اعتراض: آپ کے دعوے کے مطابق حضورﷺ کا ہر فیصلہ وحی پر مبنی ہونا چاہیے، لیکن آپ کو خود اس کا اعتراف ہے کہ آپ کے یہ فیصلے وحی پر مبنی نہیں ہوتے تھے۔ چنانچہ آپ نے تفہیم القرآن، ج ا، ص ۱۴۸ پر یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
میں بہرحال ایک انسان ہی تو ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لائو اور تم میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت زیادہ چرب زبان ہو، اور اُس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلے کے ذریعے سے حاصل کی تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کرو گے۔
حضور ﷺکے فیصلوں کی یہی امکانی غلطیاں تھیں جن کے متعلق قرآن کریم نے حضورﷺ کی زبان مبارک سے کہلوایا تھا کہ ’’اگر میں غلطی کرتا ہوں تو وہ میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے، اگرمیں سیدھے راستے پر ہوں تو وہ وحی کی بِنا پر ہوتا ہے۔‘‘({ FR 6822 })
جواب: یہ سخن فہمی کے فقدان کی ایک اور دل چسپ مثال ہے۔ جو شخص قانونی مسائل سے سرسری واقفیت ہی رکھتا ہو، وہ بھی اس بات کو جانتا ہے کہ ہر مقدمے کے فیصلے میں دو چیزیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ ایک: واقعاتِ مقدمہ (facts of the case) جو شہادتوں اور قرائن سے متحقق ہوتے ہیں ۔ دوسرے: ان واقعات پر قانون کا انطباق، یعنی یہ طے کرنا کہ جو واقعات روداد مقدمہ سے معلوم ہوئے ہیں ان کے لحاظ سے اس مقدمے میں قانونی حکم کیا ہے۔ نبی ﷺ نے اس حدیث میں جو کچھ فرمایا ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ میں قانون کو واقعات مقدمہ پر منطبق کرنے میں غلطی کر سکتا ہوں، بلکہ آپ کے ارشاد کا صاف مطلب یہ ہے کہ تم غلط روداد پیش کرکے حقیقت کے خلاف واقعات مقدمہ ثابت کر دو گے تو میں انھی پر قانون کو منطبق کر دوں گا اور خدا کے ہاں اس کی ذمہ داری تم پر ہو گی۔ اس لیے کہ جج کا کام اسی روداد پر فیصلہ کرنا ہے جو فریقین کے بیانات اور شہادتوں سے اس کے سامنے آئے۔ کسی دوسرے خارجی ذریعے سے اس کو حقیقت حال معلوم بھی ہو تو وہ اپنی ذاتی معلومات پر فیصلے کی بِنا نہیں رکھ سکتا بلکہ اصول انصاف کی رو سے اس کو روداد مقدمہ ہی پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا غلط روداد پر جو فیصلہ ہو گا وہ جج کی غلطی نہیں ہے، بلکہ اس فریق کی غلطی ہے جس نے خلافِ حقیقت واقعات ثابت کرکے اپنے حق میں فیصلہ کرایا۔ اس سے وہ بات کہاں نکل آئی جو ڈاکٹر صاحب نکالنا چاہتے ہیں؟ آخر میں دعوٰی کس نے کیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر مقدمے میں نبی ﷺ کوبذریعہ وحی واقعاتِ مقدمہ بتایا کرتا تھا؟ اصل دعوٰی تو یہ ہے کہ حضورﷺقانون کی تعبیر اور حقائق پر ان کے انطباق میں غلطی نہیں کر سکتے تھے، کیوں کہ آپ مامور من اللّٰہ قاضی تھے، اللّٰہ کی دی ہوئی روشنی اس کام میں آپ کی راہ نُمائی کرتی تھی، اور اس بِنا پر آپ کے فیصلے سند اور حجت ہیں۔ اس دعوے کے خلاف کسی کے پاس کوئی دلیل ہو تو وہ سامنے لائے۔
اوپر جس حدیث سے ڈاکٹر صاحب نے استدلال فرمایا ہے اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ ’’میں فیصلے میں غلطی کر سکتا ہوں۔‘‘ علم قانون میں بھی یہ بات پوری طرح مُسَلَّم ہے کہ اگر عدالت کے سامنے کوئی شخص شہادتوں سے خلافِ واقعہ بات کو واقعی ثابت کر دے اور جج ان کو تسلیم کرکے ٹھیک ٹھیک قانون کے مطابق فیصلہ دے دے تو وہ فیصلہ بجائے خود غلط نہیں ہو گا لیکن ڈاکٹر صاحب اسے فیصلے کی غلطی قرار دے رہے ہیں۔