نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں زمین کا انتظام کس طریقے پر کیا گیا تھا، اس کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ شریعت کی رو سے اسلامی حکومت کے زیرِ حکم آنے والی اراضی چار بڑی اقسام پر منقسم ہوتی ہیں:
(واضح رہے کہ یہ بات عمومی حالات کے بارے میں ہے۔ غیر معمولی حالات میں حکومت انصاف اور خدا اور اس کے بندوں کے حقوق کی خاطر کچھ پابندیاں لگا سکتی ہے جن کا ذکر فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔ اس طرح اگر ضرورت پیش آئے تو کسی خاص صنعت یا کسی خاص زمین کو دلیلِ شرعی سے قومی ملکیت میں بھی لیا جاسکتا ہے۔لیکن ملک کا مجموعی نظام انفرادی ملکیت کی بنیاد پر ہی مرتب و منظم ہونا چاہیے۔ میں نے جہاں تک اس مسئلے کا اسلام کی روشنی میں مطالعہ کیا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنانے کا پروگرام بطور اصول کے اختیار نہیں کرتا۔ یہ چیز اسلام کے سارے اجتماعی نظام کے خلاف ہے ۔ اسلام کے نقطۂ نظر سے کسی ملک یا ریاست کے معاشی مسائل کا یہ صحیح حل نہیں ہے کہ سارے وسائل پیدائش کو قومی ملکیت بنا دیا جائے۔ البتہ کسی صنعتی یا تجارتی شعبے کے بارے میں اگر تجربے سے معلوم ہو کہ اسے شخصی تحویل میں رکھ کر فروغ دینا ممکن ہی نہیں ہے، تو ایسی صورت میں اسے ریاست کے کنٹرول میں لیا جاسکتا ہے۔) وہ جن کے مالک اسلام قبول کرلیں۔
(۲) وہ جن کے مالک اپنے دین ہی پر رہیں مگر ایک معاہدے کے ذریعہ سے اپنے آپ کو اسلامی حکومت کی تابعیت میں دے دیں۔
(۳) وہ جن کے مالک بزورِ شمشیر مغلوب ہوں۔
(۴) وہ جو کسی کی ملک میں نہ ہوں۔
ان میں سے ہر ایک کے متعلق آنحضرتؐ اور آپؐ کے خلفاءؓ نے کیا طرزِ عمل اختیار کیا تھا، اسے ہم الگ الگ بیان کریں گے۔