اعتراض: یہ جو میں نے کہا ہے کہ ’’خدا اور رسول‘‘ سے مراد اِسلامی نظام ہے تو یہ میری اختراع نہیں۔ اس کے مجرم آپ بھی ہیں۔ آپ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں سورۂ مائدہ کی آیت اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہَ المائدہ 33:5 کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
خدا اور رسولﷺ سے لڑنے کا مطلب اس نظامِ صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اِسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو… ایسا نظام جب کسی سرزمین میں قائم ہو جاتا ہے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا… دراصل خدا اور اس کے رسولﷺ کے خلاف جنگ ہے۔ (ج ا، ص ۳۶۵)
جواب: یہاں پھر میرے سامنے میری ہی عبارت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی جسارت کی گئی ہے، اصل عبارت یہ ہے:
ایسا نظام جب کسی سرزمین میں قائم ہو جائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر قتل وغارت اور رہزنی وڈکیتی کی حد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اس نظامِ صالح کو الٹنے اور اس کی جگہ کوئی فاسد نظام قائم کر دینے کے لیے ہو، دراصل خدا اور رسولﷺ کے خلاف جنگ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیرات ہند میں ہر اس شخص کو جو ہندستان کی برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے، بادشاہ کے خلاف لڑائی (waging war against the king) کا مجرم قرار دیا گیا۔ چاہے اس کی کارروائی ملک کے کسی دور دراز گوشے میں ایک معمولی سپاہی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور بادشاہ اس کی دسترس سے کتنا ہی دور ہو۔
اب ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی خود دیکھ سکتا ہے کہ بادشاہ کی نمایندگی کرنے والے سپاہی کے خلاف جنگ کو بادشاہ کے خلاف جنگ قرار دینے، اور سپاہی کو خود بادشاہ قرار دے دینے میں کتنا بڑا فرق ہے۔ ایسا ہی عظیم فرق ان دو باتوں میں ہے کہ ایک شخص اللّٰہ اور رسولﷺ کے نظام مطلوب کو چلانے والی حکومت کے خلاف کارروائی کو اللّٰہ اور رسول کے خلاف کارروائی قرار دے اور دوسرا شخص دعوٰی کرے کہ یہ حکومت خود اللّٰہ اور رسولﷺ ہے۔
اس فرق کی نزاکت پوری طرح سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک آپ ان دونوں کے نتائج پر تھوڑا سا غور نہ کر لیں۔ فرض کیجیے کہ اِسلامی حکومت کسی وقت ایک غلط حکم دے بیٹھتی ہے جو قرآن اور سُنّت کے خلاف پڑتا ہے۔ اس صورت حال میں میری تعبیر کے مطابق تو عام مسلمانوں کو اٹھ کر یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ ’’آپ اپنا حکم واپس لیجیے کیوں کہ آپ نے اللّٰہ اور رسولﷺ کے فرمان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اللّٰہ نے قرآن میں یہ فرمایا ہے، رسول اللّٰہ ﷺ کی سُنّت سے یہ ثابت ہے، اور آپ اس سے ہٹ کر یہ حکم دے رہے ہیں، لہٰذا آپ اس معاملے میں اللّٰہ اور رسولﷺ کی صحیح نمایندگی نہیں کرتے‘‘ مگر منکرین حدیث کی تعبیر کے مطابق اِسلامی حکومت خود ہی اللّٰہ اور رسولﷺ ہے۔ لہٰذا مسلمان اس کے کسی حکم کے خلاف بھی یہ استدلال لانے کا حق نہیں رکھتے۔ جس وقت وہ یہ استدلال کریں گے اسی وقت حکومت یہ کہہ کر ان کا منہ بند کر دے گی کہ اللّٰہ اور رسولﷺ تو ہم خود ہیں، جو کچھ ہم کہیں اور کریں، وہی قرآن بھی ہے اور سُنّت بھی۔
منکرینِ حدیث دعوٰی کرتے ہیں کہ قرآن میں جہاں جہاں ’’اللّٰہ اور رسول‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ وہاں اس سے مراد اِسلامی حکومت ہے۔ میں ناظرین سے عرض کروں گا کہ ذرا قرآن کھول کر وہ آیتیں نکال لیجیے جن میں اللّٰہ اور رسولﷺ کے الفاظ ساتھ ساتھ آئے ہیں اور خود دیکھ لیجیے کہ یہاں ان سے حکومت مراد لینے کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں:
۱۔ قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَo
آل عمران 32:3
اے نبیﷺ! ان سے کہو کہ اطاعت کرو اللّٰہ اور رسولﷺ کی۔ پھر اگر وہ اس سے منہ موڑیں تو اللّٰہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
۲۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ النسائ 136:4
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! (سچے دل سے) ایمان لائو اللّٰہ اور رسولﷺ پر
۳۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا الحجرات 15:49
مومن تو اصل میں وہ ہیں جو ایمان لائے اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺپر، پھر شک میں نہ پڑے۔
۴۔ وَمَنْ لَّمْ يُؤْمِنْۢ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ فَاِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَعِيْرًاo الفتح 13:48
اور جو ایمان نہ لائے اللّٰہ اور اس کے رسولؐ پر، تو ایسے کافروںکے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔
۵۔ اِنَّ اللہَ لَعَنَ الْكٰفِرِيْنَ وَاَعَدَّ لَہُمْ سَعِيْرًاo خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۰ۚ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًاo يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَاo الاحزاب 64-66:33
یقینا اللّٰہ نے لعنت کی کافروں پر اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر دی جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ اس روز کوئی حامی ومددگار نہ پائیں گے جب ان کے چہرے آگ پر پلٹائے جائیں گے، اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش! ہم نے اللّٰہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسولﷺ کی اطاعت کی ہوتی۔
۶۔ وَمَا مَنَعَہُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقٰتُہُمْ اِلَّآ اَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَبِرَسُوْلِہٖ
التوبہ 54:9
ان کے انفاق کو قبول ہونے سے کسی چیز نے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ انھوں نے کفر کیا، اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ سے۔
۷۔ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّۃً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ
التوبہ 80:9
اے نبیﷺ! اگر تم ان کے لیے ستر بار مغفرت کی دعا کرو تو اللّٰہ انھیں نہ بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ سے کفر کیا ہے۔
۸۔ وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِہٖ۰ۭ اِنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا وَہُمْ فٰسِقُوْنَo التوبہ 84:9
اور ان میں سے کوئی مر جائے، اس کی نماز جنازہ ہرگز نہ پڑھو اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو۔ انھوں نے اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ سے کفر کیا ہے اور وہ فاسق مرے ہیں۔
۹۔ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْo
محمد 47: 33
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللّٰہ اور رسولﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کر لو۔
۱۰۔ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًاo الجن 23:72
اور جو کوئی اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
۱۱۔اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّہٗ مَنْ يُّحَادِدِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِيْہَا۰ۭ
التوبہ 63:9
کیا انھیں معلوم نہیں ہے کہ جو کوئی اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کرے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔
۱۲۔ وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ يُّرْضُوْہُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَo التوبہ 62:9
اللّٰہ اور اس کا رسولﷺ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ وہ اس کو راضی کریں اگر وہ مومن ہیں۔
ان آیات کو جو شخص بھی بغور پڑھے گا اُسے معلوم ہو جائے گا کہ اگر اللّٰہ اور رسولﷺ کے معنی کہیں حکومت کے ہو جائیں تو دین اِسلام کا حلیہ بگڑ کر رہ جاتا ہے اور ایک ایسی بدترین ڈکٹیٹرشپ قائم ہو جاتی ہے جس کے سامنے فرعون اور چنگیز اور ہٹلر اور مسولینی اور اسٹالین کی آمریتیں ہیچ ہو کر رہ جائیں۔ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ حکومت ہی مسلمانوں کا دین وایمان ہو۔ اس کو ماننے والا مسلمان رہے اور اس سے روگردانی کرنے والا کافر ہو جائے۔ اس کی نافرمانی کرنے والا دُنیا ہی میں جیل نہ جائے بلکہ آخرت میں بھی دائمی جہنم کی سزا بھگتے۔ اس سے اختلاف کرکے آدمی ابدی عذاب میں مبتلا ہو۔ اس کو راضی کرنا شرط ایمان قرار پائے اور جو شخص اس کی اطاعت سے منہ موڑے، اس کی نماز، روز، زکوٰۃ، اور ساری نیکیاں برباد ہو جائیں، بلکہ مسلمانوں کے لیے اس کی نماز جنازہ بھی جائز نہ ہو اور اس کے لیے دعائے مغفرت تک نہ کی جا سکے۔ ایسی حکومت سے آخر دُنیا کی کسی آمریت کو کیا نسبت ہو سکتی ہے۔
پھر ذرا اس پہلو پر غور کیجیے کہ بنی امیہ کے بعد سے آج تک ساری دُنیائے اِسلام کبھی ایک دن کے لیے بھی ایک حکومت میں جمع نہیں ہوئی ہے اور آج بھی مسلم ممالک میں بہت سی حکومتیں قائم ہیں۔ اب کیا انڈونیشیا، ملایا، پاکستان، ایران، ترکی، عرب، مصر، لیبیا، تونس اور مراکش میں سے ہر ایک کے ’’اللّٰہ اور رسولﷺ‘‘ الگ الگ ہوں گے؟ یا کسی ایک ملک کے ’’اللّٰہ اور رسولﷺ‘‘ زبردستی اپنی آمریت دوسرے ملکوں پر مسلط کریں گے؟ یا اِسلام اس وقت تک پورا کا پورا معطل رہے گا جب تک پوری دُنیائے اِسلام متفق ہو کر ایک ’’اللّٰہ اور رسولﷺ‘‘ کا انتخاب نہ کر لے؟