دوسرا نکتہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے:
لیکن اس بات پر آپ سے اتفاق نہیں ہے کہ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں حضورﷺ نے جو کچھ کیا تھا، یہ وہ سُنّت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلیٰ کے قانون برتر کی تشکیل وتکمیل کرتی ہے۔ بے شک حضورﷺنے حاکمِ اعلیٰ کے قانون کے مطابق معاشرے کی تشکیل تو فرمائی لیکن یہ کہ کتاب اللّٰہ کا قانون (نعوذ باللّٰہ) نامکمل تھا اور جو کچھ حضورﷺ نے عملًا کیا اس سے اس قانون کی تکمیل ہوئی، میرے لیے ناقابل فہم ہے۔
اسی سلسلے میں آگے چل کر آپ پھر فرماتے ہیں:
نہ معلوم آپ کن وجوہات کی بِنا پر کتاب اللّٰہ کے قانون کو نامکمل قرار دیتے ہیں۔ کم از کم میرے لیے تو یہ تصور بھی جسم میں کپکپی پیدا کر دیتا ہے۔ کیا آپ قرآن کریم سے کوئی ایسی آیت پیش فرمائیں گے جس سے معلوم ہو کہ قرآن کا قانون نامکمل ہے۔
ان فقروں میں آپ نے جو کچھ فرمایا ہے، یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو علم قانون کے ایک مُسلم قاعدے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آپ کو لاحق ہوئی ہے۔ دُنیا بھر میں یہ قاعدہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ قانون سازی کا اختیار اعلیٰ جس کو حاصل ہو وہ اگر ایک مجمل حکم دے کر، یاایک عمل کا حکم دے کر، یا ایک اصول طے کرکے اپنے ماتحت کسی شخص، یا ادارے کو اس کی تفصیلات کے بارے میں قواعد وضوابط مرتب کرنے کے اختیارات تفویض کر دے تو اس کے مرتب کردہ قواعد وضوابط قانون سے الگ کوئی چیز نہیں ہوتے، بلکہ اسی قانون کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ قانون ساز کا اپنا منشا یہ ہوتا ہے کہ جس عمل کا حکم بھی میں نے دیا ہے، ذیلی قواعد (bye laws) بنا کر اس پر عمل درآمد کا طریقہ (procedure) مقرر کر دیا جائے، جو اصول اس نے طے کیا ہے اس کے مطابق مفصل قوانین بنائے جائیں، اور جو مجمل ہدایت اس نے دی ہے اس کے منشا کو تفصیلی شکل میں واضح کر دیا جائے۔ اسی غرض کے لیے وہ خود اپنے ماتحت شخص، یا اشخاص، یا اداروں کو قواعد وضوابط مرتب کرنے کا مجاز کرتا ہے۔ یہ ذیلی قواعد بلاشبہ اصل ابتدائی قانون کے ساتھ مل کر اس کی تشکیل وتکمیل کرتے ہیں، مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قانون ساز نے غلطی سے ناقص قانون بنایا تھا، اور کسی دوسرے نے آ کر اس کا نقص دور کیا، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ قانون ساز نے اپنے قانون کا بنیادی حصہ خود بیان کیا اور تفصیلی حصہ اپنے مقرر کیے ہوئے ایک شخص یا ادارے کے ذریعے سے مرتب کرا دیا۔
حضورﷺ کے تشریعی کام کی نوعیت
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قانون سازی میں یہی قاعدہ استعمال فرمایا ہے۔ اس نے قرآن میں مجمل احکام اور ہدایات دے کر، یا کچھ اصول بیان کرکے، یا اپنی پسند وناپسند کا اظہار کرکے، یہ کام اپنے رسولﷺ کے سپرد کیا کہ وہ نہ صرف لفظی طور پر اس قانون کی تفصیلی شکل مرتب کریں بلکہ عملًا اسے برت کر اور اس کے مطابق کام کر کے بھی دکھا دیں۔ یہ تفویضِ اختیارات کا فرمان خود قانون کے متن (یعنی قرآن مجید) میں موجود ہے:
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ النحل 44:16
اور (اے نبیﷺ!) ہم نے یہ ذکر تمھاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کر دو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے۔
اس صریح فرمانِ تفویض کے بعد آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللّٰہﷺ کا قولی اور عملی بیان، قرآن کے قانون سے الگ کوئی چیز ہے۔ یہ درحقیقت قرآن ہی کی رو سے اس کے قانون کا ایک حصہ ہے۔ اس کو چیلنج کرنے کے معنی خود قرآن کو اور خدا کے پروانۂ تفویض کوچیلنج کرنے کے ہیں۔
اس تشریعی کام کی چند مثالیں
یہ اگرچہ آپ کے نکتے کا پورا جواب ہے، لیکن میں مزید تفہیم کی خاطر چند مثالیں دیتا ہوں جن سے آپ سمجھ سکیں گے کہ قرآن اور نبی کی شرح وبیان کے درمیان کس قسم کا تعلق ہے:
۱۔ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا کہ وہ پاکیزگی کو پسند کرتا ہے: وَاللہُ يُحِبُّ الْمُطَّہِّرِيْنَo التوبہ 108:9 اور نبی ﷺ کو ہدایت کی کہ اپنے لباس کو پاک رکھیں۔ وَثِيَابَكَ فَطَہِرْo المدثر4:74 حضور ﷺ نے اس منشا پر عمل درآمد کے لیے استنجا اور طہارتِ جسم ولباس کے متعلق مفصل ہدایات دیں اور ان پر خود عمل کرکے بتایا۔
۲۔ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اگر تم کو جنابت لاحق ہو گئی تو پاک ہوئے بغیر نماز نہ پڑھو (النساء:۴:۴۳، المائدہ۵:۶)۔ نبی ﷺ نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ جنابت سے کیا مراد ہے۔ اس کا اطلاق کن حالتوں پر ہوتا ہے اور کن حالتوں پر نہیں ہوتا اور اس سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے۔
۳۔ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنا منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لو، سر پر مسح کرو اور پائوں دھودو، یا ان پر مسح کرو، (المائدہ۵:۶) نبی ﷺ نے بتایا کہ منہ دھونے کے حکم میں کلی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے۔ کان سر کا ایک حصہ ہیں اور سر کے ساتھ ان پر بھی مسح کرنا چاہیے۔ پائوں میں موزے ہوں تو مسح کیا جائے اور موزے نہ ہوں تو ان کو دھونا چاہیے۔ اس کے ساتھ آپ نے تفصیل کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ وضو کن حالات میں ٹوٹ جاتا ہے اور کن حالات میں باقی رہتا ہے۔
۴۔ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ رکھنے والا رات کو اس وقت تک کھا پی سکتا ہے جب تک فجر کے وقت کالا تاگا سفید تاگے سے ممیز نہ ہو جائے:حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۰۠ البقرہ 187:2 نبی ﷺ نے بتایا کہ اس سے مراد تاریکیِ شب کے مقابلے میں سپیدۂ صبح کا نمایاں ہونا ہے۔
۵۔ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں میں بعض اشیا کے حرام اور بعض کے حلال ہونے کی تصریح کرنے کے بعد باقی اشیا کے متعلق یہ عام ہدایت فرمائی کہ تمھارے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کی گئی ہیں(المائدہ ۵:۴) نبی ﷺ نے اپنے قول اور عمل سے اس کی تفصیل بتائی کہ پاک چیزیں کیا ہیں جنھیں ہم کھا سکتے ہیں اور ناپاک چیزیں کون سی ہیں جن سے ہم کو بچنا چاہیے۔
۶۔ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے وراثت کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میت کی نرینہ اولاد کوئی نہ ہوا ور ایک لڑکی ہو تو وہ نصف ترکہ پائے گی اور دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کو ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا(النساء۴:۱۱)۔ اس میں یہ بات واضح نہ تھی کہ اگر دو لڑکیاں ہوں تو وہ کتنا حصہ پائیں گی۔ نبی ﷺ نے توضیح فرمائی کہ دو لڑکیوں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا دو سے زائد لڑکیوں کا مقرر کیا گیا ہے۔
۷۔ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا (النساء۴:۲۳) نبی ﷺ نے بتایا کہ پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی کو جمع کرنا بھی اسی حکم میں داخل ہے۔
۸۔ (قرآن ({ FR 6805 })مردوں کو اجازت دیتا ہے کہ دو دو،تین تین، چار چار عورتوں سے نکاح کر لیں (النساء۴:۳) یہ الفاظ اس معاملے میں قطعًا واضح نہیں ہیں کہ ایک مرد بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا۔ حکم کے اس منشا کی وضاحت نبی ﷺ نے فرمائی اور جن لوگوں کے نکاح میں چار سے زیادہ بیویاں تھیں ان کو آپ نے حکم دیا کہ زائد بیویوں کو طلاق دے دیں۔
۹۔ قرآن حج کی فرضیت کا عام حکم دیتا ہے اور یہ صراحت نہیں کرتا کہ اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے آیا ہر مسلمان کو ہر سال حج کرنا چاہیے یا عمر میں ایک بار کافی ہے، یا ایک سے زیادہ مرتبہ جانا چاہیے (آل عمران۳:۹۷)۔ یہ نبی ﷺ ہی کی تشریح ہے جس سے ہم کو معلوم ہوا کہ عمر میں صرف ایک مرتبہ حج کرکے آدمی فریضۂ حج سے سبک دوش ہو جاتا ہے۔
۱۰۔ قرآن سونے اور چاندی کے جمع کرنے پر سخت وعید فرماتا ہے۔ سورۂ توبہ کی آیت ۳۴ کے الفاظ ملاحظہ فرما لیجیے۔ اس کے عموم میں اتنی گنجائش بھی نظر نہیں آتی کہ آپ روز مرہ کے خرچ سے زائد ایک پیسہ بھی اپنے پاس رکھ سکیں، یا آپ کے گھر کی خواتین کے پاس سونے یا چاندی کا ایک تار بھی زیور کے طور پر رہ سکے۔ یہ نبی ﷺ ہی ہیں جنھوں نے بتایا کہ سونے اور چاندی کا نصاب کیا ہے اور بقدر نصاب یا اس سے زیادہ سونا چاندی رکھنے والا آدمی اگر اس پر ڈھائی فی صدی کے حساب سے زکوٰۃ ادا کر دے تو وہ قرآن مجید کی اس وعید کا مستحق نہیں رہتا۔)
ان چند مثالوں سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اللّٰہ تعالیٰ کے تفویض کردہ تشریعی اختیارات کو استعمال کرکے، قرآن کے احکام وہدایات اور اشارات ومضمرات کی کس طرح شرح وتفسیر فرمائی ہے۔ یہ چیز چوں کہ خود قرآن میں دیے ہوئے فرمانِ تفویض پر مبنی تھی اس لیے یہ قرآن سے الگ کوئی مستقل بالذات نہیں ہے، بلکہ قرآن کے قانون ہی کا ایک حصہ ہے۔