اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ سُننِ ثابتہ کے اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے (پاکستان میں صحیح اِسلامی آئین کے مطابق) قانون سازی کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ:
شخصی قانون (پرسنل لا) کی حد تک ہر ایک گروہ کے لیے احکام قرآن کی وہی تعبیر اور سنن ثابتہ کا وہی مجموعہ معتبر ہو، جسے وہ مانتا ہے اور ملکی قانون (پبلک لا) کی تعبیر قرآن اور ان سنن ثابتہ کے مطابق ہو، جس پر اکثریت اتفاق کرے۔
کیا میں یہ پوچھنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ شخصی قانون اور ملکی قانون کا یہ فرق رسول اللّٰہﷺ یا حضورﷺ کے خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی تھا؟ اور کیا قرآن کریم سے اس تفریق کی کوئی سند مل سکتی ہے؟
جواب: یہ سوالات صرف اس بِنا پر پیدا ہوئے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نہ تو شخصی قانون اور ملکی قانون کے معنی اور حدود کو سمجھے ہیں اور نہ اس عملی مسئلے پر انھوں نے کچھ غور کیا ہے جو پاکستان میں ہمیں درپیش ہے۔ شخصی قانون سے مراد وہ قوانین ہیں جو لوگوں کی خانگی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے نکاح وطلاق اور وراثت اور ملکی قانون سے مراد وہ قوانین ہیں جو ملک کے عام نظم وضبط کے لیے درکار ہیں، مثلاً فوجداری اور دیوانی قانون۔ پہلی قسم کے بارے میں یہ ممکن ہے کہ ایک مملکت میں اگر مختلف گروہ موجود ہوں تو ان میں سے ہر ایک کے حق میں اس قانون کو نافذ کیا جائے جس کا وہ خود قائل ہو تاکہ اسے اپنی خانگی زندگی کے محفوظ ہونے کا اطمینان حاصل ہو جائے لیکن دوسری قسم کے قوانین میں الگ الگ گروہوں کا لحاظ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ لامحالہ سب کے سب یکساں ہی ہونے چاہییں۔ قرآن مجید کے عہد میں مسلمان تو ایک ہی گروہ تھے لیکن مملکت اِسلامیہ میں یہودی، عیسائی اور مجوسی بھی شامل تھے جن کے شخصی قوانین مسلمانوں سے مختلف تھے۔ قرآن نے ان کے لیے جزیہ دے کر مملکت اِسلامیہ میں رہنے کی جو گنجائش نکالی تھی اس کے معنی یہی تھے کہ ان کے مذہب اور ان کے شخصی قانون میں مداخلت نہ کی جائے گی، البتہ اِسلام کا ملکی قانون ان پر بھی اسی طرح نافذ ہو گا جس طرح مسلمانوں پر ہو گا۔ چنانچہ اسی قاعدے پر نبی ﷺ اور خلفائے راشدین کی حکومت نے عمل کیا۔
اب پاکستان میں ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں وہ نزول قرآن کا زمانہ نہیں ہے، بلکہ اس سے ۱۴ سو سال بعد کا زمانہ ہے۔ ان پچھلی صدیوں میں مسلمانوں کے اندر متعدد فرقے بن چکے ہیں اور ان کو بنے اور جمے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں۔ ان کے درمیان قرآن کی تعبیر میں بھی اختلافات ہیں اور سُنّتوں کی تحقیق میں بھی۔ اگر ہم ان مختلف فرقوں کو یہ اطمینان دلادیں کہ ان کے مذہبی اور خانگی معاملات انھی کی مُسلَّمہ فقہ پر قائم رہیں گے اور صرف ملکی معاملات میں ان کو اکثریت کا فیصلہ ماننا ہو گا تو وہ بے کھٹکے ایک مشترک ملکی نظام اِسلامی اصولوں پربنانے کے لیے تیار ہو جائیں گے لیکن اگر کوئی ’’مرکزِ ملت‘‘ صاحب قرآن کا نام لے کر ان کے مذہبی عقائد وعبادات اور ان کے خانگی معاملات میں زبردستی مداخلت کرنے پر اتر آئیں اور ان سارے فرقوں کو توڑ ڈالنا چاہیں، تو یہ ایک سخت خونریزی کے بغیر ممکن نہ ہو گا۔ بلاشبہ یہ ایک مثالی حالت ہو گی کہ مسلمان پھر ایک ہی جماعت کی حیثیت اختیار کر لیں جس میں امت مسلمہ کے لیے تمام قوانین کھلے اور آزادانہ بحث ومباحثے سے طے ہو سکیں لیکن یہ مثالی حالت نہ پہلے ڈنڈے کے زور سے پیدا ہوئی تھی، نہ آج اسے ڈنڈے کے زور سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔