اعتراض: میں نے لکھا تھا کہ کئی ایسے فیصلے جو رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانے میں ہوئے لیکن حضورﷺ کے بعد جب تغیراتِ حالات کا تقاضا ہوا تو خلفائے راشدین نے ان فیصلوں کو بدل دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ ان بزرگوں پر سخت بہتان ہے جس کے ثبوت میں آپ نہ ان کا کوئی قول پیش کر سکتے ہیں، نہ عمل۔ آپ یہ معلوم کرکے متعجب ہوں گے کہ اس باب میں خود آپ نے ایک ہی صفحہ آگے چل کر اس امر کا بین ثبوت پیش کر دیا ہے کہ صحابہؓ کبار حضورﷺ کے فیصلے کو تغیر حالات کے مطابق قابل ترمیم سمجھتے تھے۔ سنیے کہ آپ نے کیا لکھا ہے:
کس کو معلوم نہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضورﷺ کی وفات کے بعد جیشِ اسامہؓ کو بھیجنے پر صرف اس لیے اصرار کیا کہ جس کام کا فیصلہ حضورﷺ اپنی زندگی میں کر چکے تھے، اسے بدل دینے کا وہ اپنے آپ کو مجاز نہ سمجھتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے جب ان خطرات کی طرف توجہ دلائی جن کا طوفان عرب میں اٹھتا ہوا نظر آ رہا تھا اور اس حالت میں شام کی طرف فوج بھیج دینے کو نامناسب قرار دیا تو حضرت ابوبکرؓ کا جواب یہ تھا کہ اگر کتے اور بھیڑئیے بھی مجھے اچک لے جائیں تو میں اس فیصلے کو نہ بدلوں گا جو رسول اللّٰہﷺ نے کر دیا تھا۔ (ترجمان، نومبر ۱۹۶۰ء، ص ۱۱۳)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے سوا باقی تمام صحابہؓ اس بات کو جائز سمجھتے تھے کہ حالات کے تغیر کے ساتھ، رسول اللّٰہﷺ کے فیصلے کو بدلا جا سکتا ہے۔
پھر آپ نے لکھا ہے:
حضرت عمرؓ نے خواہش ظاہر کی کہ کم از کم اسامہؓ کو ہی اس لشکر کی قیادت سے ہٹا دیں، کیوں کہ بڑے بڑے صحابہؓ اس نوجوان لڑکے کی ماتحتی میں رہنے سے خوش نہیں ہیں تو حضرت ابوبکرؓ نے ان کی ڈاڑھی پکڑ کر فرمایا کہ خطاب کے بیٹے! تیری ماں تجھے روئے اور تجھے کھو دے، رسول اللّٰہﷺ نے اس کو مقرر کیا اور تو کہتا ہے کہ میں اسے ہٹا دوں۔ (ایضاً)
اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ اس کے قائل تھے کہ تغیر حالات سے حضورﷺ کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں، بلکہ اس واقعے میں تغیر حالات کا بھی سوال نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ اسے اس لیے بدلناچاہتے تھے کہ اس سے صحابہؓ خوش نہیں تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ (ایک حضرت ابوبکرؓ کے سوا) صحابہؓ میں سے کوئی بھی اس بات کو نہیں سمجھتا تھا کہ رسول اللّٰہﷺ کے فیصلے کسی حالت میں بھی بدلے نہیں جا سکتے؟
جواب: یہ ایک اور مثال ہے اس بات کی کہ منکرین حدیث ہر عبارت میں صرف اپنا مطلب تلاش کرتے ہیں۔ اوپر حضرت ابوبکرؓ کے جو دو واقعات نقل کیے گئے ہیں ان کو پھر پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ کیا ان میں یہ بات بھی کہیں مذکور ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے جب رسول اللّٰہﷺ کے فیصلے کو بدلنے سے انکار کیا تو حضرت عمرؓ نے، یا صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے یہ کہا ہو کہ ’’اے حضور مرکزِ ملت! آپ ازروئے شرع نبی ﷺ کے فیصلوں کے پابند نہیں ہیں، بلکہ انھیں بدل دینے کا پورا اختیار رکھتے ہیں۔ اگر آپ کی اپنی رائے یہی ہے کہ اس وقت جیش اسامہؓ کو جانا چاہیے اور اسامہؓ ہی اس کے قائد ہوں تو بات دوسری ہے۔ آپ اس پر عمل فرمائیں کیوں کہ آپ ’’اللّٰہ اوررسولﷺ‘‘ ہیں لیکن یہ استدلال نہ فرمائیے کہ یہ رسول اللّٰہ ﷺ کا فیصلہ ہے اس لیے اسے نہیں بدلا جا سکتا۔ حضورﷺ اپنے زمانے کے مرکزِ ملت تھے اور آپ اپنے زمانے کے مرکزِ ملت ہیں۔ آج آپ کے اختیارات وہی ہیں جو کل حضورﷺ کو حاصل تھے۔‘‘ یہ بات اگر حضرت عمرؓ یا دوسرے صحابہؓ نے کی ہوتی تو بلاشبہ منکرین حدیث کی بات بن جاتی۔ لیکن اس کے برعکس وہاں معاملہ یہ پیش آیا کہ جس وقت حضرت ابوبکرؓ نے حضورﷺکے فیصلے کا حوالہ دیا اسی وقت حضرت عمرؓ نے بھی اور صحابہؓ نے بھی سر اطاعت جھکا دیا۔ جیش اسامہؓ روانہ ہوا۔ اسامہؓ ہی اس کے قائد رہے اور بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ ان کی قیادت میں راضی خوشی چلے گئے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضورﷺ کے بعد بعض حضرات کو یہ غلط فہمی لاحق ہوئی تھی کہ آپﷺ کے انتظامی فیصلوں میں حسب ضرورت رد وبدل کیا جا سکتا ہے، لیکن اس وقت دین کے فہم میں جو شخص سب سے بڑھا ہوا تھا اس کے متنبہ کرنے پر سب نے اپنی غلطی محسوس کر لی اور سر تسلیم خم کر دیا۔ یہ طرز عمل بہت افسوسناک ہے کہ محض اپنی بات بنانے کی خاطر صحابہ کرامؓ کے ان تاثرات کا تو سہارا لیا جائے جن کا اظہار فقط بحث کے دوران ہوا۔ لیکن اس اجتماعی فیصلے سے آنکھیں بند کر لی جائیں جس پر بحث کے بعد آخر کار سب کا اتفاق ہو گیا ہو۔ دُنیا بھر کا مسلّم قاعدہ تو یہ ہے کہ ایک بحث کے بعد جو بات متفق علیہ طور پر طے ہو، وہی طے شدہ فیصلہ قابل حجت ہے نہ کہ وہ آرا جو اثنائے بحث میں سامنے آئی ہوں۔