اعتراض:آپ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنی نبوت کی پوری زندگی میں جو کچھ کیا، یا فرمایا وہ وحی کی بِنا پر تھا لیکن دجال سے متعلق احادیث کے سلسلے میں آپ کا ارشاد ہے:
ان امور کے متعلق جو مختلف باتیں حضورﷺ سے احادیث میں منقول ہیں، وہ دراصل آپ کے قیاسات ہیں جن کے بارے میں آپ خود شک میں تھے۔
(رسائل ومسائل)
اور اس کے بعد آپ خود ہی اس کا اعتراف کر لیتے ہیں کہ:
حضور کا یہ تردد تو خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں آپﷺ نے علم وحی کی بِنا پر نہیں فرمائی تھیں بلکہ اپنے گمان کی بِنا پر فرمائی تھیں۔‘‘ (رسائل ومسائل)
جواب: میری جن عبارات کا یہاں سہارا لیا جا رہا ہے ان کو نقل کرنے میں پھر وہی کرتب دکھایا گیا ہے کہ سیاق وسباق سے الگ کرکے ایک فقرہ کہیں سے اور ایک کہیں سے نکال کر اپنا مطلب برآمد کر لیا گیا۔ دراصل جو بات ۱س مقام پر میں نے کہی ہے وہ یہ ہے کہ دجال کے متعلق حضور ﷺ کو وحی کے ذریعے سے جو علم دیا گیا تھا وہ صرف اس حد تک تھا کہ وہ آئے گا اور ان ان صفات کا حامل ہو گا۔ انھی باتوں کو حضورﷺ نے خبر کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ کب اور کہاں آئے گا تو اس کے متعلق جو کچھ آپ نے بیان فرمایا ہے وہ خبر کے انداز میں نہیں، بلکہ قیاس وگمان کے انداز میں فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر ابن صیاد کے متعلق آپ نے شبہ ظاہر فرمایا کہ شاید یہ دجال ہو۔ لیکن جب حضرت عمرؓ نے اسے قتل کرنا چاہا تو حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ دجال ہے تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو، اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو تمھیں ایک ذمی کو قتل کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’اگر دجال میری زندگی میں آ گیا تو میں حجت سے اس کا مقابلہ کروں گا، ورنہ میرے بعد میرا رب تو ہر مومن کا حامی وناصر ہے ہی۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ وحی کے ذریعے سے ملے ہوئے علم کو ایک انداز میں بیان فرماتے تھے اور جن باتوں کا علم آپﷺ کو وحی کے ذریعے سے نہیں دیا جاتا تھا ان کا ذکر بالکل مختلف انداز میں کرتے تھے۔ آپﷺ کا طرز بیان ہی اس فرق کو واضح کر دیتا تھا، لیکن جہاں صحابہؓ کو اس فرق کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آتی تھی وہاں وہ خود آپ سے پوچھ لیتے تھے کہ یہ بات آپﷺ اپنی رائے سے فرما رہے ہیں یا اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے۔ اس کی متعدد مثالیں میں نے تفہیمات حصہ اول کے مضمون آزادی کا اِسلامی تصور میں پیش کی ہیں۔