اعتراض: آپ نے لکھا ہے کہ ’’کیا آپ کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں کہ عہد رسالت میں قرآن کے کسی حصے کی تعبیر مشورے سے کی گئی ہو، یا کوئی قانون مشورے سے بنایا گیا ہو؟ بہت سی نہیں صرف ایک مثال ہی آپ پیش فرما دیں۔‘‘ اس کی ایک مثال تو ہمیں مشکوٰۃ شریف میں ملتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن میں نماز کے لیے آواز دینے کا حکم دیا۔ لیکن خود اس دعوت کے طریق کو متعین نہیں کیا۔ اس کا تعین حضورﷺ نے صحابہؓ کے مشورے سے کیا اور اپنی رائے کے خلاف کیا کیوں کہ آپﷺ نے پہلے ناقوس بجانے کا حکم دیا تھا۔ فرمائیے! اذان دین کے احکام میں داخل ہے یا نہیں؟‘‘
جواب: کیا قرآن کی کسی آیت کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس میں نماز کے لیے آواز دینے کا حکم دیا گیا ہو؟ قرآن مجید میں تو نماز کی منادی کا ذکر صرف دو آیتوں میں آیا ہے۔ سورۂ مائدہ آیت ۵۸ میں فرمایا گیا ہے کہ ’’جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو یہ اہل کتاب اور کفار اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘ اور سورۂ جمعہ آیت ۹ میں ارشاد ہوا ہے۔ ’’جب جمعہ کے روز نماز کے لیے پکارا جائے تو اللّٰہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔‘‘ ان دونوں آیتوں میں نماز کی منادی کا ذکر ایک رائج شدہ نظام کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ ہم کو قرآن میں وہ آیت کہیں نہیں ملتی جس میں حکم دیا گیا ہو کہ نمازکی منادی کرو۔
جہاں تک مشکوٰۃ کے حوالے کا تعلق ہے، معلوم ہوتا ہے وہ مشکوٰۃ پڑھ کر نہیں دیا گیا بلکہ صرف سنی سنائی بات یہاں نقل کر دی گئی ہے۔ مشکوٰۃ کی کتاب الصلوٰۃ میں باب الاذان نکال کر دیکھیے۔ اس میں جو احادیث جمع کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں جب نماز باجماعت کا باقاعدہ نظام قائم کیا گیا تو اول اول اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت اس بارے میں نہیں آئی تھی کہ نماز کے لیے لوگوں کو کس طرح جمع کیا جائے۔ حضورﷺ نے صحابہ کرامؓ کو جمع کرکے مشورہ کیا۔ بعض لوگوں نے رائے دی کہ آگ جلائی جائے تاکہ اس کا دھواں بلند ہوتے دیکھ کر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نماز کھڑی ہو رہی ہے۔ بعض دوسرے لوگوں نے ناقوس بجانے کی رائے دی لیکن کچھ اور لوگوں نے کہا پہلا طریقہ یہود کا اور دوسرا نصارٰی کا ہے۔ ابھی اس معاملے میں کوئی آخری فیصلہ نہ ہوا تھا اور اسے سوچا جا رہا تھا کہ حضرت عبداللّٰہ بن زید انصاریؓ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ناقوس لیے جا رہا ہے۔ انھوں نے اس سے کہا: اے بندۂ خدا! یہ ناقوس بیچتا ہے؟ اس نے پوچھا: اس کا کیا کرو گے؟ انھوں نے کہا: نماز کے لیے لوگوں کو بلائیں گے۔ اس نے کہا: میں اس سے اچھا طریقہ تمھیں بتاتا ہوں۔ چنانچہ اس نے اذان کے الفاظ انھیں بتائے۔ صبح ہوئی تو حضرت عبداللّٰہ نے آ کر حضورﷺکو اپنا خواب سنایا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ یہ سچا خواب ہے، اٹھو اور بلالؓ کو ایک ایک لفظ بتاتے جائو، یہ بلند آواز سے پکارتے جائیں گے۔ جب اذان کی آواز بلند ہوئی تو حضرت عمرؓ دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ خدا کی قسم! آج میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے۔ حضورﷺنے فرمایا فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔
یہ ہے مشکوٰۃ کی احادیث درباب اذان کا خلاصہ۔ اس سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ نماز کے لیے اذان دینے کا طریقہ مشورے سے نہیں طے ہوا، بلکہ الہام سے ہوا ہے، اور یہ الہام بصورتِ خواب حضرت عبداللّٰہؓ بن زید اور حضرت عمرؓ پر ہوا تھا ،لیکن مشکوٰۃ کے علاوہ دوسری کتب حدیث میں جو روایات آئی ہیں ان سب کو اگر جمع کیا جائے تو ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جس روز ان صحابیوں کو خواب میں اذان کی ہدایت ملی اُسی روز خود نبیﷺ کے پاس بھی بذریعہ وحی یہ حکم آ گیا تھا۔ فتح الباری میں علامہ ابن حجر نے ان روایات کو جمع کر دیاہے۔