یہ ہے اسلامی نصب العین اور اس نصب العین کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے راہِ راست وہی ہے‘ جو اﷲ کے رسولa نے اختیار کی‘ یعنی یہ کہ لوگوں کو ’’الہدیٰ‘‘اور ’’دینِ حق‘‘کی طرف دعوت دی جائے۔ پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کر کے اپنی بندگی واطاعت کو اﷲ کے لیے خالص کر دیں‘ دوسری اطاعتوں کو اﷲ کی اطاعت کے ساتھ شریک کرنا چھوڑ دیں۔ اور خدا کے قانون کو اپنی زندگی کا قانون بنا لیں‘ ان کا ایک مضبوط جتھا بنایا جائے۔ پھر یہ جتھا تمام ان اخلاقی‘ علمی اور مادی ذرائع سے جو اس کے امکان میں ہوں‘ دینِ حق کو قائم کرنے کے لیے جہاد کبیر کرے‘ یہاں تک کہ اﷲ کے سوا دوسری اطاعتیں‘ جن جن طاقتوںکے بل پر قائم ہیں‘ ان سب کا زور ٹوٹ جائے‘ اور پورے نظامِ اطاعت پر وہی ’’الہدیٰ‘‘ اور ’’دینِ حق‘‘غالب آجائے۔
اس راہِ راست کا ہر جُزو قابلِ غور ہے۔
پہلا جُزو یہ ہے‘ کہ انسانوں کو بالعموم اﷲ کی حاکمیت واقتدار اعلیٰ تسلیم کرنے اور اس کے بھیجے ہوئے قانون کو اپنی زندگی کا قانون بنانے کی دعوت دی جائے۔ یہ دعوتِ عام ہونی چاہئے‘ ہر وقت جاری رہنی چاہئے‘ اور اس کے ساتھ دوسری غیر متعلق باتوں کی آمیزش نہ ہونی چاہئے۔ قوموں اور نسلوں اور ملکوں کے باہمی جھگڑے‘ خود اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی بحثیں‘ غیر الٰہی نظامات میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا‘ یا کسی ایسے نظامِ فاسد کی خود غرضا نہ حمایت کرنا‘ یا کسی نظامِ فاسد میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرنا‘ یہ سب چیزیں نہ صرف یہ کہ ’’الہٰدی‘‘اور’’دینِ حق‘‘ کے ساتھ میل نہیں کھاتیں بلکہ صریح طور پر اس کے منافی اور اس کے لیے مضرت رساں ہیں۔ پس جب کسی شخص یا گروہ کو دعوتِ حق کی خدمت انجام دینی ہو‘ تو اسے ان تمام جھگڑوں اور بحثوں سے الگ ہوجانا چاہئے‘ اور اپنی دعوت کے ساتھ کسی دوسرے غیر متعلق اور بے جوڑ قضیے کو شامل نہ کرنا چاہئے۔
دوسرا جُزو یہ ہے‘ کہ جتّھا صرف ان لوگوں کا بنایا جائے‘ جو اس دعوت کو جان کر اور سمجھ کر قبول کریں‘ جو بندگی واطاعت کو فی الواقع اﷲ کے لیے خالص کر دیں‘ جو دوسری اطاعتوں کو اﷲ کی اطاعت کے ساتھ واقعی شریک کرنا چھوڑ دیں اور حقیقت میں اﷲ کے قانون کو اپنا قانونِ زندگی بنا لیں۔ رہے دوسرے لوگ جو اس طرز خیال یا اس طرز زندگی کے محض معترف ہوں‘ یا اس سے ہمدردی رکھتے ہوں‘ تو وہ مجاہدہ کرنے والے جتھے کے لیڈر کیا معنی‘ کارکن بھی نہیں بن سکتے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو جس درجہ میں بھی اس کا ہمدرد یا بیرونی معاون بن جائے بسا غنیمت ہے‘ مگر ارکان اور ہمدروں کے درمیان جو حقیقی فرق وامتیاز ہے اسے کسی حال میں بھی نظر انداز نہ کرنا چاہئے۔
تیسرا جُزویہ ہے‘ کہ براہِ راست غیر الٰہی نظامِ اطاعت پر حملہ کیا جائے‘ تمام کوششوں کا مقصود صرف اس ایک بات کو بنایا جائے کہ اﷲ کی حاکمیت قائم ہو‘ اور اس کے سوا کسی دوسری چیز کو مقصود بنا کر اس کے پیچھے قوّتیں ضائع نہ کی جائیں۔ { FR 2517 }