریںلوگوںتک پہنچائے۔ ایسے شخص کے لیے یہ ضروری نہیںکہ وہ صاحب شریعت ہواورنہ ہی اس پریہ لازم ہے کہ وہ کسی صاحب شریعت نبی کاپیروہونیزروزحشرتک تمام انسانوںکومرتبہ نبوت کے حصول سے محروم کردئیے جانے کی کوئی تک نہیں۔جودین لوگوںکااس قسم کی باتیںسکھائے وہ لائق مذمت ہے اورجوانسان اس طرح کی چیزوں کاڈھنڈورا پیٹتا پھرے وہ اللہ کانبی نہیںہوسکتاالبتہ شیطان کاپیغامبر ضرور ہوسکتا ہے۔یہ باتیںاسلام اور رسول مقبولﷺ کی کھلی توہین ہیں۔
۴۔’’دافع البلا‘‘کے صفحہ ۱۱پرلکھاکہ سچاخداوہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔
۵۔’’حقیقۃ الوحی‘‘کے صفحہ۱۴۹۔۱۵۰پرلکھاکہ پہلے میراعقیدہ یہ تھاکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاہمسرنہیںہوسکتاکیونکہ وہ رسول تھے مگربعدازاںجب مجھ پروحی کی بارش ہوئی مجھے اپنے سابقہ عقیدے کوترک کرناپڑا۔اب اللہ مجھے رسول کہہ کرپکارتاہے اورمجھے اس نے واضح طورپراپنارسول مقررکیاہے۔
۶۔’’ازالہ اوہام ‘‘کے پہلے ایڈیشن کے صفحہ ۶۳۳پرخودکورسول احمدکہاہے اوراپنامرتبہ قرآن سے جتانے کی سعی کی ہے۔اسی کتاب کے صفحہ۶۶۵پراپنے آپ کومسیح موعودبتایاہے اور’’معیارالاخیار‘‘کے صفحہ ۱۱پرخودکومتعددانبیا کرام سے افضل کہا ہے۔ ’’خطبہ الہامیہ‘‘کے صفحات ۱۹ / اور۳۵پراپنے آپ کوانسانیت کے بلندترین مقام کاحامل بتایاہے۔اپنی تقریرسیالکوٹ کے صفحہ ۳۳پرمسلمانوںکے لیے مسیح ومہدی اور ہندوئوں کے لیے کرشن مہاراج ہونے کادعویٰ کیاہے۔’’دافع البلا‘‘کے صفحہ ۱۳پریہ لکھ کرحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پراپنی فوقیت کادعویٰ کیاہے کہ حسین علیہ السلام اپنے دشمنوںکے ہاتھوںمارے گئے مگروہ(یعنی مرزاصاحب)شہیدمحبت (خداکی محبت)ہیں۔پھرحضرت عیسیٰ ؑکے اہل خاندان کی بے حرمتی ان الفاظ میںکی ہے کہ آپ علیہ السلام کی تین دادیاںاورتین نانیاں بدکارعورتیںتھیںنیزآپ علیہ السلام عادی کذاب اوردروغ گوتھے اورآپ علیہ السلام کے پاس دجل وفریب اورمسمریزم کے سواکچھ نہیںتھا۔
۷۔غیرمبہم اورواضح اندازمیںاپنی نبوت کادعویٰ کیااورکہاکہ میںنبی ہوںاوراس اُمت میںنبی کالفظ صرف میرے ہی لیے خاص ہے۔ (حقیقۃ الوحی، ص۳۹۱)
مجھے وحی آئی ہے اورمجھے اللہ نے رسول بناکربھیجاہے(ایضاً)
میںوحی کے بغیرکچھ نہیںکہتا(اربعین جلد۳)
اللہ نے مجھے بتایاہے کہ بلاشبہ میںاس کارسول ہوں(ایضاً،ص۱۰۷)
اللہ نے اورکسی انسان کووہ عزت نہیںبخشی جومجھے بخشی ہے۔(ایضاً،ص۱۰۶)
اللہ نے مجھے کوثرعطافرمایاہے۔(ضمیمہ انجام آتھم ،ص۳۵)
اپنے آپ کوسچااوراصل خداکہہ کراللہ تعالیٰ کادرجہ دیااورکہاکہ میںیقین کے ساتھ کہتاہوںکہ میںہی خداہوںاورمیںنے ہی یہ زمین وآسمان پیداکیے ہیں۔
(آئینہ کمالات ص۵۶۴‘۵۶۵)
ہروہ شخص جوان پران کی اپنی بیان کردہ حیثیت میںایمان نہیںلاتاوہ کافرہے۔
(حقیقۃ الوحی ،ص۱۶۳)
ان کے متبعین کے لیے ان کاانکارکرنے والوںکی اقتدامیںنمازیںپڑھناممنوع ہے۔
(فتاوی احمدیہ جلدنمبراص۱۸)
خدانے انہیںاپنابیٹاکہہ کرمخاطب کیا۔(البشارۃ ص۴۹)
اللہ نے بتایاکہ اگروہ انہیںپیدانہ کرتاتواس کائنات ہی کوپیدانہ کرتا۔ (حقیقۃ الوحی ص۹۹)
مرزاصاحب کے ان دعاویٰ کی بناپر۱۹۲۵ء میںتمام فرقوںکے علما سے ایک فتویٰ حاصل کیاگیاجس پرعدالت سماعت نے اعتمادکیاہے۔
۸۔مرزاغلام احمدکے مذکورہ بالااعلانات نبوت کوان کے جانشین اوراحمدیہ فرقہ کے موجودہ سربراہ مرزابشیرالدین محمودکی طرف سے مسلسل دہرایاجاتارہاہے۔اپنی کتاب ’’حقیقت نبوت‘‘کے صفحہ ۲۲۸پرمرزامحمودنے لکھاہے کہ یہ امرروزروشن کی طرح ایک مسلمہ حقیقت کاروپ دھارچکاہے کہ پیغمبراسلام کے بعدنبوت کادروازہ بند نہیں ہوا۔ ’’انوار خلافت‘‘میںانھوںنے کہاہے کہ مسلمانوںنے غلط طورپریہ سمجھ رکھاہے کہ خداکے خزانے خالی ہوچکے ہیں۔انہیںاللہ کی قدرت کااندازہ ہی نہیںورنہ ایک توکیامیںیقین سے کہتا ہوں کہ ہزاروںانبیا اورآئیںگے۔اپنی اسی کتاب کے صفحہ۶۵پراحمدیوںکے موجودہ سربراہ نے لکھاکہ اگراس کی گردن کے دونوںجانب تلواریںرکھ کراس سے یہ بیان کرنے کو کہا جائے کہ پیغمبراسلامﷺ کے بعدکوئی نبی نہیںہوگاتووہ یہی کہے گا(کہ ایسے بیان کامطالبہ کرنے والا)شخص جھوٹاہے کیونکہ نبی کریمﷺ کے بعدانبیا کی بعثت ہوسکتی ہے اور بالیقین نبی مبعوث ہوئے ہیں۔اس طرح مرزاغلام احمدصاحب نے نت نئے نبیوںکے ظہور کادروازہ کھولااورقادیانی جماعت نے مرزاغلام احمدصاحب کوسچانبی مانا۔اس مسئلہ پرحسب ذیل مثالیںپیش کی ہیں:
الف۔۵مارچ ۱۹۰۸ء کے’’بدر‘‘میںمرزاغلام احمدصاحب نے لکھاکہ انہیںاللہ کے حکم سے نبی بنایاگیاہے۔
ب۔مرزابشیرالدین نے’’حقیقت نبوت‘‘کے صفحہ۱۷۴پرلکھاکہ مرزاغلام احمد صاحب ’’نبی‘‘کی اصطلاح کی معروف تعبیراورشریعت کے مطابق نبی تھے، وہ مجازی نہیں بلکہ حقیقی نبی تھے۔
اس نوع کی نبوت کے دعوے کایہ لازمی تقاضاہے کہ جوکوئی مدعی کے اعلان کردہ مرتبہ کوتسلیم کرنے سے انکارکرے وہ کافرقرارپائے۔بیان بھی یہی کیاگیاہے کہ قادیانی ان سارے مسلمانوںکوکافرقراردیتے ہیںجومرزاغلام احمدصاحب کی حقیقی نبوت پر ایمان نہیں لاتے۔اس نکتہ کی وضاحت میںمندرجہ ذیل مثالیںپیش کی ہیں:
۱۔’’کل مسلمان جوحضرت مسیح موعودکی بیعت میںشامل نہیںہوئے خواہ انھوں نے حضرت مسیح موعودکانام بھی نہیںسنا، وہ کافرہیںاوردائرہ اسلام سے خارج ہیں‘‘
(مرزابشیرالدین محمود، آئینہ صداقت ص۳۵)
۲۔’’ہروہ شخص جوموسیٰ پرتوایمان رکھتاہے مگرعیسیٰ پرایمان نہیںلاتایاعیسیٰ پرتوایمان رکھتاہے مگرمحمدﷺپرایمان نہیںلاتایاپیغمبراسلامﷺ پرتوایمان رکھتاہے لیکن مرزاغلام احمدصاحب پرایمان نہیںلاتاوہ کافرہے اوردائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
(ریویوآف ریلجنز،ص۱۱۰)
۳۔سب جج گورداسپورکی عدالت میںمرزابشیرالدین محمودنے حسب ذیل بیان دیاجو’’الفضل‘‘مورخہ۲۶۔۲۹جون ۱۹۲۲ء میںیوںشائع ہوا۔
ہم مرزاصاحب پرایمان رکھتے ہیںجب کہ غیراحمدی ان پرایمان نہیںرکھتے اور قرآن کی تعلیمات کی روسے کسی نبی کاانکارکفرہے لہٰذاتمام غیراحمدی کافرہیں۔
۹۔مرزاصاحب نے درج ذیل اشعارکہے ہیں:
(الف)منم مسیح زماں و منم کلیم خدا
منم محمد و احمد کہ مجتبی باشد!
(ب)میںکبھی موسیٰ کبھی عیسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
یہ ہے وہ مرتبہ ومنصب جس کے مرزاصاحب دعوے دارہیںاوراس مرتبہ کا انکار کرنے والوںکوکافرقراردیتے ہیں۔انھوںنے مسلمانوںکے اس عقیدہ کواپنی نبوت کی تائید کاذریعہ بنانے کی سوچی کہ حضرت عیسیٰ کی صلیب پروفات نہیںہوئی بلکہ وہ چوتھے آسمان پر زندہ ہیںجہاںسے یوم حشرسے قبل آپ کازمین پرنزول ثانی ہوگااوریہ نزول قرب قیامت کی علامات میںسے ہے۔چنانچہ انھوںنے مسیح علیہ السلام کامرتبہ اپنے لیے مختص کیااورمسیح موعودکالقب اختیارکیا۔یہ ان کے سلسلہ الہامات کے دوسرے مرحلہ کا ذکر ہے۔ مسلمانوں کا ایک اورعقیدہ یہ بھی ہے کہ قیامت سے قبل حضرت امام مہدی تشریف لائیںگے۔چنانچہ مرزاصاحب نے اپنے لیے مہدی موعودکے منصب کابھی دعویٰ کیا۔وہ یہ حقیقت جانتے تھے کہ گذشتہ چودہ صدیوںمیںمسیلمہ کذاب اوراس قماش کے جس کسی فردنے بھی نبوت کا دعویٰ کیاہے اسے مسلمانوںنے برداشت نہیںکیااس لیے انھوںنے ’’مہربان حکومت انگلشیہ‘‘کی محافظت کاسہاراتلاش کیا۔تحقیقاتی عدالت کے فاضل ججوںنے اس نکتہ پر حسب ذیل تبصرہ ہے:
’’اس قسم کے تفرقات انگریزوںکے لیے مفیدطلب تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے محکومین ایسے جھگڑوںمیںاس حدتک الجھے رہیںجہاںتک ملکی امن وامان کوکسی خطرے کا اندیشہ نہ ہو۔اگرلوگ ایک دوسرے کوجنت وجہنم میںبھیجنے کے بارے میںباہم اس طرح دست وگربیاںرہیںکہ نہ توان میںکوئی سرپھٹول ہواورنہ ہی وہ دنیاوی مفادات کاکوئی مطالبہ کریںتوانگریزاس قسم کے نزاعات کاپورے سکون و استقلال بلکہ تسکین خاطرکے ساتھ تماشادیکھتے رہتے تھے۔مگرجونہی انھیں کوئی فریق آمادہ پیکاردکھائی دیتاتووہ سخت گیر اورغیرمصالحت پسندانہ پالیسی اختیارکرلیتے۔ مرزاصاحب برطانوی راج کی اس برکت کی پوری قدرجانتے تھے جوایسے بحث مباحثوںکی نہ صرف اجازت دیتاتھابلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتاتھااورتحریک احمدیہ کے بانی اوراس تحریک کے رہنمائوںکے خلاف غیراحمدی حضرات کوایک خاص شکایت ان کاانگریزوںکی انتہائی خوشامداورکاسہ لیسی کایہ طرزعمل بھی ہے۔‘‘
قادیانی فرقہ کے بانی کوظہوراسلام کے بعدمسیلمہ کذاب اوردیگرمدعیان نبوت کا حشرمعلوم تھااس لیے یہ فرقہ اپنی ’’نبوت ‘‘کے قیام واستحکام کی خاطرتاج برطانیہ کے سایہ محافظت اورسرپرستی کاشدیدمحتاج تھا۔اس ضمن میںمرزاغلام احمدصاحب کی ان تحریروں کا حوالہ دیاگیاہے۔
۱۔’’ملفوظات احمدیہ ‘‘کی پہلی جلدکے صفحہ۱۴۶پرمرزاغلام احمدصاحب رقم طراز ہیں:
’’برطانوی حکومت بے شمارپہلوئوںسے ہماری خیرخواہ ثابت ہوئی ہے اگرہم اس جگہ کوچھوڑدیںتوہمارے لیے نہ مکہ میںجگہ ہے اورنہ ہی قسطنطنیہ میں۔پھربھلاہم حکومت برطانیہ کے برخلاف اظہارخیال کاکیسے تصورکرسکتے ہیں۔‘‘
۲۔’’تبلیغ رسالت‘‘جلد۶صفحہ۹۶پرمرزاغلام احمدصاحب نے لکھا:
’’میںاپنے کام کونہ تومکہ میںرہ کرجاری رکھ سکتاہوںنہ مدینہ میں،نہ روم میں ایران میںاورنہ ہی کابل میںرہ کر۔میںتوہندوستان میںانگریزی راج کے دوام کادعاگوہوں۔‘‘
۳۔اسی کتاب کی دسویںجلدکے صفحہ ۱۳۲پرمرزاغلام احمدصاحب نے کہاکہ اگر قادیانی تاج برطانیہ کے’’سایہ عاطفت‘‘سے نکل جائیںتوانہیںاورکہاںپناہ ملے گی؟
ان ہی وجوہات کے تحت پاکستان کے بارے میںقادیانیوںکے رویہ کالُب لُباب تحقیقاتی عدالت کے معززججوںنے اپنی رپورٹ کے صفحہ۱۹۶پراس طرح بیان کیاہے:
’’۱۹۱۸ء کی پہلی جنگ عظیم کے دوران ترکی کی شکست اوربغدادپربرطانوی قبضہ ہو جانے پرقادیان میںجوجشن فتح منایاگیا۔اس نے مسلمانوںمیںسخت ناراضگی اوربرہمی پیدا کردی اوراحمدیت کوانگریزوںکی لونڈی سمجھاجانے لگا۔جب افق پرملک کی تقسیم کے ذریعے مسلمانوںکے لیے جداگانہ وطن والے واقعات کے تصورسے تشویش ہونے لگی۔ ان کی ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء کے اوائل تک بعض تحریروں میں انگریزوں کے جانشین بننے کی توقعات کی جھلک پائی جاتی ہے مگرجب پاکستان کا دھندلا سا تصورایک متوقع حقیقت کا روپ دھارنے لگاتوایک نئی مملکت کے نظریہ سے خود کو مستقلاً ہم آہنگ کرنے کے لیے انہیںقدرے مشکلات محسوس ہوئیںاس وقت وہ سخت گومگوکی کیفیت سے دوچارتھے کیونکہ اپنے قیام کی خاطرنہ توہندوستان ہی کاانتخاب کرسکتے تھے جوایک ہندولادینی ریاست بننے کوتھااورنہ ہی پاکستان کاکہ اس میںفرقہ بندی کی حوصلہ افزائی کی امیدنہ تھی ان کی بعض تحریروںسے یہ بات بھی ظاہرہوتی ہے کہ وہ تقسیم کے خلاف تھے اوران سے یہ بھی ظاہر ہوتا تھاکہ اگرتقسیم معرض عمل میںآبھی گئی تووہ برصغیرکے دوبارہ اتحادکے لیے جدو جہد کریں گے۔یہ سب کچھ محض اس امرواقعہ کے سبب سے تھاکہ احمدیت کے گڑھ‘ قادیان کے غیریقینی مستقبل کااحساس ان کے اندرابھرناشروع ہوگیاتھاجس کے متعلق مرزاصاحب کی متعددپیشین گوئیاں تھیں۔‘‘
یہی کچھ اغراض تھیںجن کے تحت مرزاصاحب نے تیرہ سوسال پرانے اسلامی نظریہ جہاد کومسنوخ کرناچاہاتھااوراعلان کیاکہ اب سے جہادبالسیف نہیںہوسکتابلکہ جہاداب صرف ان ہی کوششوںتک محدودہوگاجومخالفین کودلائل سے قائل کرنے کے واسطے کی جائیں۔
جہادکی حدودوشرائط قرآن کی مندرجہ ذیل آیات میںملتی ہیں:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨo الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ۰ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْہَا اسْمُ اللہِ كَثِيْرًا۰ۭ وَلَيَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌo الحج 39-40:22
اجازت دے دی گئی ہے ان لوگوںکوجن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیںاوراللہ یقیناً ان کی مددپرقادرہے۔یہ وہ لوگ ہیںجواپنے گھروںسے ناحق نکال دئیے گئے صرف اس قصورپرکہ وہ کہتے تھے ’’ہمارارب اللہ ہے‘‘اگراللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتارہے توخانقاہیںاورگرجااورمعبداورمسجدیں‘جن میںاللہ کاکثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمارکرڈالی جائیں۔اللہ ضروران لوگوںکی مددکرے گاجواس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقتوراورزبردست ہے۔
فَاِنِ انْــتَہَوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ۰ۭ فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِـمِيْنَo اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ۰ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَo وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۰ۚۖۛ وَاَحْسِنُوْا۰ۚۛ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَo
البقرہ 192-195:2
اورتم اللہ کی راہ میںان لوگوںسے لڑو‘جوتم سے لڑتے ہیںمگراللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان سے لڑوجہاںبھی تمہاراان سے مقابلہ پیش آئے اور انہیں نکالو جہاںسے انھوںنے تم کو نکالاہے ۔اس لیے کہ قتل اگرچہ براہے مگرفتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے اورمسجدحرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں‘تم بھی نہ لڑو‘مگرجب وہ وہاں لڑنے سے نہ چوکیںتوتم بھی بے تکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروںکی یہی سزاہے پھر اگر وہ بازآجائیںتوجان لوکہ اللہ معاف کرنے والااوررحم فرمانے والاہے۔
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ۰ۭ فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِـمِيْنَo البقرہ 193:2
تم ان سے لڑتے رہویہاںتک کہ فتنہ باقی نہ رہے اوردین اللہ کے لیے ہوجائے پھراگروہ بازآجائیںتوسمجھ لوکہ ظالموںکے سوااورکسی پردست درازی روا نہیں۔
اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ۰ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَo البقرہ 194:2
ماہ حرام کابدلہ ماہ حرام ہی ہے اورتمام حرمتوںکالحاظ برابری کے ساتھ ہوگا۔ لہٰذاجوتم پر دست درازی کرے تم بھی اس پردست درازی کرو۔البتہ اللہ سے ڈرتے رہواورجان رکھوکہ اللہ انہیںلوگوںکے ساتھ ہے ،جواس کی حدودتوڑنے سے پرہیزکرتے ہیں۔
لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَo الممتحنہ 8:60
اللہ تعالیٰ تم کوان لوگوںکے ساتھ احسان اورانصاف کابرتائو کرنے سے منع نہیں کرتاجوتم سے دین کے بارے میںنہیںلڑے اورتم کوتمہارے گھروںسے نہیں نکالا۔ اللہ تعالیٰ انصاف کا برتائو کرنے والوںسے محبت رکھتاہے۔
فَلْيُقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يَشْرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَۃِ۰ۭ وَمَنْ يُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيُقْتَلْ اَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًاo وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًاo النسائ 74-75:4
پھرجواللہ کی راہ میںلڑے گااورماراجائے گا‘یاغالب رہے گا‘اسے ضرورہم اجر عظیم عطا کریں گے۔آخرکیاوجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میںان بے بس مردوں‘عورتوںاور بچوںکی خاطرنہ لڑو جو کمزورپاکردبالیے گئے ہیںاورفریادکررہے ہیںکہ خدایاہم کواس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیںاوراپنی طرف سے ہماراکوئی حامی ومددگارپیداکر دے۔
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ۰ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَہُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo التوبہ 5:9
پس جب حرام(حرمت والے) مہینے گزرجائیںتومشرکوںکوقتل کروجہاں پائو اور انہیں پکڑو اور گھیرو اورہرگھات میںان کی خبرلینے کے لیے بیٹھو۔پھراگروہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو انھیں چھوڑ دو۔ اللہ درگزر کرنے والااوررحم فرمانے والا ہے۔
فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا كَبِيْرًاo الفرقان 52:25
پس اے نبیﷺ کافروںکی بات ہرگزنہ مانواوراس قرآن کولے کران کے ساتھ جہادکبیرکرو۔
لیکن جہادکے بارے میںاحمدی نظریہ یہ ہے کہ جہادبالسیف کی اجازت صرف اپنے دفاع کی خاطردی گئی ہے اوراس مسئلہ پراپنانظریہ پیش کرتے ہوئے مرزاغلام احمدصاحب نے محض اس عقیدہ کی تشریح وتوضیح کی ہے جس کی بنیادبراہ راست متعددقرآنی آیات پررکھی ہے کیونکہ انھوںنے کسی قرآنی حکم یاہدایت کی تنسیخ کادعویٰ نہیںکیالیکن فریق مخالف کی دلیل یہ ہے کہ مرزاصاحب نے اس مسئلے پر اظہار رائے کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان سے صاف طورپریہ ظاہرہوتاہے کہ وہ قرآنی حکم کی مخض تشریح وتوضیح ہی نہیں کررہے ہیںبلکہ ایک موجودقرآنی قانون کی صریحاًتنسیخ کررہے ہیں۔اس سلسلہ میں حسب ذیل عبارتوںپرانحصارکیاگیاہے:
’’میںایک حکم لے کرآپ لوگوںکے پاس آیاہوںوہ یہ ہے کہ اب سے تلوارکے جہاد کاخاتمہ ہے۔‘‘
’’اب جہاددین کے لیے حرام ہے۔‘‘
’’دین کی تمام جنگوںکااب اختتام ہے۔‘‘
’’مسیح کے آنے کایہ نشان ہے کہ وہ دین کی لڑائیاںختم کردے گا‘‘۔
’’میںنے جہادکی مخالفت کے بارے میںنہایت موثرتقریریںکیں۔‘‘
’’میںنے جہادکے خلاف صدہاکتابیںتحریرکیںاورعرب مصراوربلاد شام اور افغانستان میںگورنمنٹ کی تائیدمیںشائع کی ہیں۔‘‘
’’مسیح موعودکے وقت قطعاًجہادکے حکم منسوخ کردئیے گئے۔‘‘
’’اب زمین کے فسادبندکیے گئے۔‘‘
’’اب جودین کے لیے تلواراٹھاتاہے اورغازی نام رکھ کرکافروںکوقتل کرتاہے وہ خداوندتعالیٰ اوراس کے رسول کانافرمان ہے۔‘‘
’’میرے فرقے میں’جس کاخدانے مجھے امام اوررہبرمقررفرمایاہے‘ تلوار کا جہاد بالکل نہیں۔یہ فرقہ اس بات کوقطعاًحرام جانتاہے کہ دین کے لیے لڑائیاںکی جائیں۔‘‘
’’اسلام میںجوجہادکامسئلہ ہے میری نگاہ میںاس سے بدتراسلام کوبدنام کرنے والااورکوئی مسئلہ نہیں۔‘‘
’’مجھے مسیح اورمہدی مان لیناہی مسئلہ جہادکاانکارکرناہے۔‘‘
مرزاصاحب اوران کے جانشینوںکی تحریروںمیںپائے جانے والے ان فقروں اور ’’اربعین‘‘جلدچہارم کے صفحہ ۷کی عبارت ’’میری وحی میںامربھی ہے اورنہی بھی‘‘کی بنیاد پریہ بات بڑے پرزوراندازمیںپیش کی گئی ہے کہ ان عبارتوں میں مندرج اعلانات ایک قرآنی قانون کی ترمیم وتنسیخ ہی کرتے ہیں۔ اپیل کنندہ کی جانب سے اس بات کاجواب دیا گیاہے کہ ان تحریروںمیںجوالفاظ اورمطالب اختیارکیے گئے ہیںان سے تنسیخ کاکوئی پہلو نہیںنکلتابلکہ وہ توایک ایسے قرآنی حکم کی صحیح تشریح کرتے ہیںجس کوتیرہ سوسال سے غلط سمجھاجاتارہاہے اوربہرحال دوسرے لوگ مرزاصاحب کے اقوال کی تعبیرات خواہ کچھ بھی کریںاحمدیوںنے توان کامطلب ہمیشہ یہی لیاہے کہ قرآن میںکوئی نیاحکم نہیںنکلتااور مرزاصاحب کے سارے کام کی اصل غرض وغایت قرآن کے حقیقی احکامات پرسے کھوٹ اورمیل کودورکرناتھی۔اس بارے میںاحمدی فریق نے’’یضع الحرب‘‘والی روایت کے حوالے سے یہ دلیل فراہم کی ہے کہ مرزاصاحب نے جیساکہ ان کی کچھ تحریروںسے ثابت ہے جوکچھ کیا،وہ محض یہ تھاکہ انھوںنے مذکورہ روایت کے مصداق جنگ کومعطل کردیااورکسی قانون کی تنسیخ ہرگزنہیںکی۔یہاںیہ نکتہ بڑی اہمیت کاحامل ہے کیونکہ یہ اگرمان لیاجائے کہ مرزاصاحب کے ان خیالات کامقصدقرآنی قانون کی تنسیخ سے ایک نئے حکم کااجرایااس میںجزوی ترمیم تھا(ان کے پیروئوںکے نزدیک انھوں نے یہی کچھ کیا) توپھران کی حیثیت تشریعی نبی کی ہوتی ہے۔مگریہ بات آیت’’خاتم النبیین ‘‘کی احمدیوںکی خود کر دہ تفسیرکے خلاف پڑتی ہے اوریہ نتیجہ خاص طور پراس صورت میںتولازماًنکلے گاجب کہ اس نئے حکم کی بنیاد’’وحی‘‘و’’الہام‘‘پررکھی گئی ہو۔ غیراحمدی طریق نے اس دلیل کو یوں آگے بڑھایاہے کہ ان تحریروںپرمبنی نظریات کی نوعیت اگرمحض تشریحی یاتصدیقی بھی ہوتب بھی اصولی طورپرمرزاصاحب کی حیثیت تشریعی نبی کی ہی رہتی ہے کیونکہ اگر شارح کسی قانون کی تعبیرکے بجائے اپنے لیے اس کے استقرار (declaratory legislation) کے حق کابھی مدعی ہوتواس کی، کی ہوئی تشریحات و توضیحات بجائے خود قانون سازی کے ضمن میںآجاتی ہیں۔احمدی حضرات مندرجہ بالا آیات میںسے متعلقہ آیات کے حوالے سے اور آیت السیف یعنی نویںسورت کی پانچویں،مدینہ میںنازل شدہ آیت کے متعلق اس مروجہ نظر یہ کی صحت کومشتبہ قراردے کرکہ اس آیت کے نزول سے مکہ میںنازل شدہ وہ آیات منسوخ ہوگئی تھیں(جن کاتعلق اپنے دفاع یااس زمانہ میںعرب میںکفارکے زیراثرعلاقوں میں آبادمسلمانوںکو ظلم واستبدادسے نجات دلانے کی خاطرکفار کے ساتھ جنگ کرنے سے تھا۔) مرزاصاحب کی ان تحریروں کے اصل مفہوم کوظاہرکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہاں اس امر کی نشان دہی بھی کر دی گئی ہے کہ یہ احمدیوںکاایک بنیادی عقیدہ ہے کہ قرآن کی کوئی آیت مابعدکی کسی آیت کومنسوخ نہیںکرتی اورآیت السیف سے مکی آیات کاکوئی تضادیاتنا قض ظاہر نہیںہوتا۔نیزناسخ ومنسوخ کے پورے نظریہ کی تردیدکی گئی ہے۔اس فریق نے نظریہ ناسخ ومنسوخ پردلالت کرنے والی درج ذیل آیات کی تشریح و تاویل کسی اورہی انداز سے کی ہے:
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا۰ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo البقرہ 106:2
ہم اپنی جس آیت کومنسوخ کردیتے ہیںیابھلادیتے ہیں‘اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیںیاکم ازکم ویسی ہی۔کیاتم جانتے نہیںہوکہ اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے۔
جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں…اوراللہ بہترجانتا ہے کہ وہ کیانازل کرے…تویہ لوگ کہتے ہیںکہ تم یہ قرآن خودگھڑتے ہو۔ النحل 101:16
چنانچہ مسلمان قادیانیوںکومندرجہ ذیل وجوہات کی بناپرکافراوردائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں:
۱۔آنحضرتﷺ کے ختم نبوت سے انکار‘الفاظ قرآنی کی غلط تاویلات اوراس دین کولعنتی اورشیطانی قراردیناجس کے پیروکارحضوراکرمﷺ کے ختم نبوت پرایمان رکھتے ہیں۔
۲۔مرزاغلام احمدصاحب کاتشریعی نبوت کاقطعی دعویٰ۔
۳۔یہ دعویٰ کہ حضرت جبرائیل ان (مرزاغلام احمدصاحب) پروحی لاتے ہیںاور وہ وحی قرآن کے برابرہے۔
۴۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت حسین ؓ کی مختلف طریقوںسے توہین۔
۵۔نبی اکرمﷺ اورآپ کے دین کااہانت آمیزطورپرذکر۔
۶۔قادیانیوںکے سواتمام دوسرے مسلمانوںکوکافرقراردینا۔
۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران اور۱۹۵۴ء کی تحقیقات سے پہلے قادیانیوں نے اپنے کئی ایک عقائد سے پلٹناشروع کردیاہے۔تحقیقاتی عدالت کے روبرو انھوں نے جو موقف اختیارکیا،اس سے صاف طورپرمترشح ہوتاہے کہ وہ اپنے مذہب کے بانی اوراس کے جانشینوںکے وضع کردہ متعدداصولوںاورعقائدکے معانی کوتبدیل کرنے کے لیے کوشاں رہے مگرہمارے پاس احمدیہ فرقہ کے بانی اوراس کے جانشینوںکی تصنیف کردہ وہ کتب موجودہیںجن سے میاںعطاء اللہ نے استدلال کیاہے گویااس طرح ہمارے سامنے کثرت سے وہ ذرائع موجودہیںجن کی مددسے ہم اس فرقہ کے فلسفہ کی حقیقت جان سکیں۔
اوپرکی ساری بحث سے میںنے مندرجہ ذیل نتائج اخذکیے ہیں:
۱۔مسلمانوںکااس امرپربھی اجماع ہے کہ جوشخص آنحضرتﷺ کے ختم نبوت پرایمان نہیںرکھتا، وہ مسلمان نہیں۔
۳۔مسلمانوںکااس امرپربھی اجماع ہے کہ قادیانی غیرمسلم ہیں۔
۴۔مرزاغلام احمدصاحب قادیانی اپنے دعاوی‘تشریحات وتاویلات کی روشنی میں ایک ایسی وحی پانے کے مدعی تھے جسے وحی نبوت سے تعبیرکیاجاتاہے۔
۵۔اپنی اولین تصانیف میںمرزاصاحب کے خوداپنے قائم کردہ معیاران کے اس دعویٰ نبوت کوجھٹلاتے ہیں۔
۶۔انھوںنے واقعتاً دنیابھرکے مانے ہوئے انبیا کرام علہیم السلام کی طرح نبی کامل ہونے کادعویٰ کیااور’’ظل‘‘و’’بروز‘‘کی اصطلاحوںکی حقیقت ایک فریب کے سواکچھ نہیں۔
۷۔نبی اکرمﷺ کے بعدوحی نبوت نہیںآسکتی اورجوکوئی ایسی وحی کادعویٰ کرے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
میںسمجھتاہوںکہ اس بحث اوراس سے اخذکردہ نتائج کی بناپریہ بات بڑی آسانی کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ عدالت سماعت نے جونتائج اخذکیے ہیںوہ درست ہیں،چنانچہ میںان سب کی توثیق کرتاہوں۔مسماۃ امتہ الکریم کی اپیل میںکوئی جان نہیںہے لہٰذامیں اسے خارج کرتاہوں۔
جہاںتک لیفٹیننٹ نذیرالدین کی اپیل کاتعلق ہے مسٹرظفرمحمودایڈووکیٹ نے اس کے بارے میںمجھ سے کچھ نہیںکہا۔مسماۃ امۃ الکریم کے سامان جہیزپرنذیرالدین کا قبضہ ثابت ہوچکاہے اوراس کی قیمت کاتخمینہ بھی مناسب لگایاگیاہے لہٰذامیںان کی اپیل میں بھی کوئی وزن محسوس نہیںکرتااورمیںان کی اپیل کوبھی خارج کرتاہوں۔
چونکہ دونوںفریق اپنی اپنی اپیلوںمیںناکام رہے ہیںلہٰذامیںاخراجات کے متعلق کوئی فیصلہ نہ دینے ہی کوترجیح دیتاہوں۔
کورٹ فیس کی وصول یابی کے اقدامات کے واسطے کلکڑرالپنڈی کواطلاع دی جائے۔
اعلان فیصلہ بتاریخ دستخط محمداکبر
۳جون ۱۹۵۵ء ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج راولپنڈی