دوسرے امر تحقیق طلب کے بارے میں مجھے صرف دو باتیں یہاں بیان کرنی ہیں:
اول یہ کہ فروری کے اختتام تک پنجاب گورنمنٹ کی پالیسی ان اضطرابات کو روکنے کی طرف نہیں بلکہ ان کی سرپرستی اور ہمت افزائی کرنے کی طرف مائل تھی ۔ اس پالیسی کے محرکات کیاتھے اور عملاً اندر کیاکچھ ہوتا رہا ، اس کے متعلق تو میں کوئی بات بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس کامیرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بعض خاص خاص محکموں کے سرکاری کاغذات کی جانچ سے عدالت کو اصل حقائق معلوم ہوجائیں مگر بظاہر جو کچھ دیکھا گیاہے وہ یہ ہے کہ ان اضطرابات کاپورامواد اعلانیہ حکومت پنجاب کی ناک کے نیچے پکتا رہا اور اس حکومت نے جس کی عمل داری میں ذرا ذرا سی باتوں پر چوالیس ایکٹ ، سیفٹی ایکٹ اور دفعہ ۱۴۴حرکت میں آجایا کرتے ہیں ، اس کام میں ذرا مداخلت نہ کی۔ پھر یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ اس کام کو فروغ دینے میں زیادہ تر وہی لوگ پیش پیش تھے جن کے حکومت پنجاب سے مخصوص تعلقات عوام کو معلوم ہیں اور جو پنجاب کے پچھلے انتخابات میں مسلم لیگ پارٹی کے سرگرم حامی رہ چکے ہیں۔ مجھے پنجاب کے بعض علاقوں سے یہاں تک بھی اطلاعات ملی ہیں کہ فروری کے آخر تک اضلاع کے حکام خود اس تحریک میں حصہ لینے کے لیے لوگوں کو ابھارتے رہے ہیں۔
دوم یہ کہ جب ڈائریکٹ ایکشن عملاً شروع ہوگیا تو دوتین دن کے اندر ہی یکایک حکومت پنجاب کی پالیسی بدل گئی اور اس نے یک لخت ایسی سختی شروع کر دی جو کافی سے بہت زیادہ تھی ۔ اس نے صرف قانون شکنی کرنے والوں ہی پر نہیں بلکہ بالکل بے تعلق عوام پر بھی وحشیانہ ظلم ڈھائے ، جن کی وجہ سے مختلف مقامات پر عام آدمی سخت مشتعل ہوگئے۔ پھر اپنی بھڑکائی ہوئی اس آگ کو دیکھ کر بہت جلد سول حکام کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور انھوںنے معاملات فو ج کے حوالے کرنے میں بڑی بے صبری سے کام لیا ۔