اعتراض: متن اور اس کی تعبیرات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ قرآن کریم کے متن میں کسی ایک حرف کے متعلق بھی شک و شبہے کی گنجائش نہیں۔ باقی رہیں اس کی تعبیرات، سو وہ انسانی فعل ہے جو کسی دوسرے کے لیے دین کی سند اور حجت نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس احادیث کی تعبیرات میں نہیں ان کے متن میں ہی اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی موجودگی میں سُنّت کو آئین اِسلامی کا مآخذ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟‘‘
جواب: اصل قابلِ غور سوال تو یہی ہے کہ اگر کتاب کے الفاظ متفق علیہ ہوں لیکن تعبیرات میں اختلاف ہو تو وہ آئین کی بنیاد کیسے بنے گی؟ ڈاکٹر صاحب خود فرما رہے ہیں کہ ’’تعبیر ایک انسانی فعل ہے جو کسی دوسرے کے لیے حجت اور سند نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس صورت میں تو لامحالہ صرف الفاظ حجت اور سند رہ جاتے ہیں، اور معنی میں اختلاف ہو جانے کے بعد ان کا حجت وسند ہونا لاحاصل ہوتا ہے، کیوں کہ عملًا جو چیز نافذ ہوتی ہے وہ کتاب کے الفاظ نہیں، بلکہ اس کے وہ معنی ہوتے ہیں جنھیں کسی شخص نے الفاظ سے سمجھا ہو۔ اسی لیے میں نے اپنے دوسرے خط میں ان سے عرض کیا تھا کہ پہلے آپ اپنے اس نقطۂ نظر کو بدلیں کہ ’’آئین کی بنیاد صرف وہی چیز بن سکتی ہے جس میں اختلاف نہ ہو سکے۔‘‘ اس کے بعد جس طرح یہ بات طے ہو سکتی ہے کہ قرآن مجید بجائے خود اساسِ آئین ہو اور اس کی مختلف تعبیرات میں سے وہ تعبیر نافذ ہو جو کسی بااختیار ادارے کے نزدیک اقرب الی الصواب قرار پائے۔ اسی طرح یہ بات بھی طے ہو سکتی ہے کہ سُنّت کو بجائے خود اساس آئین مان لیا جائے اور معاملات میں عملًا وہ سُنّت نافذ ہو جو کسی بااختیار ادارے کی تحقیق میں سُنّت ثابتہ قرار پائے۔ قرآن کے الفاظ کو اساس آئین ماننے کا فائدہ یہ ہو گا کہ تعبیر کے اختلافات کا سارا چکر صرف الفاظ قرآن کے حدود میں گھوم سکے گا، ان کے دائرے سے باہر نہ جا سکے گا۔ اسی طرح ’’سُنّت‘‘ کو اساس آئین ماننے کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمیں اپنے عمل کے لیے انھی ہدایات وتعلیمات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جو رسول اللّٰہ ﷺ سے ماثور ہیں اور ہم کوئی آزادانہ قانون سازی اس وقت تک نہ کر سکیں گے جب تک تحقیق سے ہمیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ فلاں مسئلے میں کوئی سُنّت ثابت نہیں ہے۔ یہ سیدھی سی بات سمجھنے میں آخر کیا دقت ہے۔