اعتراض: نزول قرآن کے وقت دُنیا میں مذہب اور سیاست دو الگ الگ شعبے بن گئے تھے۔ مذہبی امور میں مذہبی پیشوائوں کی اطاعت ہوتی تھی اور سیاسی یا دُنیاوی امور میں حکومت کی۔ قرآن نے اس ثنویت کو مٹایا اور مسلمانوں سے کہا کہ رسول اللّٰہﷺ تمھارے مذہبی راہ نُما ہی نہیں، سیاسی اور تمدنی امور میں تمھارے سربراہ بھی ہیں، اس لیے ان تمام امور میں آپﷺ ہی کی اطاعت کی جائے گی۔ رسول اللّٰہ ﷺ کے بعد یہ تمام مناصب (یعنی خدا سے وحی پانے کے علاوہ دیگر مناصب) حضور ﷺ کے سچے جانشین (خلیفۃ الرسول) کی طرف منتقل ہو گئے اور اب خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت کے معنی اس نظام کی اطاعت ہو گئے جسے عام طور پر خلافت علیٰ منہاج نبوت کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی کو میں نے ’’مرکزِ ملت‘‘ کی اصطلاح سے تعبیر کیا تھا جس کا آپ مذاق اڑا رہے ہیں۔
جواب: اس دعوے کی دلیل کیا ہے کہ حامل وحی ہونے کے سوا باقی جتنی حیثیات بھی نبیﷺ کو اِسلامی نظام میں حاصل تھیں وہ سب آپﷺ کے بعد خلیفہ یا ’’مرکزِ ملت‘‘ کو منتقل ہوگئیں؟ کیا قرآن میں یہ بات کہی گئی ہے؟ یا رسول اللّٰہﷺ نے اس کی تصریح کی ہے؟ یا خلفائے راشدین نے کبھی یہ دعوٰی کیا ہے کہ ہم کو یہ حیثیت حاصل ہے؟ کیا عہد رسالت ﷺ سے لے کر آج تک علمائے امت میں سے کسی قابل ذکر آدمی کا مسلک یہ رہا ہے؟ قرآن مجید جو کچھ کہتا ہے وہ اس کتاب میں (منصبِ نبوت اور اُس کے فرائض، کے عنوان سے) پیش کر چکا ہوں۔ نبی ﷺ کے کسی ارشاد کو یہ لوگ مانتے نہیں، ورنہ میں بکثرت مستند ومعتبر احادیث پیش کرتا جن سے اس دعوے کی قطعی تردید ہو جاتی ہے۔ خلفائے راشدین کے متعلق منکرین حدیث کا دعوٰی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس حیثیت پر فائز سمجھتے تھے، مگر میں نے اسی کتاب (میں ’’اتباعِ سنت اور خلفائے راشدین‘‘ کے عنوان سے) حضرات ابوبکر وعمر اور عثمان وعلی رضی اللّٰہ عنہم کے اپنے اقوال پیش کر دیے ہیں جن سے یہ جھوٹا الزام ان پر ثابت نہیں ہوتا۔ اب یہ اصحاب کم از کم یہی بتا دیں کہ پچھلی چودہ صدیوں میں کب کس عالم دین نے یہ بات کہی ہے۔