اعتراض: آپ لکھتے ہیں کہ
آپ نے یہ مراسلت واقعی بات سمجھنے کے لیے کی ہوتی تو سیدھی بات سیدھی طرح آپ کی سمجھ میں آ جاتی لیکن آ پ کی تو سکیم ہی کچھ اور تھی۔ آپ نے اپنے ابتدائی سوالات میرے پاس بھیجنے کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے علما کے پاس بھی اس امید پر بھیجے تھے کہ ان سے مختلف جوابات حاصل ہوں گے اور پھر ان کا مجموعہ شائع کرکے یہ پروپیگنڈہ کیا جا سکے گا کہ علما سُنّت سُنّت تو کرتے ہیں مگر دو عالم بھی سُنّت کے بارے میں ایک متفقہ رائے نہیں رکھتے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۶۰ء)
کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو میری اس ’’سکیم‘‘ کا علم کیسے ہوا؟ کیا آپ کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے کہ میری نیت وہی تھی جسے آپ میری طرف منسوب کر رہے ہیں؟
جواب:آدمی کی نیت کا براہ راست علم تو اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا، البتہ انسان جس چیز سے کسی شخص کی نیت کا اندازہ کر سکتے ہیں وہ اس شخص کا عمل، اور ان لوگوں کا مجموعی طرز عمل ہے جن کے ساتھ مل کر وہ کام کر رہا ہو۔ ڈاکٹر صاحب مخالفینِ سُنّت کے جس گروہ سے تعاون کر رہے ہیں وہ ایڑی چوٹی کا زور یہ ثابت کرنے کے لیے لگا رہا ہے کہ سُنّت ایک مشتبہ اور مختلف فیہ چیز ہے۔ اس غرض کے لیے جس طرز کا پروپیگنڈہ ان لوگوں کی طرف سے ہو رہا ہے اس پر طلوع اِسلام کے صفحات اور اس ادارے کی مطبوعات شاہد ہیں۔ ان کاموں کو دیکھ کر یہ رائے بمشکل ہی قائم کی جا سکتی ہے کہ اسی گروہ کے ایک ممتاز فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب کی طرف سے علما کرام کے نام جو گشتی سوالنامہ بھیجا گیا تھا، وہ خالص علمی تحقیق کی خاطر تھا۔